ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے عصرِ حاضر کو اسلام کی روشنی میں سمجھنے کی جو غیر معمولی صلاحیت عطا کی تھی اس کی کوئی دوسری مثال پیش کرنا مشکل ہے۔ ان کا بہت بڑا کام یہ ہے کہ انہوں نے جدید سماجی و سیاسی مسائل کا حل اسوۂ رسولﷺ میں تلاش کیا اور اسے جدید ذہنوں کے لیے قابلِ فہم بنا کر پیش کیا۔ حضور اکرم ﷺ نے ریاست مدینہ کی تنظیم کیسے کی، بلدیاتی اداروں کا نظام کیسے چلایا، بازاروں کا انتظام کیسے کیا، سیاسی مسائل کیسے حل کیے، ریاستی آمدن و خرچ کو کیسے متوازن رکھا۔۔۔۔ ان تمام سوالات کے جواب پوری صحت کے ساتھ چودہ صدیوں پر پھیلے علم کے سمندر سے نکالنا کوئی آسان کام نہیں تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب یہ سب تنِ تنہا کر گزرے۔ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے جتنے بھی عملی خاکے آج بحث کا موضوع ہیں ان میں سے ہر ایک نہ سہی لیکن اکثر کسی نہ کسی طرح ان کی تعبیر و تحقیق سے ماخوذ ہیں۔ ان کے شاگردِ رشید ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم تھے جنہوں نے ان کے اندازِ فکر کو مزید آگے بڑھایا اورپاکستان میں اسلامی بینکاری کے اصول و ضوابط دریافت کرنے میں کئی علماء کے ساتھ مل کرکام کیا۔ اسلامی بینکنگ اور اس میں موجود اجارہ (لیز)، مضاربہ، مشارکہ وغیرہ کی جو مالیاتی مصنوعات ہم آج اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں، انہیں کتاب و خیال سے عمل کی دنیا میں لانے کا سہرا پاکستان کی حد تک انہی کے سر باندھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کی
سوچ اور ان کی رائے سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے لیکن ان کا کوئی بد ترین دشمن بھی ان پر علمی بد دیانتی یا اسلامی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کا الزام لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ دونوں بزرگ سود کو صرف حرام ہی نہیں بلکہ حرام کاری کی ارذل ترین شکل قرار دیتے ہیں لیکن ان دونوں کی رائے ہے کہ ایک غریب آدمی مکان بنانے کے لیے قرض لیتا ہے تو قرض دینے والا اجارہ و مشارکہ کی شکل میں کچھ نہ کچھ کما سکتا ہے اور اس طریقے سے اصل زر پر بڑھی ہوئی رقم سود نہیں قرار پائے گی۔ اس طریق کار کے تحت دنیا بھر میں مسلمان مکان بنانے کے لیے قرض لیتے ہیں اور قرض دینے والا ادارہ اصل رقم کے علاوہ ایک متعین منافع بھی کما لیتا ہے۔ مکان کو ایک بنیادی انسانی ضرورت قرار دے کر ڈاکٹر حمید اللہ نے تو یہ بھی کہہ ڈالا کہ علماء کو اس بارے میں کچھ لچک دکھانی چاہیے۔
ڈاکٹر حمید اللہ نے جو کہا اس کی تفصیل ان کی اپنی اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کی کتب میں بآسانی مل سکتی ہے لیکن ان کا حوالہ دے کر یہی بات صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین نے کہہ دی تو اس پر چھوٹا موٹا سا علمی و مذہبی طوفان برپا ہوگیا۔ بات یہاں ختم ہو جاتی توغنیمت تھا لیکن لگے ہاتھوں ایوانِ صدر کا بجٹ، اس نظامِ کائنات میں صدر کامقام، سب کچھ زیر بحث آگیا، اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ کسی بات کا علمی پہلو جب میڈیا میں آجائے تو پھر معقولیت کی جگہ مقبولیت کی خواہش غالب آجاتی ہے۔ اس خواہش میں جو جس کی نوکِ قلم پر آیا اس نے لکھ ڈالا اور جو جس کے منہ میں آیا وہ کہہ گزرا۔
صدر مملکت کے بیان پر کج بحثی سے ان کا تو کچھ نہیں بگڑا اور نہ بگڑے گا لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوگیا کہ کہیں آزادیٔ اظہار کی موجودہ شکل بذاتِ خود اظہارِ خیال پر پابندی کی صورت تو اختیار نہیںکرتی جا رہی؟ اپنے سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے ہمیں جس کھلے مکالمے کی ضرورت ہے وہ دشنام طرازی کے ماحول میں تو ممکن ہی نہیں ہوسکے گا۔ اگر آپ کو ہر وقت یہ خوف لاحق رہے کہ میں آپ کی گفتگو کا ایک جملہ اس کے مقام سے ہٹاکر آپ پر ایک الزام کی طرح مڑھ دوں گا تو آپ مجھ سے کیوں بات کریں گے؟ مکالمہ کیونکر ممکن ہوسکے گا؟ اظہار خیال کی آزادی ہی اظہار کو پابند نہ کر ڈالے گی؟
اپنے سینئرز سے سنا ہے کہ بھلے وقتوں میں صدر، وزیراعظم اور دیگر آئینی عہدیداروں پر تنقید کرتے ہوئے یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ ان کا وقارمجروح نہ ہونے پائے اور خود یہ بڑے لوگ بھی دھیان رکھتے تھے کہ ان سے کوئی ہلکی بات نہ سرزد ہو۔ زمانے کی ایک کروٹ سے جب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سیاست میں وارد ہوئے تو انہوںنے سیاست میں عوامی رنگ لانے کی کوشش میں زبان و بیان میںجو نیا پیرایہ استعمال کیا اس میں کسی کے لیے احترام کی گنجائش ہی نہ نکل سکی اور بات بگڑتی چلی گئی۔ ان کے بعد آنے والوں میں شیخ رشید احمد نے وہ تمام حدیں پارکر لیں جو بھٹو صاحب کی نظروں سے اوجھل رہ گئی تھیں۔ میاں شہباز شریف اور خواجہ آصف نے بھی یہی اندازبیان اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی پیچھے ہٹ گئے البتہ عمران خان نے دھرنے کے دوران جوزبان استعمال کی اس نے نئی نسل کو سکھلا دیا کہ ملک و قوم میں کوئی شخص یا ادارہ قابلِ احترام نہیں رہا اس لیے جومنہ میں آئے کہتے چلے جاؤ۔ صحافیوں نے ہر دور میں بلا کم و کاست یہ سب کچھ رپورٹ کیا اور ٹی وی کے دور میں تو رپورٹ کرنے کی بھی ضرورت نہ رہی، قائل اور سامع ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے اور وہ ایک آدھ فقرہ جو کبھی عمومی اخلاقیات کو سامنے رکھتے ہوئے ایڈیٹر کاٹ دیا کرتے تھے، بتمام و کمال لوگوں تک پہنچنے لگا۔ گمان ہے کہ سیاستدانوں کی بدزبانی رپورٹ کرتے کرتے بعض دوستوں کی اپنی زبان بھی بگڑ گئی۔کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ سیاق و سباق، پس منظر، مجلس کی نوعیت یا موقع محل بے معنی ہوچکے ہیں؛ ایک جملہ اٹھائیے، اسے اپنی مرضی کے معنی پہنائیے، اس پر دو ایک تبصرہ کاروں سے بات کیجیے اور ضرورت پڑے تو جملے کاکوئی لفظ بدل کر اسے اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال بھی لیجیے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر فی سبیل اللہ ایک دو علمائے کرام بھی اس پر تبصرہ فرمادیں توفبہا ورنہ ہر وہ شخص جوخود کو فقیہ و مجتہد تصورکرتا ہے، یہ کام بنفسِ نفیس یا بقلم خود بھی فرما لے تو چل جائے گا۔
سماجی و سیاسی مسلّمات سے اہلِ صحافت کی چھیڑ چھاڑ تو چلتی رہے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ پارلیمانی طرزِ حکومت میںایوانِ صدر اختیار و اقتدار کا مرکزنہیں بلکہ اقدار و احترام کا منبع ہوتا ہے تو بظاہر اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا۔ برطانیہ میںوزیر اعظم پر تنقید ہوتی رہتی ہے لیکن ملکہ پر بات کرتے ہوئے بڑے سے بڑا صحافی بھی محتاط رہتا ہے۔ اب تو یہ چلن بھارت تک آ پہنچا ہے کہ صدر کے احترام کو ملحوظ رکھا جائے کیونکہ یہ عہدہ ریاست میں اقتدار کی علامت ہے۔ شایدپاکستان ابھی جمہوریت کے اس سنگ ِمیل تک نہیں پہنچا جہاں ریاستی علامتوں کے احترام و اکرام کی روایت جنم لے سکے!