تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     06-12-2015

جمہوریت اور کرپشن

چھ سات سال پہلے کی بات ہے ایک مشہور این جی او کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ اس این جی او نے پاکستان میں جمہوری اداروں کی قوت کو ناپنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ میں میٹنگ میں موجود تھا۔ حاضرین کی اکثریت اس نیک کام کو سرانجام دینے والے گروپ کے ممبران پر مشتمل تھی۔ تمام لوگ باری باری اپنے افکار کا اظہار کر رہے تھے۔ میری باری آئی تو میں نے کہا کہ تھرڈ ورلڈ میں جمہوریت اور کرپشن کے مابین رشتہ ضرور ہے، ورنہ ہم آصف زرداری کو اپنا صدر منتخب نہ کرتے۔ محترمہ شیری رحمن بھی وہاں موجود تھیں۔انہوں نے قہر بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔ ظاہر ہے کہ میں نے ان کے محبوب لیڈر کی شان میں گستاخی کی تھی لیکن یہاں میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ میں پیپلز پارٹی کے ازلی دشمنوں میں سے نہیں ہوں، میرا مقصد صرف بے لاگ اور غیر جانبدار تجزیہ تھا۔
میں نے جمہوریت اور کرپشن کے باہمی رشتہ کو اجاگر کرتے ہوئے اسے تھرڈ ورلڈ سے منسلک کیا تھا۔ 1995ء سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہر سال انٹرنیشنل کرپشن انڈیکس شائع کرتی ہے۔ 1995ء میں اسی سٹڈی کے مطابق دنیا کے تین ایماندار ترین ممالک میں نیوزی لینڈ، ڈنمارک اور سنگا پور تھے اور یہ تینوں جمہوری ممالک ہیں، لیکن ان تینوں ممالک کا شمار ترقی یافتہ اقوام میں ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ملکوں سے کرپشن بھاگ جاتی ہے کیونکہ لوگ ووٹ دیتے وقت لیڈروں کا احتساب کرتے ہیں۔ ڈنمارک اور برطانیہ میں لوگ ووٹ برادری کی بنیاد پر نہیں دیتے اور نہ ہی وہاں لسانی یا مذہبی تعصب انتخابات میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ جمہوریت کرپشن کو جنم نہیں دیتی، ورنہ برطانیہ آج دنیا کا کرپٹ ترین ملک ہوتا کہ وہاں کی پارلیمانی جمہوریت عہد حاضر میں سب سے قدیم ہے۔
اتفاق سے 1995ء کی لسٹ میں ہی دنیا کے تین کرپٹ ترین ممالک میں وطن عزیز بھی شامل تھا۔ باقی دو ممالک انڈونیشیااورچین تھے۔ 1995ء پاکستان میں جمہوریت کا سال تھا اور پیپلزپارٹی حکمران جماعت تھی۔ ملٹری دور کے انڈیکس کو دیکھنے کے لیے میں نے سال 2003ء کا انتخاب کیا۔ اس سال ٹوٹل 133ممالک کا سروے ہوا اور پاکستان 92 نمبر پر تھا۔ یاد رہے ایک نمبر ملک ایماندار ترین شمار ہوتا ہے۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ ملٹری ادوار میں پاکستان سے کرپشن غائب تو نہیں ہوتی، البتہ کچھ کم ضرور ہو جاتی ہے۔ یہ کمی مارشل لا کے ابتدائی برسوں میں واضح نظر آتی ہے ،لیکن جونہی فوجی حکمران کسی سرکاری جماعت کا سہارا لیتے ہیں، کرپشن پھر سے واپس آنے لگتی ہے۔ راتوں رات سیاسی وفاداریاں بدلنے والے سیاست دان اپنی قیمت ضرور وصول کرتے ہیں۔ کرپشن کا کلچر پھر سے پروان چڑھنے لگتا ہے۔
زرداری صاحب اٹھارہ سال بعد ایس جی ایس کو ٹکناکیس میں باعزت رہا ہو گئے ہیں۔ جج صاحب کا کہنا تھا کہ ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں، کچھ دستاویزات کی فوٹو کاپیاں ہیں مگر محض فوٹو کاپیوں کی بنا پر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل کاپیاں کہاں گئیں؟ کیا وہ سابق سفیر واجد شمس الحسن سوئٹزرلینڈ سے لے آئے تھے؟ پتہ چلا کہ جب واجد صاحب اپنے لیڈر کے کاغذات سمیٹنے لندن سے بھاگے بھاگے سوئٹزر لینڈ گئے تھے تو ان سے پہلے یعنی 1998ء کے آس پاس ایک سینئر بیوروکریٹ حسن وسیم افضل سوئٹزر لینڈ سے اصل کاپیاں پاکستان لے آئے تھے۔ اُس زمانے میں کروڑوں روپے دنیا بھر میں وکیلوں کو دیئے گئے۔ یاد رہے کہ اس زمانے کا کروڑ آج کے ارب جیسا ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے، اس وقت کے اٹارنی جنرل چوہدری محمد فاروق مرحوم نے اس کیس پر بڑی محنت کی تھی۔ اس وقت ایس ایم انعام اللہ سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ وہ بھی حقائق کے کھوج میں بہت متحرک تھے۔ 1998ء میں میاں نواز شریف ہر قیمت پر ثابت کرنا چاہتے تھے کہ زرداری صاحب نہ صرف ملزم ہیں بلکہ مجرم بھی ہیں، اور 2015ء کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو اصل کاپیاں ہی نہیں ملیں۔ میاں صاحب میں یقینا بہت بڑا انقلاب آیا ہے۔ اب وہ ہر حالت میں جمہوریت کو بچانا چاہتے ہیں اور بدقسمتی سے آج کے پاکستان میں جمہوریت بچانے کے لیے انہیں کرپشن سے صرف نظر کرنا پڑا ہے۔ لیکن کرپشن حکومتی اداروں اور گڈگورننس کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ اگر تھانوں اور ضلع کچہریوں میں رشوت چلتی ہے، اور عوام کو انصاف نہیں ملتا تو وہ بددل اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ اور جدید اصطلاح کے مطابق کرپشن صرف 
رشوت تک محدود نہیں بلکہ اختیارات کے غلط استعمال کا نام بھی کرپشن ہی ہے۔ اگر کوئی وزیر یا افسر میرٹ سے ہٹ کر اپنے سیاسی سپورٹرز یا بھتیجے بھانجوں کو جاب دیتا ہے تو وہ بھی کرپشن کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسی طرح کی کرپشن سے ہم نے پاکستان سٹیل ملز جیسے اداروں کا بیڑہ غرق کیا، اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ان اداروں کی نج کاری نہیں ہونے دیں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان اداروں میں سیاسی جماعتوں کے سفارشی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنے نکمے چیلوں کا دفاع کریں گی تو یہ ادارے کیسے چلیں گے؟ گورننس کی خامیاں جمہوریت کے لیے خطرناک ہیں۔ پچھلے ماہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں اسی طرف اشارہ تھا۔ عام طور پر سیاسی پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ بیورو کریسی کو اپنے تابع رکھنا ضروری ہے۔ بھٹو صاحب نے اس سوچ پر عمل کرتے ہوئے لیٹرل اینٹری کے ذریعہ اپنے من پسند بیورو کریٹ بھرتی کئے تھے، اور پھر 1300 سرکاری افسروں کو آناً فاناً نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ اس قدر عجلت میں کیا گیا کہ لسٹ میں شامل کچھ لوگ ریٹائر ہو چکے تھے۔ مقصد بیورو کریسی کو اپنا غلام بنانا تھا۔ ہمیں آزاد عدلیہ کے علاوہ آزاد بیوروکریسی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہماری فوج کی پرفارمنس سول سے بہتر کیوں ہے؟ اس لیے کہ وہاں بھرتی اور ترقی میرٹ پر ہوتی ہے۔
مبارک ہو سپرماڈل ایان علی کو پاسپورٹ واپس مل گیا ہے۔ ان پر فرد جرم عائد کرنے میں مہینے لگ گئے۔ انٹرنیٹ اور میڈیا سے صاف تاثر ملتا ہے کہ اس لڑکی کے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں سے تعلقات ہیں۔ گرفتار ہونے سے پہلے وہ دبئی کے درجنوں چکر لگا چکی تھی۔ ڈاکٹر عاصم حسین پر ہاتھ ڈالا گیا تو ایک صوبائی حکومت واضح طور پر ناراض نظر آئی۔ ہمارے ہاں سیاسی اقتدار کا مطلب مادر پدر آزادی سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ میں کوئی وزیر اپنے کسی سٹاف یا عزیز کے غلط کام کے لیے فون کر دے تو اسے عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے۔
کرپشن کو ختم کرنے کے لیے احتساب کا غیر جانبدارانہ اور بے رحم نظام چاہیے، جو ہمارے ہاں وجود نہیں رکھتا۔ بڑے بڑے لیڈروں کے بیرون ملک اثاثے ہیں۔ کوئی سوال نہیں کرتا کہ یہ کہاں سے آئے۔ ہمیں حضرت عمر فاروقؓ جیسے عادل اور خوف خدا رکھنے والے حکمران کی ضرورت ہے۔ 
نیب کے موجودہ چیئرمین کو مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں نے سلیکٹ کیا تھا۔ موصوف ایک زمانے میں صدر ضیاء الحق کے اے ڈی سی ہوتے تھے۔ پھر عقبی دروازے سے ڈی ایم جی میں آئے۔ سمجھدار اور متحمل مزاج انسان ہیں سب سے بنا کر رکھتے ہیں، لیکن ہمیں غیر جانب دار، نڈر اور بے رحم محتسب چاہئے، جو اپنے دوستوں کو بھی غلط کام کرنے پر پکڑے۔ کیا موجودہ حکمران طارق کھوسہ یا شعیب سڈل جیسے افسروں کو نیب کا چیئرمین لگا سکتے ہیں؟ جی نہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا بیان ہے کہ بد انتظامی اور کرپشن سے ملک تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا ہے انہیں یہ بخوبی علم ہو گا کہ یہ کارنامہ ہمارا اپنا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کا شعر یاد آ رہا ہے ؎
میں اگر سوختہ سامان ہوں تو یہ روز سیاہ
خود اسی گھر کے چراغوں نے دکھایا ہے مجھے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved