ڈھائی سال تک مختلف ریاستی اداروں کے ٹکڑے کر کے پرچون میں کوڑیوں کے بھائو بیچنے کے بعد، سرمایہ داروں کی یہ حکومت پی آئی اے کی نجکاری کر کے موٹا مال کھانے اور کھلانے کی واردات کرنے جا رہی ہے۔ پی آئی اے کو ''لمیٹڈ کمپنی‘‘ قرار دے کر اس عیاری سے نجکاری کی جا رہی ہے کہ سٹاک ایکسچینج کے ذریعے ادارہ نجی ہاتھوں میں چلا جائے اور کسی کو خبر بھی نہ ہو۔
منڈی کی اس معیشت میں جو تجارت ہوتی ہے‘ اس میں تو مندے مال کو بھی چمکا دمکا کر مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ قربانی کے جانوروں کو بھی رنگ روغن کر کے گانیاں پہنائی جاتی ہیں کہ دام اچھا ملے‘ لیکن ریاستی اداروں کی نجکاری کے معاملے میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ یہاں بیچنے اور خریدنے والوں میں فرق ظاہری ہی ہوتا ہے۔ کھرے مال کا کھوٹا بھائو لگانے کے لئے پہلے اس پر کالک ملی جاتی ہے۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ادارے برباد کئے جاتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے اس بربادی کی خوب تشہیر کرکے یہ ''رائے عامہ‘‘ مسلط کی جاتی ہے کہ اس ناکارہ ''قومی اثاثے‘‘ کو بیچنے میں ہی فائدہ ہے۔ سٹیل ملز اور واپڈا سمیت دوسرے درجنوں اداروں کی طرح پی آئی اے کے ساتھ بھی گزشتہ تین دہائیوں میں یہی ہوا ہے۔
1977ء میں اقتدار پر شب خون مارنے والی ضیا آمریت کی ''اسلامائزیشن‘‘ کا ایک بنیادی مقصد بھٹو دور کی نیشنلائزیشن کو الٹ کر پرائیویٹائزیشن کا بازار گرم کرنا بھی تھا۔ اس آمریت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کو بڑی عیاری سے ''جمہوریت‘‘ اور ''آزادیء اظہار‘‘ کی بھول بھلیوں پر ڈال کر انقلابی منزل سے بھٹکا دیا گیا‘ لیکن بعد کی ''جمہوری حکومتوں‘‘ نے جس طرح سے نجکاری اور جارحانہ نیولبرل سرمایہ داری کو لاگو کیا، اس کے سامنے ضیا آمریت کی وحشت بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ پی آئی اے کی نچلی سطح کی نوکریوں کو سیاسی رشوت ستانی کے لئے استعمال کیا گیا تو دوسری طرف مالدار حواریوں کی نااہل اولاد کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کروایا گیا۔ ادارے کی اس منصوبہ بند اور بتدریج تباہ کاری میں بدنام عام ملازمین اور مزدور ہوتے رہے اور اعلیٰ افسران کروڑوں اربوں روپے لوٹتے اور لٹاتے رہے۔
پاکستان کے سجیلے حکمرانوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ آج عالمی سطح پر سرمایہ داری جس بحران کا شکار ہے اس کے پیش نظر سرمایہ کاری کے لئے کوئی بڑا سرمایہ دار یا ملٹی نیشنل کمپنی تیار ہے نہ ان میں حوصلہ ہے۔ منڈی کی معیشت جب مندی سے دوچار ہوتی ہے تو شرح منافع کے ساتھ اثاثوں کے دام بھی گر جاتے ہیں۔ آج جس دام پی آئی اے کو بیچا جا رہا ہے بیس سال قبل اس سے کہیں زیادہ رقم مل سکتی تھی، لیکن مال تب بھی آج ہی کی طرح اسی سرمایہ دار طبقے کے کسی دھڑے یا مافیا کے پاس جانا تھا۔
نجکاری بذات خود سرمایہ دارانہ معیشت کے زوال کے علامت ہے۔ جب سرمایہ دار طبقہ نئی صنعت کاری کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو اپنی ہی ریاست کو نوچنے لگتا ہے۔ جدید تاریخ میں سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یورپ، جاپان، کوریا اور امریکہ نے تیز ترین ترقی اس وقت کی جب بنیادی انفراسٹرکچر کے ادارے، سروسز اور توانائی کے اہم شعبے ریاست کی تحویل میں تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بالخصوص یورپ میں اصلاح پسندی اور سوشل ڈیموکریسی کا عروج ایسی ہی پالیسیوں کے بدولت تھا۔ سوویت یونین اور چین میں منصوبہ بند معیشت کے تحت تیز معاشی ترقی، روزگار کی ضمانت اور تعلیم و علاج وغیرہ کی مفت سہولیات میں پوری دنیا کے عوام کے لئے کشش موجود تھی۔ ایسے میں سرمایہ دارانہ ممالک میں انقلاب سے بچنے کے لئے روزگار اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاستوں کی مجبوری تھی‘ جس کے لئے نیشنلائزیشن ضروری تھی۔ علاوہ ازیں جنگ کے بعد کی دو دہائیوں کے معاشی ابھار میں سرمایہ داروں کی شرح منافع خاصی بلند تھی اور اپنے نظام کی حفاظت کے لئے چند سکے ٹیکسوں کی شکل میں عوام کی طرف اچھال دینے میں انہیں کوئی خاص مسئلہ نہ تھا۔
یہاں ایسی معاشی اصلاحات کی کوشش صرف بھٹو دور میں کی گئی۔ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے دشمنی مول لینے والی پیپلز پارٹی حکومت نے سرمایہ دار طبقے پر ضرب لگائی لیکن سرمایہ دارانہ نظام کو ختم نہیں کیا۔ نتیجتاً سرمایہ دار افراط زر کے ذریعے معیشت کو گلا گھونٹنے لگے اور عدم استحکام سے دوچار بھٹو حکومت کو فوج کے ذریعے معزول کروا دیا گیا۔
آج اس نظام زر کا سب سے بھیانک المیہ ہے کہ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی انسانی ضروریات کا کاروبار سب سے زیادہ منافع بخش ہو گیا ہے۔ عوام مجبور ہیں کہ اپنا سب کچھ بیچ کر بھی یہ ضروریات خریدیں۔ اس بدعنوان سیاست اور ریاست میں، ان شعبوں کے لئے مختص بجٹ دنیا میں کم ترین ہے۔ پاکستان اسلحہ سازی کے اخراجات میں پانچویں جبکہ تعلیم پر حکومتی اخراجات کی فہرست میں 157ویں نمبر پر ہے۔ صحت کا حال اس سے بھی بدتر ہے۔ اس ابتری کا بنیادی مقصد سرمایہ داروں کو ان منافع بخش شعبوں سے مستفید کرنا ہے۔
پی آئی اے کے علاوہ واپڈا اور سٹیل ملز کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر کے اذیت ناک نجکاری کا عمل جاری ہے۔ ''نیشنلائزیشن‘‘ کے لفظ کو اتنا بدنام کیا گیا ہے کہ عام لوگ، بالخصوص درمیانہ طبقہ کچھ عرصہ پہلے تک نجکاری سے خوش فہمیاں وابستہ کئے ہوئے تھے‘ لیکن نجکاری کے فضائل جب کھل کے سامنے آئے تو سب کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ آج کی سرمایہ دارانہ معیشت میں نیشنلائزیشن اگر ہوتی بھی ہے تو اس کے مقاصد ماضی سے کافی مختلف ہیں۔ ریاست عام طور پر دیوالیہ صنعتوں اور بینکوں کو ''خرید‘‘ کر سرمایہ داروں کا خسارہ بھرتی ہے یا پھر ریاستی افسر شاہی کی لوٹ مار کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔ جب تک پورا معاشی ڈھانچہ سرمایہ داری سے سوشلزم میں تبدیل نہیں کیا جاتا، اس وقت تک سرمایہ دارانہ بنیادوں پر نیشنلائزیشن محنت کش طبقے اور عوام کے لئے بہت محدود فوائد کی حامل ہی ہو سکتی ہے‘ لیکن نجکاری تو بیروزگاری، ٹھیکیداری، پنشن اور تنخواہوں میں کٹوتی، سہولیات کا خاتمہ اور مہنگائی کرکے محنت کش عوام کی زندگی کو مزید عذابوں میں ہی مبتلا کرے گی۔
پی آئی اے کا جو حال ہے سو ہے، لیکن نجی ایئرلائنز کی سروسز بھی کچھ کم اذیت ناک نہیں۔ دہائیاں قبل جب ''باکمال لوگ، لاجواب سروس‘‘ والی پی آئی اے چلا کرتی تھی تو معیشت میں بھی کچھ جان موجود تھی۔ آج سرکاری ہو یا نجی، ہر ادارہ ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔ محنت کشوں اور صارفین کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں ''بزنس‘‘ اور ''ایڈمنسٹریشن‘‘ کے نام پر یہی ڈاکہ زنی پڑھائی اور سکھائی جاتی ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف اٹھنے والی ابتدائی تحریک سے حکمران خوفزدہ بھی ہیں۔ حکمران اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ کسی ملازم کو نکالا نہیں جائے گا۔ یقینا کسی کو ''نکالا‘‘ نہیں جائے گا، حالات ہی ایسے کر دیے جائیں گے کہ ملازمین ''نکل‘‘ جانے میں عافیت جانیں۔ دور دراز ٹرانسفر، بلیک میلنگ، دھونس، گولڈن ہنڈ شیک یا پھر ''شیئرز‘‘ دے کر ملکیت میں حصہ داری کا جھانسہ... حکمرانوں کے پاس واردات کے طریقہ ہائے کار کی کمی نہیں ہوتی۔ متوقع نجکاری کے بعد نجی انتظامیہ دنیا بھر میں موجود پی آئی اے کے اثاثوں کو ہڑپ کر جائے گی۔ اگر ادارہ دیوالیہ ہو گیا تو مالکان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ وہ اپنا پیسہ حکومتی گارنٹی اور نجکاری کے معاہدے کے تحت ریاست سے وصول کر ہی لیں گے‘ لیکن محنت کش کہاں جائیں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کا سرمایہ دار طبقہ براہ راست ڈاکہ زنی پر اتر آیا ہے۔ وزارت خزانہ کے اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ''یہ سرمایہ دار دولت کے انبار اکٹھے کر رہے ہیں مگر پھر بھی رو رہے ہیں... وسائل اور مہارت کی کمی نہیں ہے... نجی شعبے میں پاکستان اور نظام پر اعتماد ہی ٹوٹ چکا ہے۔‘‘ اکنامک سروے 2014-15ء کے مطابق ''صنعتی پیداوار کی شرح 4.5 فیصد سے گر کر 3.6 فیصد ہو گئی ہے‘‘۔ یہ سرمایہ دار جن کا اپنا نظام مر رہا ہے‘ بھلا پی آئی اے کیا چلائیں گے؟ بس جتنا لوٹ سکے لوٹیں گے، مزید بیروزگاری اور محرومی پھیلائیں گے، تجوریاں بھریں گے اور ادارہ بکھر کر برباد ہو جائے گا۔
پی آئی اے کے محنت کشوں نے جدوجہد کی ہے لیکن یونین قیادت نے ہمیشہ اس جدوجہد کو حکمرانوں کے ہاتھوں بیچا ہی ہے۔ دوسرے شعبوں کے محنت کشوں سے جڑت نہ بنانے اور حکمرانوں کے دلاسے قبول کرنے سے یہ تحریک مزید کمزور ہوئی ہے‘ لیکن طبقات ہیں تو طبقاتی کشمکش بھی رہے گی۔ آج اگر حکمران وار کر رہے ہیں تو محنت کش بھی انتقام ضرور لیں گے۔ یہ انتقام چند اداروں کی نیشنلائزیشن پر ختم نہیں ہو گا بلکہ پوری معیشت کو محنت کشوں کے اشتراکی کنٹرول میں دے کر نظام زر کا خاتمہ کرے گا۔