غزل کے نوجوان اور خوبصورت شاعر علی زریون نے میسج کیا اور اگلے روز کالم میں شائع ہونے والی غزل کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے تیسرے شعر کے پہلے مصرعے میں جو لفظ ''جگہ‘‘ آپ نے باندھا ہے‘ اس کے گاف پر زبر ہونا چاہیے تھی۔ کیا آپ نے صحیح کیا ہے؟ وہ مصرع اس طرح تھا:
میں اپنی جگہ پہ جم کر جو بیٹھنے کا نہیں
اعتراض بالکل درست ہے‘ جلدی میں ایسا کر گیا ورنہ مصرع یوں بھی ہو سکتا تھا:
میں جم کر ایک جگہ پر جو بیٹھنے کا نہیں
اس کے لیے میں علی زریون کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ میں اسی طرح سیکھتا ہوں اور یہی میرے سیکھنے کی عُمر بھی ہے۔ اس کے دو نہایت اعلیٰ شعر دیکھیے جو میں آدھی دُنیا کو سُنا چکا ہوں ؎
میں پتھر میں بڑے آرام سے تھا
تری ٹھوکر سے باہر آ گیا ہوں
مجھے للکارنے والے کہاں ہیں
میں اپنے گھر سے باہر آ گیا ہوں
اُستاد ریاض مجید کا یہ شہر ویسے بھی ایک سکول آف تھاٹ کی حیثیت رکھتا ہے‘ جس میں انجم سلیمی‘ اشرف یوسفی‘ مقصود وفاء‘ ثناء اللہ ظہیر جیسے شاعروں نے رونق لگا رکھی ہے جبکہ نظم کے نہایت عمدہ شاعر وحید احمد کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ اور پھر طاہرہ اقبال جیسی فکشن رائٹر! کہا کرتی ہیں کہ اکثر لوگ مجھے آپ کی بہن سمجھتے ہیں۔
اس سے یاد آیا کہ ہمارے دوست‘ پنجابی کے بے پناہ شاعر اور صاحبِ طرز کالم نگار منو بھائی سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کی بیگم بھی آپ کو منو بھائی کہتی ہیں؟ تو موصوف نے جواب دیا کہ کہتی ہی نہیں‘ سمجھتی بھی ہیں! چنانچہ لوگ اگر آپ کو میری بہن سمجھتے ہیں تو کچھ غلط نہیں کرتے۔ ادھر موصوفہ نے اردو افسانے کی حالیہ تاریخ پر ایک مبسوط کتاب لکھ ماری ہے جو صحیح معنوں میں پڑھنے کے لائق ہے۔ واضح رہے کہ فیصل آباد میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ اور بھی عمدہ شاعر موجود ہیں‘ مثلاً ''زرنگار‘‘ کے ایڈیٹر اور ہمارے دوست ضیا حسین ضیا جو پہلے اپنے نام کے ساتھ علامہ کا لاحقہ بھی لگایا کرتے تھے جس پر میں نے ان سے کہا کہ علامہ وہ ہوتا ہے جسے لوگ علامہ کہیں‘ آپ خود ہی علامہ بن بیٹھے ہیں؟ اس کے بعد موصوف نے نہایت مہربانی کرتے ہوئے اپنے نام سے یہ لاحقہ الگ کیا اور صرف ضیا حسین ضیا رہ گئے۔ حالانکہ یہ نام اب بھی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہے‘ جیسے کہ فیض احمد فیض‘ اس کی بجائے ضیا حسین یا حسین ضیا زیادہ سمارٹ لگتا جیسے کہ حسین مجروح۔ اسی طرح ہمارے مرحوم دوست شہزاد احمد بھی پہلے پہل شہزاد احمد شہزاد ہی کہلاتے تھے اور ان کی پہلی کتاب بھی اسی نام سے شائع ہوئی تھی۔ ہمارے ایک اور دوست اور جدید شاعر افضل گوہر پہلے
رائو افضل گوہر کہلاتے تھے اور ان کے دو تین مجموعہ ہائے کلام بھی اسی نام سے شائع ہو چکے تھے‘ جس پر میں نے انہیں ٹوکا کہ رائو تو آپ ویسے بھی ہیں‘ نام کے ساتھ رائو لکھنے کی کیا ضرورت ہے اور یہ تو ایسے ہی ہے جیسے میں اپنے آپ کو میاں ظفر اقبال لکھنا شروع کر دوں۔ خدا کا شکر ہے کہ اب وہ افضل گوہر ہی رہ گئے ہیں‘ جو ان کے لیے کافی بلکہ کافی سے زیادہ ہے‘ بلکہ اصل بات تو بقول شخصے یہ ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ گلاب کے پھول کو آپ جو نام بھی دیں وہ گلاب کا پھول ہی رہے گا اور اسی طرح گوبھی کا پھول بھی۔
دھند کی وجہ سے دھوپ کوئی پونے گیارہ بجے نکلی ہے۔ شاید اسی خوشی میں ''ڈفّی‘‘ نے ایک زوردار انگرائی لی ہے۔ میرا اور اس کا ناشتے کا وقت ایک ہی‘ یعنی نو بجے ہے جو ہم دونوں کر چکے ہیں۔ یہ بے مثال تحفہ ہمیں بابر نصراللہ اور محمد نصراللہ آف ڈسکہ نے دیا تھا جو ہمارے یار جانی منور نصراللہ خاں مرحوم کے نورِ نظر ہیں۔ اس وقت اس کی عمر چند ہفتے ہی تھی‘ اب تو یہ پورا ڈشکرا ہے۔ مشہور امریکی مزاح نگار لکھتے ہیں کہ ہم اتنے غریب ہوا کرتے تھے کہ کُتا نہیں رکھ سکتے تھے؛ چنانچہ رات کو باہر ذرا آہٹ ہوتی تو ہم باری باری کتوں کی طرح بھونکتے تھے تاکہ چور اگر ہو تو یہی سمجھے کہ گھر کے اندر ایک خونخوار کُتا موجود ہے۔ لیکن ''ڈفی‘‘ کا مقصد تو چوکیداری بھی نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے گارڈز موجود ہیں؛ تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ اکیلا ہے اور اس کے لیے کسی مادہ کا انتظام نہیں‘ یعنی بالکل چھڑا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا‘ اسی طرح جس کتے کو کتیا میسر نہیں‘ اس کا پیدا ہونا بھی مشکوک ہی ہے۔ اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ اسے خصّی کرا دیا جائے تاکہ یہ اِدھر اُدھر کتے خصّی کرتا پھرے‘ کیونکہ کتیا کا اہتمام اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ گھر میں کتوں کا گند بہت پڑ جائے گا جبکہ اس نسل کی کتیا تلاش کرنا بھی ایک مسئلہ ہو گا۔
ادھر صبح کی واک دھند میں بھی جاری ہے‘ حدِ نگاہ صفر ہونے کے باوجود‘ کیونکہ یہ کوئی موٹر وے نہیں ہے۔ بیٹھکوں کی تعداد بڑھا کر 30 کر دی ہے جبکہ سیر کے دوران وقفوں کی تعداد کم کر دی ہے۔ رفعت ناہید نے ملتان سے اگلے روز جو (آج کا) مطلع چھپا تھا اس کی تعریف بھیجی ہے۔ شاید اسی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے کہ دو تازہ
غزلیں بھی نازل ہو گئی ہیں۔ پہلی غزل کی شرمندگی ذرا دور ہولے تو پھر عرض کروں گا۔ پچھلے دنوں امریکنوں کی ایک تحقیق پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا جس میں اس بحث کے بعد کہ آدمی کی اوسط عمر کیا ہونی چاہیے‘ یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ 75 سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس کے بعد آدمی زندگی کی اکثر نعمتوں سے محروم ہو کر بعض معاملات میں دوسروں کا محتاج اور مرہون منت ہو کر رہ جاتا ہے اور زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں رہ جاتی‘ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس مقصد کو حاصل کیسے کیا جائے کیونکہ یہ تو صرف اللہ میاں کے اختیار میں ہے یا یہ کہ آدمی اس عمر کو پہنچنے کے بعد خود کشی کر لے یا اسے بُراق کر دیا جائے؟ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جان تو سب کو پیاری ہوتی ہے خواہ وہ جتنی بھی نحیف و نزار اور برائے نام ہی کیوں نہ ہو البتہ اس سے ایک سہولت ضرور میسر آ سکتی ہے کہ آپ کو اپنی موت کا پتا ہو اور آخری دن سے پہلے آپ سارے ضروری کام نمٹا کر موت کے انتظار میں فارغ ہو کر بیٹھ جائیں‘ یعنی ع
اب آ بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
نوٹ: گزشتہ روز کے کالم میں کتاب ''ایک سیاسی کارکن کی یادداشتیں‘‘ کے مصنف کا نام رانا محمد اظہر لکھنا بھول گیا تھا‘ معذرت۔
آج کا مطلع
مسافرت کو بہانہ اگر بنا لیتا
وہ میری آنکھوں میں اِک رہگزر بنا لیتا