تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     07-12-2015

کاک ٹیل کالم

بعض چیزوں کے بارے میں یہ گمان کر کے میں خوش ہوتا رہتا ہوں کہ یہ گویا میری دریافت ہیں، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، مثلاً میں نے دیکھا ہے کہ فاختہ اور کبوتر کسی جگہ سے جب اُڑتے ہیں تو ان کے پروں کی ابتدائی پھڑ پھڑاہٹ میں ایک موسیقی ہوتی ہے اور میرا نہیں خیال کہ کسی اور پرندے کے ساتھ بھی ایسا معاملہ ہو۔ یہ اپنے طور پر ایک عجیب بات ہے اور جنہوں نے یہ موسیقی نہیں سنی، میں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ اگر موقعہ ملے تو اس سے ضرور لطف اندوز ہوں۔ 'دوسرے‘ میں نے یہ دیکھا ہے کہ سٹرس کے پودے سارا سال ہی پھلے پھولے رہتے ہیں، یعنی پہلے ان پر پھول آتے ہیں جن کی باقاعدہ خوشبو ہوتی ہے۔ یہ پھول اپنی عمر گزار کر جب کملا کر گر جاتے ہیں تو ان کی جگہ پھلوں کی شروعات لے لیتی ہیں۔ یہ پھل اپنا پورا سائز اختیار کرنے میں چھ سات ماہ لیتے ہیں اور اس کے بعد کوئی دو ماہ انہیں پکنے اور پورا رنگ پکڑنے کے لیے درکار ہوتے ہیں، اور جب یہ پھل مکمل طور پر تیار ہو جاتا ہے تو اس کے اترتے اترتے نئی کلیاں ظاہر ہونے لگتی ہیں اور اس طرح یہ پودے پورا سال پھولے پھلے رہتے ہیں۔
محمد آباد، صادق آباد کے سید انیس شاہ جیلانی کے ساتھ ہماری دوستی اب تو کافی پرانی ہوتی جا رہی ہے۔ آپ ایک صاحبِ طرز نثرنگار ہیں۔ ''سفر نامہ مقبوضہ ہندوستان‘‘ جیسی شہرۂ آفاق کتاب سمیت کئی تصانیف ان کے کریڈٹ پر موجود ہیں۔ اپنے والد گرامی سے منسوب مبارک لائبریری قائم کر رکھی ہے اور اس کے لیے کتابیں اکٹھی کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت رئیس امروہوی کے نہایت قریبی اور بے تکلف دوستوں میں سے ہیں۔ اپنے نام کے پوسٹ کارڈ چھپوا رکھے ہیں اور خط کی مقدار یک سطری ہوتی ہے، بہت بدپرہیزی کریں تو ایک آدھ سطر کا اضافہ بھی ہو جاتا ہے، آج ہی ان کی طرف سے ایک پرچہ موصول ہوا ہے جو بغیر کسی تبصرے کے پیش خدمت ہے:
''جناب! 
''پاکستان ناگزیر تھا‘‘ اور ''پاکستان کیسے بنا‘‘۔ یہ اور اس قسم کے عنوانات سے سینکڑوں مضمون لکھے جاتے ہیں اور کتابیں بھی، لیکن یہ کوئی نہیں لکھتا پاکستان نہ مسلمانوں نے بنایا، نہ مسلمانوں کی ضرورت تھی، یہ ہندو کی ضد، ہٹ دھرمی، نفرت اور گاندھی نہرو پٹیل کی وجہ سے وجود میں آیا۔ ہندو کے دل و دماغ میں آٹھ سو سالہ نفرت سمائی ہوئی تھی، حالانکہ مسلمان حکمران غیر متعصب اور تقریباً لا مذہب(سیکولر) مزاج ہی کے رہے۔ ہندو نے ہمیشہ ایک فاصلہ رکھا، یہاں تک کہ مسلمانوں سے اس ''غلامی‘‘ میں بھی ہاتھ تک ملانے کا روادار نہ تھا۔ ہندو نے اپنے آپ کو برملا خصوصاً 
مسلمانوں سے الگ اور ''محفوظ‘‘ رکھا۔ یہ عام مجاہدہ نہ تھا۔ انگریز آیا تو غیر مسلموں کی بن آئی، دونوں شیروشکر رہے اور مسلمان یونہی مگن۔ انگریز ہندوئوں کا ملک ہندوئوں کو دے کر جانے لگا تو ہم پر کچھ قومیت عود کر آئی۔ ہندو سینکڑوں برس سے جلا بھنا بیٹھا تھا، بولا، آٹھ سو برس ہمیں رگیدنے کے باوجود اب بھی تمہارے مطالبات ہیں، چلو بھاگو ہم نہیں مانتے۔ یہاں وہ سیانا 'چوک گیا‘۔ اسے کہنا چاہیے تھا، میاں انگریز کو تو جانے دو، ہم سب مل بانٹ کر ہی کھائیں گے۔ ورنہ قائد اعظم کے چودہ نکات میں کیا رکھا تھا، وہ تو بے ضرر تھے۔ کانگرس یا گاندھی نہرو پٹیل مان جاتے، لیکن وہی ضد، ہٹ دھرمی اور نفرت کارفرما رہی۔ ماشاء اللہ خوب بربادی کے بعد ہم بھی گویا آزاد ہوئے اور پاکستان وجود میں آیا جہاں اب مقصد و منشا جاگ پنجابی جاگ ہے اور خواب محض متحدہ پنجاب کے دکھائے جاتے ہیں۔
انیس نومبر 2015ء‘‘
ممکن ہے کچھ قارئین کے لیے یہ تحریر ذہنی غذا ثابت ہو، تا ہم اگر اس سلسلے میں کوئی تحفظات یا وضاحت مطلوب ہوتو صاحبِ موصوف کا موبائل نمبر ہے۔ 0302-7642391۔
چکوال سے مرزا نور احمد طائر میرے مستقل مہربانوں میں شامل ہیں۔ میرے کالموں پر اظہار خیال کرتے اور ہم دونوں سابق و موجودہ حکمران اس ملک کے ساتھ جو کچھ کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں، اس پر کڑھتے اور جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہتے ہیں۔ حکومتی اعمال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ شاعر، ادیب تو ہیں ہی، ادبی ماہنامہ 'الحمرا‘ میں ان کی غزلیں، نظمیں اور سفر نامہ شامل اشاعت ہوتا ہے۔ کیا کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں، میں نے کبھی پوچھا نہ انہوں نے بتایا۔ سیاسی حالات و معاملات میں مجھے ان سے بھی فیڈ بیک حاصل ہوتا ہے۔ میرے ساتھ قارورہ شاید اس لیے بھی ملتا ہے کہ دونوں ہم عمر ہیں اور بقول شاعر ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں
آج کا مقطع
ہوا ہے نفع تو پوچھا نہ جا کے اس سے‘ ظفر
کہ اس دکان میں حصہ کوئی ہمارا بھی تھا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved