تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-12-2015

ابو قاسم کا جنازہ اور پنڈت کاری

اس کا نام مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر میں عزت و احترام سے لیا جاتا تھا۔ اس کو ہر بلا سے محفوظ رکھنے کی صبح شام دعائیں مانگی جا تی تھیں۔ یہ جانے بغیر کہ وہ کون ہے ؟کہاں سے آیا ہے؟ وہ کشمیر کی ہرماں ، بہن اور بیٹی کا مسیحا تھا جو برفانی اور سرد راتوں کو کسی غار سے نکلتا اور بھارتی فوج کے شکنجوں میں جکڑی کسی معصوم بیٹی کو اس کے چنگل سے نجات دلا دیتا۔ آج اگر وہ یہاں ہے تو کل کسی دوسری جگہ سے اس کے جذبہ جہاد کی خبر آ جاتی۔ ابو قاسم ہر کشمیری نو جوان کا آئیڈیل بن چکا تھا کسی کی نظر میں وہ محمد بن قاسم تھا تو کسی کے لیے طارق بن زیا د، کوئی اسے صلاح الدین ایوبی کہتا تو کوئی خالد بن ولید اور بہت سے اسے کیپٹن کرنل شیر خان اور لالک جان کی روح سمجھتے تھے جو کارگل سے اتر کر ان کی مدد کو پہنچتی تھی۔ وہ ہر کشمیری کیلئے نجات دہندہ تھا۔ بھارت کی سات لاکھ فوج اور کشمیر میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی سکیورٹی ایجنسیاں اور مخبر اس کی بو سونگتے پھرتے تھے۔ بالآخر 30 اکتوبر 2015 ء کی شام خبر آتی ہے کہ ابو قاسم ضلع کولگام میں بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپ میں شہید کر دیا گیا ہے۔ خبر جنگل کی آگ کی طرح وادی اور بھارت کے ایوانوں میں پھیل گئی۔ پوری وادیٔ کشمیر ماتم کناں تھی۔ ابو قاسم کے نہ تو کشمیر میں لواحقین تھے اور نہ ہی کوئی خونی رشتہ دار‘ لیکن اس کا سفر آخرت ایمان افروز تھا جس کی ہر صاحب ایمان خواہش کرتا ہے۔ اس کے سفر آخرت کے منا ظر دنیا بھر کیلئے بھی حیران کن تھے۔ کشمیر کے تین اضلاع نے بھارتی فوج سے ابو قاسم کی میت کا مطا لبہ کیا۔ لاتعداد خاندان اس کے وارث بن کر سامنے آنے لگے۔ بزرگ خواتین اس کی میت پر مٹھائیاں اور پھول نچھاور کر رہی تھیں ۔ شہید ابو قاسم کے خون آلود چہرے کو دودھ سے دھویا گیا۔ ہزاروں کشمیری مائوں نے جانا کہ ان کے جگر کا ٹکڑا کٹ کر سامنے کفن میں لپٹا پڑا ہے۔ بیٹیاں اس طرح بین کر رہی تھیں جیسے ان کا باپ اور واحد بھائی کا سہارا چھن گیا ہے۔ ابو قاسم کا سفر آخرت ایسا تھا کہ دور دور تک تل دھرنے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔ جنازہ کیا تھا انسانی سروں کا نہ ختم ہونے والا‘ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔کیا نریندر مودی اس سمندر کے سوتے اپنے حالیہ دورہ مقبوضہ کشمیر میں بہت بڑے مالی پیکیج کا اعلان کر کے خشک کر سکتے ہیں؟ بھارت بھر سے پنڈتوں کے بھیس میںاپنے انتہا پسندوں کو آباد کر کے کم کر سکتے ہیں؟ پُر کشش مالی مراعات، پُر شکوہ نئی عمارتیں اور موٹر وے طرز کی بڑی بڑی شاہراہوں کی تعمیر کے اعلان سے ابو قاسم جیسے شہیدوں کی جلائی گئی آزادی کی اس آگ کو مدہم کر سکتے ہیں؟ابھی نریندر مودی کے پُرکشش مالی پیکیج کی گونج وادی میں سنائی دے ہی رہی تھی کہ نومبر کے آخری ہفتے میں کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ مفتی سعید کے آبائی قصبے بجھاڑہ میں تین کشمیری مجاہد ایک جھڑپ میں شہید ہو گئے تو ان کی نماز جنازہ کے بعد مفتی سعید کے آبائی گھر پر جنازے میں شریک ہزاروں لوگوں نے پاکستانی پرچم لہرا کر بھارت کے اس پروپیگنڈا کو خاک میں ملا دیا کہ مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے انتخابات ہی اصل میں رائے شماری ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے نئے منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔کل کے کشمیر ی براہمنوں کی، جنہیں آج کشمیر ی پنڈتوں کے نام سے جانا اور پکارا جاتا ہے ،مقبوضہ جموں و کشمیر میں نئے سرے سے آباد کاری کیلئے نریند ر مودی کی حکومت ایک بہت بڑے شیطانی پلان پر عمل کرنے جا رہی ہے،جس کے تحت آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ساتھ اپنی دہشت گرد فورس کو بھی مقبوضہ وادی میں بسانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
یہ منصوبہ کس قدر شیطانی ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس پلان کے تحت بسائے جانے والوں کی تعداد اُن کشمیری پنڈتوں کے خاندانوں سے کہیں زیادہ ہے جو مقبوضہ وادی چھوڑ گئے تھے۔ پلان کے تحت پہلے مرحلے میں ساٹھ ہزار کے قریب کشمیر ی پنڈتوں کو ان کے خاندانوں سمیت مقبوضہ وادی میں واپس لا کر آباد کیا جائے گا جس کیلئے وادی میں چار نئے ٹائون آباد کئے جارہے ہیں۔ ان نئے ٹائونز میں سے دو سرینگر اور دو اننت ناگ‘ اسلام آباد میں بسائے جا رہے ہیں۔ مودی سرکار کی وزارت داخلہ کی جانب سے آخری مر حلے میں جو تبدیلی کی گئی ہے وہ بہت سے لوگوں کیلئے حیران کن ہے اور یہیں سے ایک عام آدمی بھی انگلیاں اٹھانے لگا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کی آباد کاری کیلئے تعمیر کیے جانے والے یہ نئے شہر آبادی سے بالکل علیحدہ اور الگ تھلگ کیوں رکھے جا رہے ہیں‘ جہاں ایک ٹائون میں 2500 ''کشمیری پنڈتوں‘‘ کے خاندانوں کو آباد کیا جائے گا۔ حریت کانفرنس اور دوسری کشمیری تنظیموں کا کہنا ہے کہ ہم لوگ بھی وادی میں نسلوں سے رہ رہے ہیں، ایک ایک کشمیری پنڈت کو ان کے نام اور خاندان سے جانتے ہیں لیکن اب جو لوگ
یہاں بسانے کیلئے تیار کئے جا رہے ہیں‘اُنہیں یا اُن کے خاندان کو کوئی نہیں جانتا۔ ایسا صرف ایک وادی میں ہو رہا ہے تو پورے مقبوضہ علاقے میں بھی اسی طرح کے گل کھلائے جا رہے ہوں گے ؟کیا مقبوضہ کشمیر کے لوگ ایسا کرنے دیں گے؟کیا وہ اپنی آنکھوں سے خود کو اقلیت میں بدلتا دیکھ کر چپ رہ سکیں گے؟
ان کشمیری پنڈتوں کے وادی اور جموں چھوڑنے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ وہ کشمیری مجاہدین کے حملوں سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے یہاں سے نقل مکانی کر گئے تھے لیکن اگر حقائق سامنے رکھیں تو یہ سب بھارتی فوج کے کہنے پر کیا گیا کیونکہ بھارتی فوج جانتی تھی کہ اس نے وادی کے کشمیری مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر نا ہے‘ کشمیریوںکی جدوجہد کو کچلنے کیلئے گھروں سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اٹھانا ہے ؛ چنانچہ بر بریت اور وحشت کے خلاف ہونے والے ممکنہ رد عمل سے ان براہمنوں کو بچانے کیلئے فوج نے خود انہیں اپنی نگرانی میں ان کو مقررہ مقامات تک پہنچایا۔ بد نیتی اس طرح بھی ثابت ہو رہی ہے کہ ایک جانب بھارت سرکار ان پنڈتوں کیلئے چار نئے شہر بسا رہی ہے تو 1989ء میں چھوڑ کر جانے والوں کے گھر نئے سرے سے تعمیر کرنے کیلئے بھی ہرکشمیری پنڈت کو ساڑھے سات لاکھ روپے دیئے جا رہے ہیں۔تو پھر ان کے علا وہ جو نئے چار شہر تعمیر ہو رہے ہیں ان میں بسانے کیلئے کشمیری پنڈتوں کے نام سے 2 ہزار خاندان کہاں سے اور کن مقاصد کیلئے یہاں لائے جا رہے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved