مجھے اگر کوئی کسی نوجوان شاعر کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ تو آپ کو مانتا ہی نہیں تو غمزدہ یا پریشان ہونے کی بجائے اس کے لیے دل میں ایک خوش گمانی پیدا ہوتی ہے کہ اس کے اندر آگے بڑھنے کا عزم اور حوصلہ موجود ہے۔ ہر جینوئن شاعر سب سے پہلے اپنے رفتگان کا انکار کرتا ہے۔ میں بھی اپنے رفتگان اور موجودگان کا انکار کر کے ہی آگے نکلا ہوں(اگر واقعی آگے نکل چکا ہوں‘ جس قدر بھی نکل سکا ہوں)۔ ہر شاعر اپنا وقت پورا کرنے کے بعد قصہ ٔ پارینہ ہوتا جاتا ہے۔ پُرانوں کی جگہ نئے لیتے ہیں۔ تاہم رفتگان کے انکار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا اعتراف نہ کیا جائے یعنی انکار اور اعتراف دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن جینوئن شاعر کا ہونا اور نہ ہونا ‘ دونوں عمدہ شاعری کی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں ورنہ شاعری تو ہر طرح کی چل جاتی ہے کیونکہ ہر طرح کی شاعری کے لیے ہر طرح کا قاری موجود ہوتا ہے۔
غزل ایک عجیب و غریب صنفِ سخن ہے۔ یہ بالخصوص نظم سے اس طور مختلف ہے کہ نظم سے پہلے خیال آتا ہے لیکن غزل کے لیے ایسا ضروری نہیں ہوتا۔ مضمون یا خیال قافیہ سمجھاتا ہے‘ اور قافیے کے ساتھ جو مضامین ہوتے ہیں ان میں سے انتخاب کرنا شاعر کا کام ہے کہ خیال یا مضمون اگر نیا ہے تو کس حد تک نیا ہے اور اسے کس حد تک مزید نیا یا مختلف کیا جا سکتا ہے۔ بیشک یہ ایک میکانیکل طریقہ کار ہے لیکن یہ
غزل کی مجبوری بھی ہے اور اس کا سب سے بڑا ہتھیار اور مددگار بھی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قافیہ جو مضمون بھی اپنے ساتھ لاتا یا سمجھاتا ہے، شاعر کے معیار پر پورا نہیں اُترتا یا وہ اس میں مناسب ترمیم یا ایسی تبدیلی نہیں لا سکتا کہ شعر اس کے معیار کے مطابق موزوں ہو تو ہمت ہار کر بیٹھ نہیں جانا چاہیے۔ میں اس صورتحال کا علاج اس طرح سے کرتا ہوں کہ اس کی تلافی‘ ایبسرڈ شعر کہہ کر کرتا ہوں‘ وہ شعر اُوٹ پٹانگ بھی ہو سکتا ہے‘ اور شعر کی پیروڈی بھی۔ یہ طریقہ مجھے نئے سرے سے تازہ دم کرنے میں بھی مددگار ہوتا ہے‘ میرے اردگرد کا ماحول تبدیل ہو جاتا ہے اور ایک ویرائٹی کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔ یہ بہرحال کوئی گائیڈ لائن نہیں ہے اور نہ ہی میں اس طرح سے دوسروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں‘ اگرچہ میں اس الزام کی زد میں اکثر رہتا ہوں۔ تاہم گمراہ ہونے کے لیے بھی ایک ہمت اور حوصلہ درکار ہوتا ہے‘ بلکہ گمراہ بھی وہی ہوتا ہے جس میں گمراہ ہونے کی اہلیت بھی ہو اور اس کے اندر گمراہ ہونے کے جراثیم پہلے سے موجود بھی ہوں۔ میرے نزدیک ایسا شعر اُن اشعار سے بدرجہا بہتر ہے جن کی حیثیت ایک جگالی سے زیادہ کی نہیں ہوتی‘ کیونکہ اگر آپ نے شعر کہنے سے
رُکنا تو ٹریش کے انبار لگاتے چلے جانے سے بے معنویت اور ایبسرڈٹی کی طرف نکل جانے میں سُرخروئی بھی ہے اور عافیت بھی۔
یہ بات تو طے ہے کہ شعر یعنی غزل کا شعر آپ جائے نماز پر بیٹھ کر نہیں کہہ رہے ہوتے‘ اس لیے اس میں بے معنویت کے علاوہ فحش گوئی اور پھکڑ پن کی گنجائش بھی ایک حد تک موجود ہوتی ہے۔ اور‘ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے‘ ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے کیونکہ شعر کا موضوع اگر عشق اور محبت ہے تو پھر آپ زیادہ حدود و قیود کے پابند نہیں رہ سکتے۔ اور! بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شعر جب پیروڈی کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس میں غیر سنجیدگی کا عنصر بھی در آتا ہے جوثقہ لوگوں کے نزدیک بہرحال خاصی قابلِ اعتراض صورتحال ہے کہ اس طرح شعر مزاحیہ اور مضحک ہو جاتا ہے‘ حالانکہ شعر کے مضحک ہونے سے بھی کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑتی۔ البتہ اگر آپ بہت ہی سڑیل واقع ہوئے ہوں تو اوربات ہے۔
بہرحال‘ شعر گوئی کوئی اتنا سیدھا سادہ عمل نہیں ہے ‘ اور شاعر خود اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اُسے کسی صورتحال سے کس طرح نمٹنا ہے چنانچہ یہ اس کی ہمت اور حوصلے پر منحصر ہے کہ وہ اس سے عہدہ برآ ہوتا ہے یا نہیں ۔ میرا زورہمیشہ سے اس بات پر رہا ہے کہ شعر دلیری سے کہنا چاہیے‘ اور اس بات کی ہرگز پروا نہیں کرنی چاہیے کہ لوگ کیا کہیں گے کیونکہ شعر آپ سب سے پہلے اپنے لیے کہتے ہیں‘ لوگوں کی باری کہیں بعد میں آتی ہے‘ اس لیے شعر سے لطف اندوز ہونے کا سب سے پہلا حق شاعر کا اپنا ہے اور وہ اس سے صحیح معنوں میں لطف اندوز تبھی ہو گا اگر شعر اس نے اپنی پوری مکمل مرضی سے کہا ہو گا چنانچہ اس میں شاعر کا فائدہ بھی ہو سکتا ہے اور نقصان بھی۔ اور میرے خیال میں نقصان کی نسبت اس کا فائدہ زیادہ ہے اور اکثر شعراء یہ بات سمجھتے بھی ہیں!اور ‘ اب خانہ پری کے لیے یہ تازہ غزل:
خدا نہیں ہے تو خلق خدا مخالف ہے
کریں بھی کیا کہ ہماری ہوا مخالف ہے
ہمارے حق میں ہو کچھ آسماں بھی اب‘ ورنہ
زمیں الگ تو زمانہ جُدا مخالف ہے
میں ایک جگہ پہ جم کر جو بیٹھنے کا نہیں
ہُوں جا بجا تو مرا جا بجا مخالف ہے
کچھ اس کے ساتھ بھلائی تو کی نہیں ہے کبھی
وہ کس لیے مرا حد سے سوا مخالف ہے
بچا سکے مجھے گرنے سے کس طرح آخر
یہاں تو میرا عصا ہی مرا مخالف ہے
ہم اپنے حال سے بے حال ہو گئے ہیں اگر
تو کیا کریں کہ مرض میں دوا مخالف ہے
وہ شوخ کیا ہے‘ ابھی یہ بھی کہہ نہیں سکتے
کہ کچھ ہمارے موافق ہے یا مخالف ہے
مخالفوں کے سہارے ہی زندہ ہوں اب تک
خدا کے فضل سے ہر طرح کا مخالف ہے
ہوں اس کا سب سے زیادہ نیاز مند‘ ظفر
جو شہر میں مرا سب سے بڑا مخالف ہے
آج کا مطلع
مہربانی نہ عنایت کے لیے دیکھتا ہوں
دیکھ سکنے کی اجازت کے لیے دیکھتا ہوں