اردولُغت بورڈ کی ڈکشنری میں صحافت کے معنی ہیں :''اخبار یا رسالے وغیرہ میں کالم یا مضمون لکھنے کا فن ، اخبار نویسی ، مضمون نگاری، اخباری کاروبار، رسالہ نگاری ‘‘، پھر بطور ِ استشہاد شعر نقل کیا ہے :
گر صحافت میں ہے تہذیب کا معیار یہی
کہ دُعا کو بھی کوئی کہنے لگے ،ککڑوں کُوں
مزید لکھا ہے :''اد ب صحافت یا خطابت کی طرح ہمیں بھڑکاتا نہیں ہے، بلکہ ہمیں شعور دیتا ہے ‘‘۔اور اگر آج کل کی صحافت میں سے شعلہ زنی کو نکال دیا جائے تو خدشہ رہتا ہے کہ ریٹنگ عرش سے فرش پر آجائے گی ۔ اور صحافی (ص پر زبر اور زیر دونوں کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے ) کے معنی اخبار نویس اور مضمون نگار کے بتائے گئے ہیں ، الہامی کتاب کو بھی صحیفہ کہتے ہیں ، جس کی جمع صُحُف اور صحائف ہے ۔'' آکسفور ڈ ڈکشنری میں Journalismکے معنی ہیں : ''اخبار، رسالے، نیوز ویب سائٹ یا نشر کرنے کے لیے خبریں تیار کرنا ‘‘، الغرض! تجسس اور تحریر صحافت کا لازمی جز ہے ۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں ہمارے ہاں آزاد الیکٹرونک میڈیا وجود میں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سار ے منظر پر چھا گیا ۔ اس شعبے میں جہاں اخباری دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ آئے ، وہیں دوسرے شعبوں کے نو وارد لوگ بھی آئے ۔پیشہ ور صحافی انہیں گھُس بیٹھیے اور شعبۂ صحافت میں در انداز سمجھتے ہیں ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ جو کسی اخبار سے وابستہ نہ رہا ہو ، رپورٹنگ نہ کی ہو ، ایڈیٹوریل بورڈ کا رکن یاپیشہ ورانہ صحافی تنظیموں کا رکن نہ رہا ہو، صحافیوں کے مسائل کے لیے جدو جہدنہ کی ہو، اس کو پیشہ ور صحافی تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن اب الیکٹرونک میڈیا میں ایسا نہیں ہے ، طرح طرح کے لوگ ہیں۔بلکہ نو واردلوگوں کی تعداد ممکن ہے زیادہ ہو ۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مزاج میں ٹھہراؤ نہیں ہے ، الفاظ کی سنگ باری ،جذبات کی شعلہ بیانی اور مخاطَب پر چھا جانے کی خواہش ہے۔ کچھ حضرات کے انداز سے جھلکتاہے کہ خبر یا سچ کی تلاش ان کا مشن نہیں ہے ، بلکہ ایک طے شدہ ایجنڈے اور نظریے کو مسلط کرنا ان کا فرضِ منصبی ہے۔ کیونکہ ان کے پیچھے پالیسی ساز کوئی سرمائے دار ہوتا ہے اور اس کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے ۔ وہ صحافتی اقدار کو آگے بڑھانے یا نئی اعلیٰ قدریں اور معیارات وضع کر نے نہیں آیا بلکہ اس کی خواہش میڈیا کی طاقت سے اپنے سرمائے کا تحفظ اور اس میں غیر فطری رفتار سے اضافہ ہے ۔ اسی لیے پیش کنندہ (Presenter)کے لیے علمی وجاہت سے بھی زیادہ پُرکشش لباس اور اعلیٰ معیار کے میک اپ سے آراستہ شخصیت لازمی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں اوسط درجے کی گورننس اور نظام میں دیانت وا مانت نا پید ہے ، وہاں اعلیٰ اقدارکی تلاش عبث ہے ۔ معیارات کے اس تفاوت میں ناظرین کے پلے کچھ نہیں پڑتا ، بس وہ صرف تٖضحیک ، تحقیر اور تنقیص کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاشرہ اقدار سے محروم ہو رہا ہے ۔
بعض حضرات کے ا نداز سے عیاںہوتاہے کہ سرِ شام کوئی غیبی معلومات ان پر نازل ہوتی ہیں اور ان کا ابلاغ ان کی ذمے داری ہے ۔ تاثر یہ دیتے ہیں کہ انقلاب برپا ہونے میں لمحوں یا دنوںکا فاصلہ ہے جو سب کچھ بہا لے جائے گا ۔ جناب ِآصف علی زرداری کا پانچ سالہ دور اور جناب نواز شریف کا موجودہ دور بھی کسی حد تک اسی کیفیت میں رچا بسا دیکھا ۔ ہم جیسے سادہ لوگ یقین بھی کر لیتے ہیں کہ اگلے دن سورج کی پہلی کرن صبحِ انقلاب کا نقطۂ آغاز ہو گی ، لیکن پھر : ''اَلْاٰنَ کَمَا کَانَ ‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے یعنی آج بھی منظر وہی ہے جو کل گزشتہ تھا ، کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔ کبھی مارشل لا پلس کی نوید سنائی جاتی ہے ، لیکن کیا ماضی میں مارشل لا اور سیمی مارشل لا ایک سے زائد بار نہیں دیکھے ۔ کشمیر میںخطِ جنگ بند ی کا لائن آف کنٹرول میں تبدیل ہونا ، سیاچن پر ہندوستانی افواج کا درآنا ، کارگل کا تلخ تجربہ ،جہادِ افغانستان اور اس کے ما بعد اثرات ، نائن الیون کے بعد امریکہ کے آگے مکمل خود سپر دگی اور جہاد ِ کشمیر کا خاتمہ فوجی حکمرانی ہی کے دور میں وقوع پذیر ہو ا ۔
ہمیں تسلیم ہے کہ جناب ِ جنرل راحیل شریف صاحب ِ عزیمت و استقامت ہیں ، ایک مثالی پیشہ ور سپاہی ہیں ، وہ ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے ہمیشہ کے لیے نجات دلانا چاہتے ہیں ، وہ حصولِ اقتدار کے لیے مُہم جُو بھی نہیں ہیں ۔ لہٰذا بعض لوگوں کی خواہش کے مطابق انہیں موقع دیدیا جائے کہ کوئی مارشل لا پلس لگا کر ایک بار مکمل تطہیر کر دیں ۔ لیکن کیا بین الاقوامی حالات اس کے لیے ساز گار ہیں؟کیاہر ایک کو نہیں معلوم کہ ہندوستان کی موجودہ پاکستان دشمن حکومت ایسے حالات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے تُلی بیٹھی ہے ؟۔ملک کے اندر پہلے ہی مختلف عنوان سے سازشیں اور مسلح کارروائیاں جاری ہیں ۔ ابھی تک سول حکومت مالاکنڈ وسوات کا پوری طرح سے کنٹرول حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، فوج بدستور امن و امان کے قیام کے لیے وہاں موجود ہے ۔ قبائلی علاقے میں ریاست سے بر سرِ پیکار گروپوں کا نہ تو مکمل صفایا ہو سکا ہے اور نہ ہی اندرونی طور پر بے گھر لوگوں کو بحال کیا جا سکا ہے ۔ بلوچستان میں بھی ریاست مخالف تحریک بدستور جاری ہے ۔
ہمیں ایسے قرائن و شواہد ملے ہیں کہ داعش کی فکر ملک کے اندر موجود ہے ، خواہ سیاسی حکمران اور سلامتی کے ادارے عوام کی تسلی کے لیے اس کی نفی کریں ۔ برادر ہمسایہ ممالک ایران و افغانستان کے ساتھ بھی بے اعتمادی تاحال موجود ہے ۔متحدہ عرب امارات کے ساتھ ماضی والی قُربتیں نہیں ہیں ، یہ کھلا راز ہے کہ گوادر پورٹ کو وہ پنپتا اور فعال ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے ، لہٰذا گوادر چائنا کوریڈور کی راہ میں بھی مشکلات پیش آتی رہیں گی ۔ اس اقتصادی شاہراہ کو متنازع بنانے کے لیے مختلف داخلی قوتوں کو استعمال کیا جائے گا۔ ہمارے مقابلے میں دوسرے فریقوں کے پاس سرمائے کی فراوانی ہے ، جب کہ ہم مالی وسائل کی قلت کا شکار ہیں ۔ مشرقِ وسطیٰ آتش بداماں ہے، ایران اور سعودی عرب کی باہمی آویزش اور دائرہ ٔاثر کے پھیلاؤ کا تنازع بڑھنے کے آثار واضح ہیں اور اس سے ہمارے ملک کا متاثر ہونا نا گزیر ہے، کیونکہ دونوں سے ہمدردی رکھنے والے طبقات یہاںموجود ہیں اور انہیں اُن کی مکمل سر پرستی حاصل ہے ۔سرِ دست تو صورتِ حال یہ ہے کہ اِدھر سے کچھ انتہا پسند لوگ شام میں داعش یا النصرہ یا حزب اللہ سے جا ملے ہیں ۔ اگرداعش کے خلاف عالمی قوتوں کا دباؤ شام میں بڑھتا ہے تو وہاں سے انخلاکی صورت میں کیا یہ لوگ دوبارہ اِدھر کا رُخ نہیں کریں گے ۔ اسی طرح جو لوگ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں قبائلی علاقے سے افغانستان منتقل ہو گئے ہیں ، وہ موقع پاتے ہی واپس نہیں آئیں گے ، سو صورتِ حال نہایت گمبھیرہے ۔
سرِ دست تو فوج کو ایک اخلاقی برتری حاصل ہے کہ ہر کامیابی اس کی طرف منسوب ہوتی ہے اور ہر ناکامی کی کالک سول حکمرانوںکے چہروں پر مل دی جاتی ہے ۔ خدا نخواستہ فوجی حکمرانی کی صورت میں یہ سہولت مفقود ہو جائے گی ۔پھر ہماری اسٹیبلشمنٹ ، بیوروکریسی اور انتظامیہ یہی ہے ،فوج ان سب کو گھر بھیج کر نیا سیٹ اپ تو نہیں لا سکتی ۔ ماضی کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ فوج کو آخرِ کار اپنی سیاسی حمایت کے لیے اِسی سیاسی اسٹاک میں سے افراد کا چناؤ کرنا پڑتاہے اور اس کے نتیجے میں منظر حسب ِ سابق ہو جاتاہے یا کبھی اس سے بھی برا۔لہٰذا موہوم خواہشات پالنے کی بجائے کھلی آنکھوں او ر روشن دل و دماغ کے ساتھ حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور دستیاب حالات میں بتدریج بہتری کے لیے کوششیں کرنی چاہیے ۔ جناب عمران خان کی بے قراری اور اضطراب کا بھی تجربہ سب کو ہو چکا ہو گا۔ بہت سے اہلِ قلم جو اُن کے عشق میں ڈوبے ہوئے تھے ، انہیں بھی بعض صورتوں میں بامرِ مجبوری مایوسیوں کا اظہارکرنا پڑا ۔
میڈیا کے قابل ِ احترام دوستوں اور اینکرز پرسنز سے یہ بھی گزارش ہے کہ خدارا کبھی پاکستان کا کوئی روشن پہلو بھی دکھادیا کریں۔ ہم ہر شام دنیا کو اپنا مکروہ، ناکامیوں اور نا مرادیوں سے اَٹا ہوا چہر ہ دکھا تے ہیں ، ا س سے کچھ ملنا ہوتا تو ڈیڑ ھ عشرے کی مساعی سے مل چکا ہوتا ۔ اسی طر ح بعض تجربہ کار سینئرصحافیوںکو وطن عزیز کے مثبت پہلوؤں کو آشکار کرتے ہوئے سنتا ہوں تو دل سے دعا نکلتی ہے۔یہ لوگ ہمارے ملک کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں اور وقت نے ان کے مزاج میں ٹھہراؤ پیدا کیا ہے ۔ کاش کہ ہمارے نوجوان میڈیا پرسنز بھی ان سے کچھ سیکھیں ۔ اس طرح کے لوگ پورے میڈیا میں انگلیوں پر گننے کے برابر ہیں یا شاید اس سے بھی کم ۔