تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     09-12-2015

دُنیا کوجنگیں نہیں امن درکار ہے!

دہشت گردی کی نحوست بدستور کرۂ ارض پر چھائی ہوئی ہے، دُنیا میں کچھ حالیہ المناک واقعات سے اس کی وحشت ناکی ظاہر ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دُنیا ابھی تک نہیں جانتی کہ دہشت گردی کی کیا تعریف (definition) متعین کی جائے۔ پُرتشدد کارروائیوں کے تمامتر مظاہر کو مختلف پیرایوں میں بیان کرنے کے علاوہ اقوام متحدہ نے اس کی ایک مختصر قانونی تعریف یہ کی ہے کہ دہشت گردانہ کارروائی ''زمانہ امن میں ایک جنگی جُرم کے مساوی‘‘ ہوتی ہے۔ ہم اسے کوئی بھی نام دیں‘ دہشت گردی ایک ایسی بُرائی ہے جس نے صدیوں سے انسانیت کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے‘ لیکن موجودہ عہد میں‘ نائن الیون کے المیے کے بعد، نئے ہزاریے میں اس نے تباہی و بربادی کی عالمی جہتیں اختیار کر لی ہیں۔
آج یہ عفریت تمام حدیں پار کرتے ہوئے دُنیا کے تمام خطّوں‘ مذاہب اور معاشروں کی سیاسی‘ اقتصادی اور سکیورٹی حالات کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔ یہ ایک بے چہرہ دشمن ہے، جس کا کوئی عقیدہ ہے نہ مذہب؛ یہ خوف و اضطراب کی پرچھائیوں میں بروئے کار آتا ہے؛ مایوسی اور وہم و گمان میں پھلتا پھولتا ہے اور غربت و جہالت اس کی غذا ہے۔ یہ مدتوں سے جاری ناانصافی‘ ظلم و جبر اور بنیادی آزادیوں و حقوق کی عدم فراہمی کے خلاف روز افزوں غم و غصّے‘ نااُمیدی‘ نفرت اور اضطرابی کیفیت کا ایک نہایت پُرتشدد اظہار ہے۔ عالمی سطح پر‘ دہشت گردی بالعموم اُس وقت سر اُٹھاتی ہے‘ جب ایک طاقتور ریاست اپنی ظالمانہ قوت استعمال کرتے ہوئے ایک کمزور قوم یا ملک پر تسلط قائم کر لیتی ہے یا جہاں یہ قوت لوگوں کو ان کے جائز حق خود ارادی اور آزادی سے محروم رکھنے کے لیے آزمائی جاتی ہے۔
اور جب سیاسی‘ اقتصادی اور معاشرتی محرومیوں کے خلاف آواز اُٹھانے کے لیے جائز ذرائع دستیاب نہ ہوں‘ تو ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے جس میں انتہا پسندانہ اور پُرتشدد کارروائیوں کے خلاف پُرامن حل ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں دہشت گردی، کمزور اور ناامید لوگوں کا ہتھیار بن جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے 2006ء میں ''دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی‘‘ پر اپنی رپورٹ میں تسلیم کیا تھا کہ اندرونی اور بیرونی تصادمات‘ دہشت گردی کو ہوا دینے کے سبب بنتے ہیں۔ اُن کے مطابق دہشت گردی کئی مسائل کے مجموعے کی پیداوار ہے جن میں بُری حکمرانی‘ سیاسی اور معاشی و معاشرتی امراض اور وہ جنگجو لیڈر شامل ہیں جو محرومیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس تبصرے کی حقیقی تعبیر نائن الیون کے بعد عالمی الجھن کی شکل میں مجتمع ہو کر سامنے آئی؛ چنانچہ واشنگٹن میں سرد جنگجوئوں (cold warriors) کے ایک گروپ نے نائن الیون کے حملوں کو ایک جنگ کے مترادف قرار دے کر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغازکر دیا... امکانی طور پر اس جنگ کا کوئی انجام نہیں۔ تیرہ سال کے بعد فوج کا بھاری حصّہ واپس بلانے کے باوجود، افغانستان میں امن کے کوئی آثار نہیں۔ عراق کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ غیر قانونی جنگ ختم ہو چکی لیکن اس بدقسمت ملک پر ہنوز انارکی اور بدانتظامی کا راج ہے۔ دریں اثنا خلیج کی عرب امارات کی فنڈنگ سے سنی عسکریت شروع ہو گئی جس کا مقصد شام میں بشارالاسد کی ظالمانہ حکومت کا تختہ الٹانا تھا‘ لیکن اسلحے کے انبار سے مسلح جنگجوئوں نے جلد ہی اپنا ذہن تبدیل کر لیا۔
عراق اور شام میں اچھے خاصے علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد انہوں نے اپنی متنازع اسلامک اسٹیٹ کا اعلان کر دیا۔ اس سنگین منظرنامے میں صدر اوباما نے گزشتہ برس یہ کہہ کر نام نہاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ایک نئی جنگ شروع کر دی کہ یہ ''عراق و شام کے لوگوں اور شرق اوسط کے علاوہ امریکی شہریوں‘ اہلکاروں اور تنصیبات کے لیے ایک خطرہ ہے‘‘۔ عراق کی جنگ کی طرح نئی جنگی حکمت عملی کے وقت کی بھی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اس میں بھی اقوام متحدہ کو بائی پاس کیا گیا‘ یہ ''آمادہ شراکت داروں کا ایک اتحاد‘‘ ہے جس میں فوجی اعتبار سے امریکہ بھی محدود پیمانے پر شامل ہے۔ اس جنگ میں امریکہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف لڑنے والوں کو ٹریننگ‘ انٹیلی جنس اور جنگی ساز و سامان فراہم کر رہا ہے۔
اوباما نے پُراعتماد لہجے میں اپنے لوگوں کو یقین دہانی کرائی کہ ''گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں‘ اپنے معمولات زندگی جاری رکھیں اور اپنے کمانڈر انچیف کو یہ معاملہ ہینڈل کرنے دیں‘‘۔ ان کے مطابق‘ اس جنگ کا حتمی مقصد ''اسلامک اسٹیٹ کو عراق اور شام میں کمزور کرنا اور بالآخر اسے تباہ کرنا ہے‘‘۔ یہ ایک دیکھے بھالے منظر کا جانا پہچانا بیانیہ تھا۔ اس سے''شیطان صفت‘‘ سویت ایمپائر کی نابودی کے لیے 1980ء کی دہائی میں طالبان کی صف بندی یاد آتی ہے۔
طالبان اور اب داعش کی جوہری حقیقت‘ عالمی سطح کے جیوپولیٹیکل مقاصد کے تناظر میں یکساں ہے۔ دونوں صورتوں میں فرینکن سٹین کا افسانوی عفریت اپنے خالق کو چیلنج کرتے ہوئے کہتا ہے: ''مجھے تمہارا آدم ہونا چاہیے، لیکن میں ایک دھتکارا ہوا فرشتہ ہوں‘‘۔
لیکن یہ ''فرشتے اور شیطان‘‘ کی کہانی نہیں ہے۔ یہ مہیب طاقت کے ساتھ لڑی جانے والی بے رحم جنگ ہے، جس نے دُنیا کو الائو بنا رکھا ہے، دہشت گردی کی کارروائیوں میں روزانہ کئی زندگیاں بھسم ہو جاتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد منحرفینِِ اسلام نے بڑی آسانی سے حقیقی اسلام کو بدنام کیا اور خود اس (اسلام) کے پیروکاروں کے خلاف‘ ایسے افراد اور تنظیموں کے مذہبی نظریات کی بنیاد پر ایک فضا بنائی جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ جس چیز کو آسانی سے نظر انداز کر دیا گیا وہ یہ حقیقت تھی کہ پُرتشدد کارروائیوں میں حصّہ لینے والے لوگ اپنے ملکوں سے بھاگے ہوئے تھے اور اُن کا اپنا ایک گمراہ کن سیاسی ایجنڈا تھا۔
جیسے افغانستان پر سوویت حملے سے پہلے کوئی طالبان نہیں تھے‘ اُسی طرح 2003ء میں عراق پر حملے یا شام کے بحران سے پہلے کوئی آئی ایس آئی ایس (داعش) نہیں تھی۔ سانحہ پیرس کے بعد فرانسیسی صدر فرانسس ہولاند کا یہ بیان قابلِ فہم ہے کہ ''ہم برسرِِ جنگ ہیں‘‘۔ امریکہ کے ایک معروف صحافی اور ممتاز مصنف ایتھن کیسے نے اپنے تازہ ترین مضمون کے عنوان میں ہی یہ سیدھا سوال پوچھا ہے کہ ''کون، کس کے خلاف اورکیوں برسرِِ جنگ ہے؟‘‘ دوسرے لفظوں میں وہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ دشمن کون ہے؟ کوئی بھی، جنگ کی ایک ''طرز‘‘ کے خلاف جنگ نہیں کرتا‘ جنگ کے لیے ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔
نائن الیون کے المیے‘ پیرس کے قتل و غارت یا سان برنارڈینو کے ان لینڈ ریجنل سنٹر پر بھیانک حملے میں ملوث جوڑے میں سے کسی کا بھی کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کوئی بھی مذہب بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بظاہر یہ سب گھنائونی کارروائیاں صرف اور صرف دہشت گردی تھیں، جن کا بڑا سبب اسلامی دُنیا میں مغرب کی حمایت یافتہ ظالمانہ حکومتوں کے خلاف پیدا ہونے والا غصّہ اور اشتعال تھا۔ یہ ان ممالک میں حکمرانوں کی جابرانہ پالیسیاں اور ان کی حکمران اشرافیہ کی غاصبانہ خاندانی امارتیں ہیں جو ہلاکت خیز مایوسی اور اضطراب کو جنم دیتی ہیں۔
صدر اوباما نے خود 2009ء میں قاہرہ کے اپنے مشہور خطاب میں مسلم دُنیا کو درپیش کئی خدشات کی نشاندہی کی تھی، جس میں انہوں نے انتہا پسندی‘ عرب اسرائیل تصادم‘ مسئلہ فلسطین‘ جمہوریت‘ مذہبی آزادیوں‘ خواتین کے حقوق اور اقتصادی ترقی کے علاوہ مساوی مواقع کا بطور خاص ذکر کیا تھا۔ یقیناً یہی ایشوز ہیں جن کا امریکہ اور مغرب کو ازالہ کرنا چاہیے تھا۔ جس چیز کو سمجھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ یہ (دہشت گردی) جمہوریت اور آزادی سے نفرت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی خواہش کے باعث ہے۔ بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ مغرب ہی ان کی دُنیا میں غیر جمہوری حکومتوں کو قائم اور جاری رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ 
بظاہر‘ جنگ کے دیوتائوں کی بھوک ابھی باقی ہے۔ جو چیز اس افسوسناک منظر کو مزید ابتر بنا رہی ہے‘ وہ مسلمان دُنیا کی اپنا تاثر درست کرنے اور اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی عدم اہلیت ہے۔ ہم مسلم دُنیا کی ادارہ جاتی ناکامی‘ اس کے سیاسی اور ذہنی بانجھ پن‘ اس کی علوم و فنون‘ تعلیم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پسماندگی‘ جدیدیت اور تجدید سے اس کی بیزاری اور اس کی روز افزوں غلامانہ خلصت کی تمام تر ذمہ داری مغرب پر عائد نہیں کر سکتے۔ بلکہ جس چیز نے مزید خرابی پیدا کی وہ یہ ہے کہ پوری مسلم دُنیا میں کہیں بھی‘ اس زوال پذیر رجحان سے باہر نکلنے کی خواہش اورآرزو ہی نظر نہیں آتی۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اس طرزعمل پر نظرثانی کی جائے اور مسلمانوں کا تاثر امن پسند اور متحمل مزاج لوگوں کے طور پر تبدیل کیا جائے؟
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved