تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     07-12-2015

سشما پاکستان کیوں نہ جائیں؟

پیرس میں نریندر مودی اور نواز شریف کی جو ملاقات ہوئی ‘ اس کے بارے میں دونوں سرکاروں نے زیادہ کچھ نہیں بتایا ہے لیکن جو کچھ نوازشریف نے کہا ہے اور اس سے بھی زیادہ ‘جو ان کی تصویر نے کہا ‘دونوں ملکوں کیلئے اچھا اشارہ ہے۔دونوں اس طرح سے بیٹھے بات کر رہے تھے ‘مانو دو بھائی دل کی بات کر رہے ہوں ۔جو بھی ہو ‘یہ ماننا ہوگا کہ ٹوٹا تار پھر جڑ گیا۔اگر دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری نہیں مل پائے ۔ارے ! وزرائے اعظم تو مل ہی رہے ہیں ۔
دونوں ملکوں کے افسرملیں اور بات چیت شروع ہو ‘یہ تو ضروری ہے ہی لیکن فی الحال اس سے بھی زیادہ ایک بات آن پڑی ہے ۔وہ ہے 7-8دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے والابین الاقوامی اجلاس !اس میں 26ملکوں کو مدعو کیا گیا ہے‘جن میں بھارت خاص ہے ۔یہ اجلاس افغانستان کے بارے میں ہے۔ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج کو خاص طور سے دعوت دی گئی ہے ۔دعوت نامہ آئے ہفتہ بھر ہو گیا ہے لیکن سرکار نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔وہ غلط بھی نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے بیچ دوبار بات چیت ٹوٹ چکی ہے ‘ سرحد پر جھڑپیں جاری ہیں اوراب جاسوسی کا تازہ معاملہ سامنے آ گیا ہے لیکن پیر س میں مودی نوازملاقات نے کچھ نئی مٹھاس پیدا کر دی ہے ۔
یوں بھی افغانستان کی اہمیت بھارت کے لیے بہت زیادہ ہے۔تہذیبی ‘سیاسی اور جنگی لحاظ سے بھارت اور افغانستان کے صدیوں پرانے رشتے ہیں ۔افغانستان کو دوبارہ تعمیر کرنے میں بھارت نے جو کردار نبھایا ہے ‘وہ بے جوڑ ہے ۔ہم نے 200 کلو میٹر کی جرنج دلارام سڑک بنا کر ایران سے افغانستان کو جوڑا‘پارلیمنٹ کی بلڈنگ اور ہسپتال کو تعمیرکیا‘ہزاروں ماہر بھیجے اور کئی بھارتیوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ امریکہ اور جاپان کے بعدسب سے زیادہ پیسہ بھارت نے لگایا ۔افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا بھارت سے خاص تعلق ہے ۔سابق صدر حامد کرزئی کی تو بھارت میں ہی پرورش ہوئی ۔سشما سوراج کو اس اجلاس میں ضرور جانا چاہیے ۔وہ پہلے کابل جا چکی ہیں ۔افغان لیڈر انہیں کافی پسند کرتے ہیں ۔اگر وہ اس اجلاس کا بائیکاٹ کریں گی تو نقصان بھارت کا ہی ہوگا ۔وہ جائیں گی تو افغان بہانے ‘ وہ پاکستان کے ساتھ بھی تار جوڑ آئیں گی ۔وہ لگ بھگ پندرہ سال پہلے پاکستان جاچکی ہیں ۔وہ اب بھی کیوں نہ جائیں ؟
مارک زکربرگ سے کچھ سیکھیں!
مارک زکربرگ کو کون نہیں جانتا ؟لیکن اب زکربرگ کو دنیا کے سب سے بڑے سخیوں میں سے جانا جائے گا۔یوں تو زکربرگ پہلے بھی کروڑوں ڈالر کا صدقہ کر چکے ہیں اورزکربرگ سے پہلے بھی اربوں ڈالر خیرات کرنے والے لوگ ہوئے ہیں لیکن زکربرگ نے اپنی بیٹی کی ولادت کے موقع پرخیرات کرنے کا جو اعلان کیا ہے ‘اس نے اسے دنیا کا عجیب سخاوت کرنے والا آدمی بنا دیا ہے ۔بل گیٹس ‘وارین بفے اور جارج سوریس جیسے لوگوں نے بھی بڑی بڑی خیرات دے کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے لیکن ان میں سے زکربرگ ہی ایسا پہلا سخی ہے ‘جس کی عمر محض 31بر س ہے ۔30 یا 31 سال کی عمر کیا ہوتی ہے ؟اسے کھیلنے اور کھانے کی عمر کہا جاتا ہے ۔اگر اس عمر میں کوئی آدمی ارب پتی بن جائے تو اس کے کے کیا کہنے ؟وہ جوبھی نخرے کرے ‘وہ کم ہوتے ہیں لیکن زکربرگ نے اپنی 'فیس بُک ‘ کی ملکیت کا 99 فیصد خیرات کردیا ہے ۔لگ بھگ انڈین تین لاکھ کروڑ روپیہ کی اس ملکیت سے دنیا کے غریب بچوں کے مددکی کئی سکیمیں بنیں گی ۔بل گیٹس نے جب عطیہ دینے کا سوچا توتب اس کی عمر 45 برس تھی اور بفے کی 75 سال تھی ۔زکربرگ نے اپنے شیئرزمیں صرف ایک فیصدہی اپنے پاس رکھا ہے یعنی وہ خو دکو اپنی ساری ملکیت کا مالک نہیں ‘ٹرسٹی مان کر چلتے رہے ہیں ۔زکربرگ گاندھی کے ٹرسٹی شپ کے اصول کو بنیادی شکل دینے والے آدمی ہیں ۔
یوں تو امریکہ میں ڈونیشن دینے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔وہ تقریباً350 بلین ڈالر سالانہ خیرات کرتے ہیں ۔لیکن وہ یا تو بوڑھے لوگ ہوتے ہیں ‘جن کی دولت سے دلچسپی ختم ہو جاتی ہے یا بے اولاد ہوتے ہیں یا جن کی اولادنے ان کا جینا حرام کر دیا ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ سب سے زیادہ خیرات مذہب کے نام پر ہوتی ہے ۔مرنے کے بعد وہ سخی جنت میں جگہ چاہتے ہیں ۔اس لیے وہ چرچ کی پناہ میں چلے جاتے ہیں ۔اس طرح کی خیرات کا غلط استعمال مذہب کی تبدیلی کے لیے بھی ہوتا ہے ۔دنیا کے غریب ملکوں کے باشندوں کو پیسے دے کر ان کے مذہب کا سودا کر لیا جاتا ہے لیکن جو خیرات زکربرگ ‘بل گیٹس اور وارین بفے جیسے لوگ کر رہے ہیں ‘وہ مجھے کافی سچی معلوم پڑتی ہے۔اس خیرات کے پیچھے نیک خواہشات چھپی ہو سکتی ہیں ۔زکربرگ کی خیرات دنیا کے ان لوگوں کو کچھ راہ ضرور دکھائے گی ‘جو صرف پیسہ اکٹھا کرنے میں اپنی پوری زندگی ختم کر دیتے ہیں اور جب وہ دنیا چھوڑ کر جاتے ہیں تو خالی ہاتھ چلے جاتے ہیں ۔زکربرگ کی نونہال بیٹی 'میکسیما‘کتنی خوش قسمت ہے کہ ابھی اس نے جنم ہی لیا ہی ہے وہ دنیا کی سب سے بڑی خیرات کی حصہ دار بن گئی ہے۔کیا معلوم وہ بڑی ہونے پراپنے والد محترم سے آگے نکل جائے !زکربرگ‘چان اور میکسیما ہزاروں سال زندہ رہیں ۔
ملائم اور راہول :واہ کیا جوڑی ہے ؟
اتر پردیش کے وزیراعلیٰ اکھلیش یا دو نے کیا زبردست غبارہ اچھالا ہے ۔2019ء کے عام چناؤ میں وہ اپنے والد ملائم سنگھ کو وزیراعظم اور راہول گاندھی کو نائب وزیراعظم بنا دیکھنا چاہتے ہیں ۔کہاوت ہے کہ'خوب مِلائی جوڑی ...‘اس کہاوت کا دوسراحصہ میں نے لکھا نہیں کیونکہ اس کے الفاظ کافی زہریلے ہیں اور ملائم جی پر وہ کسی طرح بھی لاگو نہیں ہوتے۔لیکن یہ جوڑی بھی کیا جوڑی ہے ؟کہاں تو ملائم سنگھ یادو اور کہاں راہول گاندھی ؟راہول گاندھی کو تواتر پردیش کے چناو ٔمیں اکھلیش نے پٹکنی مار دی تھی ۔تب میں نے لکھا تھاکہ ان دونوں لڑکوں میں ایک آپ کمائی والا ہے اور دوسر اباپ کمائی والا !آپ کمائی والا اکھلیش وزیراعلیٰ بن گیالیکن باپ کمائی والے راہول نے باپ کی کمائی بھی کھو دی اور اس کے ساتھ دادی اور پرنانا کی کمائی میں بھی پلیتا لگا دیا ۔2019 ء میں وہ نائب وزیر اعظم تو تبھی بنے گا‘جبکہ اپنی سیٹ جیت کرپہلے ایوان میں آئے گا ۔ملائم سنگھ کے ساتھ نائب 
وزیراعظم کی طرح راہول کو نتھی کرنا ایسا ہی ہے ‘جیسے کہ انجن کے ساتھ بیل گاڑی کو باندھ دینا ۔اگر یہ بات اکھلیش نے سامنے بیٹھے راہول کو مذاق میں کہہ دی ہے تو اور بات ہے ۔
جہاں تک ملائم کا سوال ہے ‘اس میں شک نہیں ہے کہ اس وقت وہ ملک کے سب سے تجربہ کار اور منجھے ہوئے لیڈروں میں سے ہیں ۔وزیراعظم کا عہدہ اس کے لیے معمولی بات ہے ۔اس عہدے پر اب تک بیٹھے کئی لوگ تو ملائم کے رتی بھر بھی نہیں ہیں لیکن اصلی مدعہ یہ ہے کہ ایک ادھ مرے گھوڑے پر بیٹھ کر وہ اس عہدے تک کیسے پہنچیں گے ؟کانگریس کے کندھے پر جوبھی سوار ہوتا ہے ‘اس کا انجام کیا ہوتا ہے ‘یہ آپ کو چندر شیکھر جی اور دیو گوڑا جی نے اچھی طرح بتایا ہے ۔اگر ملائم سنگھ بہار کے گٹھ بندھن (اتحاد)کی لیڈر شپ کر رہے ہوتے تو آج سے ہی سارا ملک انہیں وزیراعظم کی آپشن کے طور پر دیکھنے لگتا ۔آج کا بھارت ایک مضبوط رہنمائی کی تلاش میں ہے ۔
اگر ملائم سنگھ چاہیں تو ابھی بھی اس لیڈر شپ کو حاصل کر سکتے ہیں ۔وہ دوستوں کے دوست ہیں ۔مغرور نہیں ہیں ۔احسانمند ہیں ۔وہ کمیونسٹ اور سائوتھ وادیوں کیلئے قابل قبول ہیں۔انہوں نے مکمل بھارتی سیاست کا اندر باہر سے خوب مطالعہ کیا ہے ۔لیکن سب سے پہلے انہیں اتر پردیش میںکچھ ایسا کر کے دکھانا ہوگا ‘جس کی ڈونڈی سارے ملک میں پیٹی جا سکے۔ اس کے بعد ساری اپوزیشن پارٹیوں کوملا کر وہ ایک ایسا منشورتیار کریں جو ایک وقت اور حد میں نافذ کیا جاسکے۔جو مہا گٹھ بندھن بنے‘اس کی صوبائی سرکاریں اس منشور کو ابھی سے لاگو کرتی چلیں تو یہ ناممکن نہیں کہ بنڈل باز سربراہی سے پریشان عوام اپنی رضامندی کا تاج ملائم کے سر پر رکھ دیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved