تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-12-2015

پیسہ پھینک ٗ تماشا دیکھ

جدید علوم و فنون کے میدان میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوانے والے ممالک یا معاشروں کی تعداد اچھی خاصی ہے‘{ مگر سچ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کو زندگی کا ''اٹوٹ انگ‘‘ بنانے کے معاملے میں جاپان سب سے آگے ہے۔ ٹیکنالوجی کے شاہکار دیکھنے ہوں تو جاپان کو دیکھیے۔ ہر معاملے میں ٹیکنالوجی کا استعمال جاپانیوں نے اس قدر عام کر دیا ہے کہ اب اس کے بغیر زندگی ٹھہرے ہوئے پانی کی سی لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جاپان خود بھی ٹیکنالوجی کا مرقع ہے، شاہکار ہے۔ 
جاپانیوں کی زندگی میں قدم قدم پر اتنا کچھ ہے کہ احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک طرف فطری زندگی ہے اور دوسری طرف ٹیکنالوجی۔ اور دونوں کو ساتھ ملا کر قابلِ رشک انداز سے زندگی بسر کی جا رہی ہے۔ جاپانی آج بھی فطرت سے بہت قریب ہیں۔ میرزا نوشہ یعنی غالبؔ نے اپنے محبوب میں پائی جانے والی جس سادگی و پُرکاری اور بے خودی و ہُشیاری کو سراہا‘ وہ جاپانیوں میں بہ درجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ بیشتر جاپانی شور شرابے اور ہنگامہ آرائی سے دور رہتے ہیں۔ ہر معاملے میں سادگی نمایاں ہے۔ روایتی گھریلو ماحول بہت حد تک برقرار ہے۔ گھرانے یا خاندان کے افراد کا مل کر رہنا جاپانی معاشرے میں اب بھی عمومی چلن کا درجہ رکھتا ہے۔ 
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جاپانی بیشتر معاملات میں پریشان کن حد تک حیران کرکے دم لیتے ہیں۔ پیار بھی انوکھا اور نفرت بھی انوکھی۔ حمایت عجیب تو احتجاج عجیب تر۔ جاپان میں اگر کسی فیکٹری کے مزدور محسوس کریں کہ انہیں پورا محنتانہ نہیں دیا جا رہا تو احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے زیادہ کام کرتے ہیں یعنی زیادہ پیداوار یقینی بناتے ہیں! ہے ناں حیرت کی بات؟ آپ سوچیں گے ایسا کیوں کیا جاتا ہے۔ صرف اس لیے کہ آجر پریشانی سے دوچار ہو۔ آجر کے لیے یہ صورت حال بہت پریشان کن ہوتی ہے۔ رسد بڑھنے سے طلب کے متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے یعنی قیمت نیچے آتی ہے۔ اور اگر اضافی پیداوار بازار میں نہ لائی جائے تو اسے گودام میں رکھنے پر خطیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ آجر یہ پسند نہیں کرتے کہ پیداوار ہدف سے زائد ہو۔ یعنی جب محنت کش زیادہ کام کرنے اور پیداوار دُگنی تِگنی کرنے پر تُلے ہوں تو آجروں کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے، بات ماننا ہی پڑتی ہے۔ 
جاپان کا رقبہ بہت کم ہے۔ زمین کی قیمت دن رات بڑھتی جا رہی ہے۔ چھوٹے بڑے شہروں میں کروڑوں افراد رہائش کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مسائل جوں کے توں رہتے ہیں، حل ہونے کا نام نہیں لیتے۔ مسائل کی بہتات ہی نے اُن کا حل تلاش کرنے کے لیے سوچنے کی راہ بھی سجھائی ہے۔ مثلاً لوڈنگ ٹرک اور کنٹینر میں جگہ ضائع ہونے کا مسئلہ حل کرنے کے لیے گول کے بجائے چوکور تربوز اگائے گئے ہیں! 
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑ رہا ہے۔ جاپانیوں نے ترقی کی راہ پر چلتے چلتے اب مغربی انداز اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اہلِ مغرب نے تو یہ طے کر لیا ہے کہ کسی بھی معاملے میں مستند اور درخشاں روایات کو ہرگز نہیں اپنائیں گے۔ جن کے نزدیک اِس دنیا ہی کی زندگی سب کچھ ہو وہ اب زندگی کے روحانی پہلو کو گھاس ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ زندگی کا کوئی بھی پہلو مادّہ پرست ذہنیت کے وار سے محفوظ نہیں رہا۔ ہر چیز مصنوعی یا ادھوری ہے یعنی بے لذت و بے سُود ہے۔ حیرت ہے کہ مشرقی طرز زندگی پر جی جان سے مرنے والے جاپانیوں نے مغربی روش اپنانا کیوں شروع کر دیا ہے؟ ایسا کرکے وہ اپنے لیے ایسی تباہی کا سامان کر رہے ہیں جس کے آگے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے سے ہونے والی تباہی بھی کچھ نہیں! 
جاپان میں کئی مسائل اچانک سنگین شکل اختیار کرگئے ہیں۔ معیار زندگی بلند ہے جس کے نتیجے میں اوسط عمر بڑھ گئی ہے۔ سو سال جینے والے لاکھوں ہیں یعنی معمر افراد کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں افرادی قوت کی کمی کا مسئلہ خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے کیونکہ شرح پیدائش برائے نام رہ گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ معاشرے سے اصلیت رخصت ہوتی جا رہی ہے اور تصنع بڑھ رہا ہے۔ اور اب تصنع کا گراف بھی اس قدر بلند ہو گیا ہے کہ مغربی معاشروں کی طرح جاپانی معاشرہ بھی اِس دنیا سے باہر کسی خیالی دنیا کا عکس دکھائی دینے لگا ہے۔ 
مغرب کی طرح جاپان میں بھی‘ اب ضرورت کی ہر چیز نیٹ 
یا فون پر دستیاب ہے۔ نیٹ پر جائیے یا کال کیجیے اور جو درکار ہو وہ پائیے۔ پیسہ جیب سے ضرور نکالیے مگر قدم گھر کی حدود ہی میں رہنے دیجیے، سب کچھ گھر کے دروازے پر ملے گا۔ کیا ہے جو نیٹ کے ذریعے یا ایک کال پر میسر نہیں؟ اگر کچھ کھانے کو جی چاہے تو کال کیجیے اور کچھ ہی دیر میں پیٹ کی آگ بجھا لیجیے۔ ملبوسات درکار ہیں تو متعلقہ ویب سائٹ پر جائیے اور گھر بیٹھے مرضی کے پہناوے منگوائیے۔ کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی سہولت قیمتاً حاصل کرنا تو سمجھ میں آتا ہے اور اِس میں کچھ بُرا بھی نہیں‘ مگر اب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ زندگی کا لطیف ترین پہلو بھی کثیف ذہنیت کی نذر ہوتا جارہا ہے۔ یعنی یہ کہ رشتے اور تعلقات بھی خریدے اور بیچے جارہے ہیں! 
اگر زندگی سراسر تنہائی کی زد میں ہے تو پریشان ہونا چھوڑیے اور کسی کو ساتھی بنائیے۔ اب ساتھی کہاں ملے گا یا ملے گی؟ ویب سائٹ پر، اور کہاں! کسی بھی معیاری ویب سائٹ کو وزٹ کیجیے اور مرضی کی ساتھی یا مرضی کا ساتھی منتخب کیجیے۔ کال کرکے ''آئٹم‘‘ کی تفصیلات جانیے اور مطلوبہ رقم ادا کرکے آرڈر دے دیجیے۔ اگر بچے کا ہوم ورک کرانے میں مدد دینے کے لیے آپ کے پاس وقت نہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہوم ورک میں مدد دینے کی غرض سے بھی لوگ خدمات کرائے پر دینے کو تیار رہتے ہیں۔ بس، آپ کی نظرِ عنایت چاہیے یعنی آرڈر دینے کی دیر ہے۔ 
اب ذرا اور آگے بڑھیے۔ اگر کسی کے ماں باپ نہیں ہیں تو بالکل نہ گھبرائے، دل ہرگز نہ چھوٹا کرے۔ ماں کی محبت بھی ملے گی اور باپ کی شفقت بھی۔ صرف جیب ڈھیلی کرنے کی دیر ہے۔ یعنی ماں باپ بھی کرائے پر دستیاب ہیں! اور کسی کے گھر میں بچوں کی کلکاریاں نہیں گونج رہیں اور وہ چار دیواری کا سنّاٹا ختم کرنا چاہتا ہے تو فوراً کسی اچھی ویب سائٹ پر جائے اور کرائے کے بچوں کا آرڈر دے! 
یہ ہوتا ہے ترقی کا انجام۔ جب ایک بار طے کر لیا کہ ہر چیز بکاؤ مال ہے یعنی خریدی اور بیچی جا سکتی ہے تو پھر رشتے، تعلقات اور جذبات کو کیونکر استثنا دیا جا سکتا ہے؟ دولت کے ترازو میں ہر چیز تولی جا سکتی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ معاشرے کے دامن میں کیا بچا ہے بلکہ یہ ہے کہ سودا منافع کا ہے ناں، گھاٹے کا تو نہیں۔ جب ایک بار سوچ لیا کہ ہر معاملے کو صرف مارکیٹنگ کے نقطۂ نظر سے دیکھنا ہے تو پھر مادّیت اور روحانیت کوئی فرق کیوں رکھا جائے؟ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکیے۔ جدت اِسی کا نام ہے۔ اصل اور کھرے رشتوں کی بھرپور گنجائش ہوتے ہوئے بھی نازک اور بابرکت رشتوں کو کرائے پر حاصل کرنا چہ معنی دارد؟ ایسی ہی کیفیت کے لیے علامہ نے کہا تھا ع 
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی! 
پیسہ پھینک، تماشا دیکھ والی ذہنیت ویسے تو خیر انسانی فطرت کا لازمی حصہ ہے مگر اِسے پروان چڑھا کر بحران کی شکل میں اہم ترین کردار مغرب نے ادا کیا ہے۔ جب انسان ہر معاملے کو صرف مالی منفعت یا نقصان کے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے اور ہر چیز کو مادّہ پرستی کے ترازو میں تولتا ہے تو ایسے ہی تماشے جنم لیا کرتے ہیں۔ زندگی کو آسان اور پُرآسائش بنانے کی راہ پر ہمیں کہاں تک جانا چاہیے‘ اِس کا تعین ہمی کو کرنا ہے، ہمارے لیے یہ خدمت کوئی اور کیوں انجام دے گا؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved