ڈاکٹر ظفر الطاف کو نواز شریف صاحب نے ایک سال گھر بٹھا دیا۔ ایک دن ہنس کر کہنے لگے: ''بے نظیر بھٹو سمجھتی تھیں میں نواز شریف کا قریبی ہوں، لہٰذا وہ پورا عرصہ میرے ساتھ سختی سے پیش آتی رہیں اور یہ موصوف سمجھتے ہیں چونکہ میں بے نظیر دور میں سیکرٹری رہا، اس لیے ان کا آدمی ہوں‘ حالانکہ میں صرف ریاست اور عوام کا بندہ ہوں‘‘۔
ایک دن ان کے منہ سے نکل گیا کہ ان کے والد چوہدری الطاف اتفاق فائونڈری کے پہلے قانونی مشیر تھے‘ اور مرتے دم تک رہے۔ پہلے دن چوبیس روپے ماہانہ مشاہرہ طے ہوا، وہی آخر تک رہا۔ زندگی بھر فیس نہ بڑھائی کہ مروت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ شریف خاندان کو یاد کرانے کی کوشش بھی نہ کی کہ ان کے سیاست میں آنے سے پہلے انہوں نے بھی ان پر چند احسانات کیے تھے۔
وقت بدلا، جنرل مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ پتا کرایا کہ ملک میں کرکٹ اور زراعت کون سنبھال سکتا ہے؟ عمران خان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ''کرکٹ بورڈ چلانا ہے تو ظفر الطاف ہی بہترین چوائس ہے‘‘۔ راتوں رات انہیں سیکرٹری زراعت اور چیئرمین کرکٹ بورڈ مقرر کر دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے آتے ہی بھارتی بورڈ پر چڑھائی کر دی کہ 1996ء کے ورلڈ کپ کی رقم اب تک نہیں ملی۔ جونہی رقم ملی، خبر چھپی اور کچھ دن بعد ہٹا دیے گئے۔ ایک باوردی جنرل امیر ترین بورڈ کا چیئرمین بن گیا۔ مسکرا کر کہتے: ''شفقت رانا کو منع بھی کیا تھا کہ بھارتی بورڈ سے رقم وصول ہونے کی خبر نہ لگنے دینا‘‘۔
ان کے سیکرٹری بنتے ہی ہم اسلام آباد کے سب صحافی دوبارہ 'اپنے پریس کلب‘ پہنچ گئے۔ پھر وہی کام شروع ہو گیا۔ ان کے دفتر میں لیٹے رہنا، اہم اجلاسوںکی خبریں لینا، ملاقاتیں اور چائے پانی۔
ایک دن میرے ہاتھ ایک سکوپ لگ گیا۔ بل کلنٹن پاکستان آئے تو جنرل مشرف نے پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کے پانچ سو ملین ڈالر واپس مانگے، مگر جہاز ملے نہ پیسے۔ بل کلنٹن نے نواز شریف صاحب سے یہ ڈیل کی تھی کہ وہ 350 ملین ڈالر کیش اور باقی 150 ملین ڈالر کا سویابین دیںگے۔ جب جنرل مشرف نے یہ معاملہ اٹھایا تو امریکہ بہادر ناراض ہو گیا۔ امریکیوں نے عجیب حرکت کی۔ انہوں نے پی ایل 48 سکیم کے تحت تین لاکھ ٹن گندم پاکستان کو مفت دی تھی‘ جو افغان مہاجرین کو فراہم کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا: ''وہ اس گندم کی قیمت ایف سولہ طیاروں والی رقم سے کاٹ لیں گے‘‘۔ صرف یہی نہیں، امریکیوں نے جہاز کا کرایہ تیس ڈالر کے بجائے ستر ڈالر فی ٹن لگا کر ستر ملین ڈالر سے زیادہ کا بل بنا کر نیا معاہدہ پاکستان کو پیش کر دیا۔ وزیر اعظم شوکت عزیز اور وزیر خارجہ عبدالستار نے نیا معاہدہ کر لیا۔ میں نے ڈان میں خبر بریک کی کہ امریکہ نے نئے معاہدے کے تحت ایف سولہ طیاروں کی رقم اُس گندم کے بل میں ایڈجسٹ کر لی ہے‘ جو تین سال پہلے مفت دی گئی تھی۔ خبرکا چھپنا تھا کہ اسلام آباد میں طوفان آ گیا۔ جنرل مشرف نے اجلاس بلا لیا کہ یہ خفیہ معاہدہ ان سے پوچھے بغیر کیسے ہوا؟ شوکت عزیز نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ انہوں نے جھوٹ گھڑا کہ یہ سب نواز شریف صاحب کا کیا دھرا ہے‘ جنہوں نے دسمبر 1998ء کے دورہ امریکہ میں یہ سب مان لیا تھا۔ یوں سارا نزلہ نواز شریف پرگرا دیا گیا‘ حالانکہ انہوں نے ایسی کوئی شرط نہیں مانی تھی۔ ساتھ ہی شوکت عزیز نے جنرل مشرف سے شکایت کہ رئوف کلاسرا وزارت زراعت جاتا ہے، وہیں سے یہ خبر نکلی ہو گی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کی انکوائری کا حکم ہوا۔ شفقت جاموٹ وزیر تھے۔ انہوں نے بھی شکایت کی کہ دیکھیں رئوف آپ کا دوست ہے، آپ کے پاس آتا ہے اور ہمارے خلاف سکینڈل فائل کرتا ہے۔ وزارت کے افسروں کو بھی بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا۔ ظفر الطاف سے کہا، آپ اسے بین کر دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے انکار کر دیا اور کہا: ''یہ اس کا کام ہے‘‘۔ مجھے انور نے بتایا: ''ڈاکٹر صاحب پر دبائو ہے‘‘۔ میں نے سوچا بہتر ہو گا کچھ دن وزارت جانا چھوڑ دوں۔ تیسرے دن گھر ہی تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا فون آیا... اوئے ڈر گئے ہو، کہاں ہو، جلدی آئو لنچ پر چلتے ہیں۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ ان کے دفتر پہنچا۔ سرکاری افسروں کے منہ بن
گئے کہ جس کی وجہ سے انکوائری ہو رہی تھی وہ پھر موجود ہے، یہ خبر جنرل مشرف تک پہنچ جائے گی۔ کھانے کے بعد ہم دفتر لوٹے اور جونہی لفٹ سے باہر آئے، سامنے شفقت جاموٹ نیچے آنے کے لیے کھڑے تھے۔ میں نے کہا: ''لو جی آج تو رنگے ہاتھوں پکڑے گئے‘‘۔ میں نے اپنے تئیں سمجھداری کی اور ایسے ایکٹ کیا‘ جیسے میں ڈاکٹر ظفر الطاف کو جانتا تک نہیں۔ مجھے شفقت جاموٹ چہرے سے نہیں پہچانتے تھے، لہٰذا میں لفٹ سے نکل گیا۔ وزیر موصوف بھی ڈاکٹر صاحب سے سلام دعا کرنے لگے اور مجھے نہیں دیکھا۔ میں نے اپنی سمجھداری پر اپنے آپ کو داد دی اور ڈاکٹر صاحب کے دفتر جا کر بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر صاحب دفتر آئے تو ان کا چہرہ غصے سے سرخ تھا۔ میں گھبرایا، شاید وزیر سے لڑائی ہو گئی ہے۔ مجھ پر برس پڑے: '' یہ کیا حرکت کی، تمہارا خیال ہے میں دوست وزیروں سے پوچھ کر بناتا ہوں؟ میں نے پینتیس برس سرکاری نوکری کی ہے، درجنوں وزرا کے ساتھ کام کیا ہے۔کیا میں ان سے پوچھتا رہتا کہ کس کو دوست بنا سکتا ہوں، کس کو نہیں؟ جاموٹ تین دفعہ کہہ چکا ہے، تمہارا دوست رئوف ہمارے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ میں نے اسے بتا دیا ہے کہ رئوف صحافی ہے اور دوست بھی، میں اسے منع نہیں کروں گا۔ اگر ہم غلط کر رہے ہیں تو ہم اپنے آپ کو درست کریں۔ تم نے اس طرح کی حرکت کر کے میری بے عزتی کی کہ شاید میں اتنا کم ظرف ہوں، ایک وزیرکی خاطر تم سے تعلق توڑ لوں گا‘‘۔ میں نے فوراً معافی مانگی۔ ان کی جگہ میرا سگا بھائی ہوتا اور اس کا وزیر ناراض ہوتا تو وہ مجھے منع کر دیتا کہ دفتر نہ آنا۔ ملنا ہو تو گھر آ جانا۔ یہی وہ دن تھا جب میں نے ان کی عزت دل سے کرنا شروع کی۔
اس دوران ای سی سی کے اجلاسوں میں ڈاکٹر صاحب کی شوکت عزیز سے لڑائیاں ہونے لگیں۔ شوکت عزیز زراعت کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ جاموٹ استعفیٰ دے کر چلے گئے تھے۔ ان کی جگہ نیا وزیر آیا جو پہلے دن ہی سازشیں کر نے لگا۔ مجھے اس وزیر نے بلایا کہ مشورے دیں۔ میں نے کہا: ڈاکٹر ظفر الطاف کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں۔ در اصل شوکت عزیز، عبدالرزاق دائود اور وزیر زراعت مل کر ان سے جان چھڑانا چاہتے تھے کیونکہ وہ ای سی سی اجلاسوں میں ان طاقتور لابیوں کے خلاف لڑتے جو کسانوںکا استحصال کر رہی تھیں۔ شوکت عزیز فری مارکیٹ چاہتے تھے یعنی کسی فصل کی قیمت مقرر نہ کی جائے؛ چنانچہ پھٹی کی قیمتیں گریں تو کسان بلبلا اٹھے۔ ڈاکٹر صاحب فوراً کابینہ گئے، ای سی سی گئے، سب سے کہا کہ ٹی سی پی کسانوں سے پھٹی خریدے تاکہ قیمتیں اوپر جائیں۔ سب نے جواب دیا، نہیں جناب، اب فری مارکیٹ اکانومی کام کرے گی، حکومت دخل نہیں دے گی۔ ڈاکٹر صاحب سب سے مایوس ہوئے تو انہوں نے ایک غیرمعمولی فیصلہ کیا جو عام بیوروکریٹ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہوں نے کاٹن کمشنر کو حکم دیا کہ وہ فوراً وزارت میں ایک سیل قائم کریں اور عالمی مارکیٹ سے خریدار ڈھونڈیں، ان کے کسانوں
سے رابطے کرائیں اور کپاس باہر بھجوا کر کسانوںکو اچھے پیسے لے کر دیں۔ یہ فیصلہ ایک طرح کی بغاوت کے مترادف تھا کیونکہ جنرل مشرف کا فیصلہ تھا حکومت کاٹن میں مداخلت نہیںکرے گی، ٹیکسٹائل ملز مالکان جانیں اور کسان۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کا مقصد یہ تھا کہ جونہی کاٹن پاکستان سے باہر جانا شروع ہو گی ٹیکسٹائل والے فوراً اچھا ریٹ دے کر خود پھٹی خرید لیں گے۔ شوکت عزیز، عبدالرزاق دائود اور وزیر زراعت جنرل مشرف کے پاس گئے کہ جناب آپ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر الطاف نے اپنی وزارت میں دکان کھول لی ہے، وہاںکاٹن کا کاروبار ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی ان کے کان بھرے کہ ایک امریکی کمپنی کو بھی ایک معاہدے کی پاسداری نہ کرنے پر غلط جرمانہ کیا جا رہا تھا۔
جنرل مشرف نے حکم دیا نہ صرف ڈاکٹر ظفر الطاف کو ہٹا دیا جائے بلکہ ان کے خلاف نیب مقدمہ درج کرے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف اس وقت روم میں تھے جہاں وہ یو این ایف او کے سربراہ کا الیکشن لڑ رہے تھے اور جیتے والے تھے۔ انہیں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طارق سعید ہارون نے فون کرکے بتایا اور کہا واپس مت آنا، وہیں سیاسی پناہ لے لیں، واپس آئے تو نیب گرفتار کر لے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے سکون سے فون سنا اور بولے، ویسے تو میں نے تین دن بعد آنا تھا، لیکن اب اگلی فلائٹ لے کر آ جائوںگا، جلاوطنی کی زندگی سے وطن کی جیل بہتر ہے۔
اس دوران نیب کے جنرل امجد نے ان کے ورانٹ جاری کیے کہ ڈاکٹر طفر الطاف وطن لوٹیں تو انہیں گرفتار کر لیا جائے۔ طارق سعید ہارون نے ایک دفعہ پھر انہیں روکنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نے کہا، نہیں وہ جیل چلے جائیں گے مگر بھگوڑے کی زندگی نہیں گزاریں گے، تمام الزامات کا سامنا کریں گے۔ نیب گرفتاری کے لیے تیار تھی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف سیاسی پناہ لینے کی بجائے وطن روانہ ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر کے دوستوں اور ہمدردوں کی نیندیں اڑ چکی تھیں۔ کسی کو کچھ پتا نہیں تھا کیا ہونے والا ہے۔ (جاری)