تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     07-12-2015

بابری مسجد کا مقدمہ

ظہیر الدین بابر، 1526ء میں بطور اجنبی جنگجو پہلی بار ہندوستان میں داخل ہوا؟ لیکن پوٹھوہار اور اس کے ملحقہ علاقوں سے ہو کر واپس چلا گیا۔1529ء میں وہ ایسا آیا کہ تاریخِ عالم میں ایک عظیم الشان سلطنت چھوڑ کردنیا سے رخصت ہوا۔ظہیر الدین بابر کی بادشاہی کا ہندوستان میں کل عرصہ تین سال سے بھی کم ہے ۔لیکن اس کے اثرات ہزاروں سال پر محیط۔
موجودہ بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں 16ویں صدی کا ایک شاہکار بھارت کے مستقبل کا بادِ نما بن چکا ہے۔ضلع فیض آباد میں سولہویں صدی کا یہ شاہکار با بری مسجد ہے۔جو اپنے وقت میں ویرانے اورکھلی زمین پر شہنشاہِ ہندوستان ظہیر الدین با بر نے تعمیر کی۔اس مسجد کو انتہا پسندوں نے بھارت کے متعصب ہندو لیڈروں کی قیادت میں 1991ء میں شہید کر ڈالا۔1990ء کے عشرے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جو آگ ہندوؤں نے با بری مسجد کے اندر بھڑکائی ،وہ محض چند سالوں میں پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ مذہبی تنگ نظری ،تعصب اور انتہا پسندی کی آگ۔آج چنائے سے امرتسر تک با بری مسجد کی بددعا کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
آئیے ظہیر الدین با بر کے نام پر اس کے اپنے ہاتھوں تعمیر ہونے والی مسجد کی تاریخی داستان کے چند ورق دیکھ لیں پھر آگے بڑھتے ہیں۔ کہانی کا آغاز تب ہوا، جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے فرنگی ہندوستان میں داخل ہوئے۔ انہیں ہندوؤں نے سر آنکھوں پر بٹھا لیا۔ ہندو بنیے نے انگریز ی یلغار کو مسلمانوں کے بچے کھچے سیاسی اقتدار سے جان چھڑانے کے لیے اسے نجات دہندہ بنا لیا۔ان خدمات کے صِلے میں انیسویں صدی کے آخر میںتاریخی با بری مسجد کو رام کی جائے پیدائش قرار دینے کا''فتنہ‘‘ پہلی بار سامنے آیا۔فتنے کو بہت جلد ہندو سیاستدانوںنے سیاسی نعرہ بنا کر اپنا یا۔تقسیمِ ہند کے وقت نہرو حکومت نے طے کیا تھا کہ15اگست1947تک بھارت میں جو عبادت گاہ جیسی تھی ویسی ہی رہے گی۔ مگر با بری مسجد کے ساتھ امتیازی سلوک ہوا۔آزادی سے صرف دو سال پہلے 1945ء کی ایک تاریک رات پُرتشدد سوچ رکھنے والے ہندوؤں نے بابری مسجد پر پہلا حملہ کیا۔ حملے کے نتیجے میں مسجد کے مؤذن مولوی اسماعیل کو بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘جبکہ بابری مسجد کے احاطے میں چبوترہ بنا کر اس پر رام کی مورتیاں رکھ دی گئیں۔ انگریز حکومت نے طے شدہ منصوبے کے مطابق یہ بہانہ ملتے ہی فوری طور پر3 اقدامات کر ڈالے۔
پہلا یہ ،کہ تاریخی بابری مسجد کو انگریز سرکار کی''حفاظتی تحویل ‘‘میں لے لیا گیا۔
دوسرے، بابری مسجد کی تعمیر کے تقریباََ 300سال بعد پہلی مرتبہ اذان پر پابندی لگی ۔ساتھ ہی مسلمانوں کو نماز اداکرنے سے روک دینے کا حکم جاری ہوا۔
اور تیسرے اقدام کے طور پرایک ،اندھیری رات میں مسجد کے اندر بنائے جانے والے پوجا پاٹ والے چبوترے کو سرکاری تخفظ مل گیا۔ 
بابری مسجد میں رام مندر کا من گھڑت تنازعہ انگریز دور کی واحد یادگار نہیں‘بلکہ آج جس فرقہ واریت اور منافرت کے مظاہرے پاکستان کے گلی کوچے میںملتے ہیں ،اس کی جڑیں بھی فرنگی دور تک جاتی ہیں‘جس کے نتیجے میں آج عبادت گاہیں خدا کا گھر نہیں بلکہ فرقہ پرستوں کی نرسریاںبنتی جا رہی ہیں۔
بابری مسجد کے حوالے سے1990ء کی دہائی کا آغاز بھارتی سماج کے لیے ایک نئی بد بختی لے کر آیا۔اس عشرے میں بھارت کے اندر انتہا پسندانہ تاریخ رکھنے والے گروہ آر ایس ایس کی حمایت سے موجودہ بر سرِ اقتدار جماعت بی جے پی سیاسی زور پکڑنا شروع ہوئی۔بی جے پی کی سیاست میںہندو مذہبی رنگ کے ذریعے جان ڈالی گئی۔ہندوتوا کے نام پر اس پلان میں اکھنڈ بھارت کے حامی سیاستدان اکٹھے ہوئے ۔ لال کشن ایڈوانی، موہن بھگوت،مرلی منوہر جوشی،اوما بھارتی،نیتن گڈ کری اورو پراوین تو گڑیا نے مسلمانوں کے خلاف زہر آلود تقریریں کیں۔ اینٹی بابری مسجد مہم کا کلائمکس تب سامنے آیا، جب ہندوانتہا پسند سیاستدانوں نے بابری مسجد کو ایک بار پھر رام کی جائے پیدائش قرار دے کر مسجد کو شہید کرنے کا اعلان کر دیا ۔ فوراََ بعد آر ایس ایس ،وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں سمیت اہم رہنماؤںکو ساتھ لے کر 1991ء کے آخر میں " رتھ یاترا" شروع کی گئی۔ایک بڑے رتھ پر سینکڑوں لاؤڈ سپیکر لگا کر یہ یاترا نما ریلی ایک سال تک بھارت کے مختلف شہروں میں دندناتی رہی۔اس دور ان ہندو فسادی رہنماؤں نے عوام کو رام مندر کے نام پر بھڑکایا اور خوب لوٹا ۔ملک بھر سے کروڑوں اربوں کے زیورات ،نقدی اورجواہرات اکٹھے کیے گئے۔اس رقم سے ہزاروں ہندو فسادیو ں کو بیلچے ،کدالیں ،رسے اوردیگر اوزاردلوا کر ایودھیا بھجوایا گیا۔ ایودھیا میں سرکاری سرپرستی کے سائے تلے فسادی کیمپ لگنا شروع ہو گئے۔ اس وقت کے کانگرسی وزیراعظم نرسمہا راؤ اور اتر پردیش کے وزیراِ علیٰ کلیان سنگھ خاموش تماشائی کی ایکٹنگ کرتے رہے۔غیر وابستہ تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعلیٰ اور وزیراعظم نے ہندو فسادیوں کو در پردہ بابری مسجد پر چڑھائی کے لیے گرین سگنل دے رکھا تھا۔لہٰذا سینکڑوں پولیس اہلکاروں اور پیرا ملٹری کی موجودگی میں 6دسمبر1992ء کے سیاہ دن مسلح فسادی چاروں طرف سے تاریخی با بری مسجد پر حملہ آور ہوگئے۔7دسمبرکو بابری مسجد شہید اور اس کے آثار مٹا ڈالے گئے۔
آج کا وکالت نامہ تاریخی بابری مسجد کا23واں یومِ شہادت لے کر آپ کے پاس پہنچے گا۔23سال گزرجانے کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں 16ویں صدی کے شاہکار بابری مسجد کی شہادت ،بھارتی سپریم کورٹ کے چہرے پر کالا داغ ہے۔اس تاریخی مقدمے کے دو اہم ملزم مر چکے‘ باقی آزاد پھِر رہے ہیں۔مقدمہ زیرِ التوا پڑا ہے۔
دنیا کی واحد ہندو ریاست میں انصاف کا مندر خاموش ہے۔ساتھ عالمی ضمیر بھی۔مسلم ریاستوں اور مذہبی لیڈروں کا کیا کہنا ،وہ عالمی طاقتوں کے ذریعے ایک دوسرے کی بربادی کا بِل ادا کر رہے ہیں‘ لیکن قدرت کا انصاف شروع ہے۔جو ہندو اشرافیہ بابری مسجد گرائے جانے کے وقت ملزم کی حامی بنی ،تماشا دیکھا‘آج ہندو انتہا پسندی کی لہر انہی کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے۔
میں بابری مسجد کا مقدمہ لے کر بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ یہ کیس کس عدالت میں لے کر جاؤں؟عالمی یا تاریخی عدالت میں!!
یاد ہے، اے مسجدِ عالی نشاں، کچھ یاد ہے
کتنے آئے،کتنے گزرے کارواں، کچھ یاد ہے
کس قدر تیغوں کی جھنکاریں ہیں، تیرے ہمرکاب
کتنی تکبیریں ہیں تیری ہم زباں، کچھ یاد ہے
ہم فقیروں سے بہت پہلے ترے اس فرش پر
رہ چکے ہیں بادشاہ، سجدہ کناں،کچھ یاد ہے
سیٔنہ شمشیرِ سے پھر جوہرِ شمشیر کھینچ
اپنے میناروں کی رفعت سے، کوئی تصویر کھینچ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved