پروردگار کو ہمیشہ انتظار رہتا ہے۔ اس ایک بندے کا، جو واقعی اس کا بندہ ہو۔ اقبالؔ نے کہاتھا : عبد دیگر عبدہ‘ چیزے دگر۔ بندہ اور ہوتا ہے اور اللہ کا بندہ کچھ اور ع
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
''A Star is born‘‘... پچاس برس ہوتے ہیں سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اپنے اداریے میں لکھا تھا۔ یہ جواں سال محمد رفیق اختر کے بارے میں تھا جو ابھی ایک طالب علم تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم۔ بعد میں وہ احمد رفیق اختر ہوگئے۔ لاہور میں چرچے کا آغاز ہی ہوا تھا کہ جواں سال شاعر نے توبہ کرلی۔ تصوف کی تاریخ عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہے اور یہ ان میں سے ایک ہے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا، انہی کی زبانی سنیے۔
''س:آپ نے شاعری بھی کی؟
ج: میں اچھا بھلا شاعر تھا، بس اللہ میاں نے وہاں بھی میرا سارا کام خراب کر دیا۔ فرمایا کہ شعراء تو جھوٹ کی وادیوں میں سفر کرنے والے ہیں۔ میرے پاس چارہ ہی کیا تھا۔ میں اس کی سنتا یا اپنے دل کی بات مانتا۔ تھوڑی بہت شاعری اس زمانے میں چھپی ہے۔ کچھ شعر گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین میں چھپے ہیں، ایک رسالہ چکوال میں چھپاتھا سارا میرے ہی کلام پہ مبنی تھا۔ ایک دوسرے شخص کا نام بھی تھا، مگر وہ بھی میری ہی شاعری تھی۔ مگر میں شاعری ترک کر رہا تھا ۔اس وقت کے آخری دو شعر یاد ہیں:
کتنے امڈے ہوئے دریائوں کی شورش کا امیں
کتنا خاموش ہوں پُر ہول سمندر کی طرح
ہائے وہ لمحۂ عرفانِ غمِ حسنِ ازل
ڈوبتا جائے ہے دل پانی میں پتھر کی طرح
یہ محض شاعری نہ تھی۔ یہ حسب حال تھا۔ اصل میں میری شاعری بھی فضول سی تھی۔ اس میں بھی انانیت جھلکتی تھی، ایک وقت تھا، انائے ذات کا۔ اس زمانے میں ایک شعر لکھا جو بہت مشہور ہوا، ہر لڑکا گاتا پھرتا تھا ؎
میں خود پرست کسی پر نثار ہو نہ سکا
مری نظر‘ مرے دل ہی میں آ کے ڈوب گئی
اس قسم کی کافی فضول شاعری میں نے کی۔ پھر Paradise lost کا منظوم ترجمہ شروع کیا۔ اس کی بہت شہرت ہوئی مگر Lost both the books I ۔اپنے شیخ(سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ) کی طرح میری کتابِ شعر بھی گم ہو گئی۔Paradise lost کا ترجمہ ''فردوسِ گم گشتہ‘‘ کے نام سے کیا۔ میرا خیال ہے طلباء کے لیے دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے۔ تھوڑا سا مجھے یاد ہے:
اوّل اوّل وہ خطائے انساں
شجرِ ممنوعہ کی فانی لذت
وجہِ آغازِ فنا کاریٔ مرگ
باعثِ ایں ہمہ رنج و کلفت
درِ فردوس پہ آدم کے لیے مہرِ خروج
بعد مدت کے ہمی، حتیٰ کہ پھر لوٹ آیا
وہ حسیں کنجِ قدیم ایک عظیم انساں نے
پھر کوئی نغمہ جگا
اے کہ تو نے کوہ اوریب پہ صنعا کی تنہائیوں پر
اک گلہ بان کو وہ عظمتِ عرفانی دی
جن سے اس نے تیرے محبوب علم داروں کو
رازِ پیدائشِ عالم کا بنایا محرم
کہ یہ فردوس یہ دنیائے فنا
ایک ہنگامہ کبریٰ سے ابھر آئی ہے
فیض احمد فیض نے ایک ادبی نشست میں کہا کہ انہوں نے بھی شاعری کی ہے۔انہوں نے بھی اس نظم کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی مگر اس نوجوان نے Diction to diction translation کر دی۔ اس وقت میں نوجوان تھا۔ میرے دو شعر تب بہت مشہور ہوئے۔ وہ آپ کو سناتا ہوں۔ ملٹن نے لکھا تھا کہ وہ اپنے چھوٹے سے فرشتے کو اٹھاتا ہے، جو ''دوسرا شیطان‘‘ہے۔ اس سے وہ کہتا ہے اور یورپ میں وہ بہت مشہور تھا، نوجوان نسلوں میں بہت مقبول:
اُٹھ اے گرے ہوئے کروبی اُٹھ
درِ جنت پہ جبیں سائی سے
کہیں بہتر ہے کہ ہم
تختِ دوزخ پہ شہنشاہی کریں
تو جیسے وہ پاپولر ہوئے‘ یہ بھی لاہور میں لڑکے گاتے پھرتے تھے
اُٹھ اے گرے ہوئے کروبی اُٹھ
اسی کو Diction to diction translation کہا جاتا ہے۔ I wasn`t romantic in those days بلکہ اس وقت میری تلمیح جو تھی، بڑی کرخت ہو چکی تھی، over thinking کی وجہ سے۔ زمان و مکاں پہ میری بے شمار میٹافیزیکل نظمیں ہیں۔‘‘
جی نہیں، یہ کسر نفسی کی انتہا ہے۔ ایسے ہی صوفی ہوا کرتے ہیں۔ ایک شعر کا عارف نے ذکر نہیں کیا، ایک دن اس طالب علم نے انہیں یاد دلایا تھا ؎
جلتے ہر شب ہیں آسماں پہ چراغ
جانے یزداں ہے منتظر کس کا؟
پروردگار کو ہمیشہ انتظار رہتا ہے۔ اس ایک بندے کا، جو واقعی اس کا بندہ ہو۔ اقبالؔ نے کہاتھا : عبد دیگر عبدہ‘ چیزے دگر۔ بندہ اور ہوتا ہے اور اللہ کا بندہ کچھ اور ع
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں