شکاری کتوں اور ان جانوروں کے بارے میں، انسان جن سے مدد لیتاہے، قرآن یہ کہتا ہے: تم انہیں اس میں سے کچھ سکھاتے ہو، جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے۔۔۔۔ تعلمونھن مما علمکم اللہ۔ آدمی ہو یا جانور، جو کچھ وہ سیکھتا ہے،اس دوران اس کے جسم میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ تیراکی سیکھنے سے پہلے اور بعد میں جسم وہی ہوتا ہے، بدلتا دماغ ہے۔ ہر نئی مہارت کے دوران دماغ کے خلیات آپس میں نت نئے روابط (Connections) بنا رہے ہوتے ہیں۔ وہ نئی ترتیب میں جڑتے ہیں۔آپ قتل وغارت سیکھیں یا جہاز اڑا نا، بنیادی طور پر یہ تبدیلی دما غ میں رونما ہو رہی ہوتی ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مذہب کو سائنس سے الگ رکھنا چاہیے۔ بنیادی طور پر مذہب اور سائنس کا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ ہی نہیں ؛ لہٰذا ان میں تصادم کی نوبت بھی نہیں آنی چاہیے۔جن کائناتی اصولوں کو انسان سمجھتا چلا جاتاہے، انہیں وہ سائنس میں شامل کر دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سائنس اس طریقِ کار، اس نظام کا نام ہے جس میں یہ دنیا بنی ہے۔ مثلاً کششِ ثقل، زمین کا ہمیں اپنی طرف کھینچنا، دو سیاروں، دو زمینوں، دو سورجوں اور دو کہکشائوں کا ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچنا ایک کائناتی حقیقت ہے۔ انسان کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے کششِ ثقل کے اصول سیکھے۔ اس نے کششِ ثقل کی سائنس سیکھی۔ اس کے مقابلے میں مذہب کا دائرۂ کار یکسر مختلف ہے۔ مذہب نام ہے خدا کے وجود پر یقین (ایمان ) کا اور اس کے بتائے ہوئے طریق پر زندگی گزارنے کا۔ یہاں ہم ایک بات بھول جاتے ہیں۔ وہ یہ کہ مذہب اور سائنس کا دائرۂ کار مختلف سہی، ان دونوں کا ماخذ ایک ہے۔ دونوں کی ابتدا خدا ہے۔
خدا ہی نے یہ دنیا بنائی اور وہی اپنے بندوں سے خود پر ایمان لانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ چلیے میں کہہ دیتا ہوں کہ مذہب اور سائنس کا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں لیکن خدا اپنی مرضی کا مالک ہے۔ وہ سائنسی حقیقت بیان کرنا چاہے تو کسی کی مجال نہیں کہ اسے روک سکے۔ وہ کہتا ہے: ''کیا میرا انکار کرنے والوں نے دیکھا نہیں کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، ہم نے پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا‘‘۔ الانبیاء 30۔ خدا کا انکار کرنے والے بخوبی دیکھ چکے ہیں کہ زمین اور آسمان اکھٹے تھے اور انہیں ایک دھماکے سے جدا کیا گیا۔ انہوں نے اسے نام ہی ایک عظیم دھماکے یعنی بگ بینگ کا دیا ہے۔ یہاں ایک اصول واضح ہوا۔ قرآن سائنس کی کتاب ہرگز نہیں لیکن یہ
خدا کا کلام ہے۔ یہ خالق کا مخلوق سے خطاب ہے۔ یہ تخلیق کی کتاب ہے۔ جب کبھی خدا چاہے گا، وہ سائنس پر رائے دے گا اور یہ رائے حتمی ہوگی۔ ضروری نہیں کہ خدا ہر سائنسی موضوع پر کلام کرے۔ ہو سکتا ہے کہ کششِ ثقل کے بارے میں اس نے خاموش رہنا ہی پسند کیا ہو۔ لیکن یہاں اس آیت میں اس نے کائنات کی ابتد ا کے بارے میں بات کی ہے۔ کسی بھی سائنس پر جب وہ بات کرے گا، تو اس کی بات حتمی ہوگی۔ اسی نے یہ کہا کہ سورج اور چاند جمع کر دیے جائیں گے۔۔۔۔ و جُمِع الشمس و القمر۔ آج یہ بات ایک ماہرِ فلکیات ہی جانتا ہے کہ ہر سورج اپنے اختتام پر پھیلتا ہے۔ اپنے قریبی سیارے اور چاند وہ نگل لیتا ہے۔ ہمارے سورج کے بارے میں بھی پیش گوئی یہی ہے کہ آخری وقت میں یہ پہلے دو تین سیارے ہضم کر جائے گا۔
ساتویں صدی عیسوی میں آغازِ کائنا ت اور اس کے اختتام کے بارے میں آیات نازل ہوئیں۔ تب تک ارسطو اور بطلیموس کے کائناتی ماڈل درست سمجھے جاتے تھے۔ ٹھیک ایک ہزار سال بعد ، سترھویں صدی عیسویں میں ماہرِ فلکیات گیلی لیو کو یہ سچ ظاہر کرنے کی پاداش میں چرچ نے نظر بندی کی موت مار دیا کہ زمین کائنات کا محور و مرکز ہرگز نہیں۔ یہ صرف پانچ سو سال پہلے کا قصہ ہے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ جس عظیم دھماکے کا ذکر ہے، 1927ء میں پہلی بار فرانسیسی فلکیات دان Georges Lemaitre نے اس کا اندازہ لگایا تھا۔ 1929ء میں ایڈون ہبل نے دیکھا کہ کہکشائیں واقعتاً ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی تھیں۔ 1965ء میں پہلی بار اس عظیم دھماکے کی باقیات کا براہِ راست مشاہدہ کیا جا سکا، جو کہ اس کا ایک حتمی ثبوت تھا۔ تیرہ صدیاں قبل، جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں، اس وقت انسان کے پاس قطعاً ایسے آلات نہیں تھے، جن سے وہ کائنات کا جائزہ لے سکتا۔ یہ بیسویں صدی کے لیے نازل ہو ئی تھیں۔
خدا خوفزدہ نہیں ہے۔ سارے علوم کا ماخذ وہی ہے۔ اسی نے ہائیڈروجن بنائی اور اس سے 91 بھاری عناصر بنائے۔ انہی عناصر سے اس نے انسان بنایا، کائنات بنائی۔ پہاڑ اور درخت بنائے۔ انسان کو امانتِ عقل کی پیشکش کی۔ اسے دوسروں سے ممتاز کیا۔ آج میں اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ جین ایڈیٹنگ کے بعد خدا کا کہا ہوا کوئی لفظ غلط ثابت ہو جائے گا تو یہ میری کم علمی، کم فہمی ہے۔ انسانی کاسۂ سر میں عقل رکھنے والا بخوبی جانتا تھا کہ اس کی دی ہوئی Artificial Intelligenceکو آدمی کہاں کس حد تک استعمال کرسکتاہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے بندے زمین و آسمان پہ غور کرتے ہیں۔۔۔۔ یتفکرون فی خلق السمٰوٰت و الارض۔اس کے بندے کائنات پہ انسانی غور و فکر، فلکیات میں کسی نئی دریافت سے خوف زدہ نہیں ہوتے کہ اُس کے خالق کا فرمان ہے: ''عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور خود ان کے اپنے اندر بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (خدا ہی ) حق ہے۔ فصلت 8:53 ۔ بھلا جس نے پہلا زندہ خلیہ بنایا ہو، اس کے اندر ڈی این اے اور جینز رکھے ہوں، جس پر ہماری ساری جین ایڈیٹنگ کا دارومدار ہے، اپنے اندر سے یہ خوف نکال دیجیے کہ ہماری کسی دریافت سے خدا کا کہا غلط ہو جائے گا (نعوذ باللہ)۔ استاد کے الفاظ میں، خدا غلطی نہیں کرتا اور جو غلطی کرتاہے، وہ خدا نہیں ہو سکتا۔