تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-12-2015

’’یاقوت کے ورق‘‘ علی اکبر ناطق کا مجموعۂ نظم

میں نظم کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں‘ جیسا کہ غزل کے مستقبل کے حوالے سے بعض اوقات ہو جاتا ہوں؛ تاہم غزل زدہ قاری ابھی نظم کی طرف پوری طرح راغب نہیں ہو سکا ہے‘ جو نظم سے بھی اسی طرح کا لُطف حاصل کرنا چاہتا ہے جیسا وہ غزل سے حاصل کر لیتا ہے؛ اگرچہ یہ مقصد پانے کے لیے کوئی نسخۂ کیمیا اب تک دریافت نہیں ہوا ہے‘ لیکن میں اپنے طور پر سمجھتا ہوں کہ اس میں کامیابی کے لیے نظم کا زیادہ سے زیادہ یعنی حتی الامکان مختصر ہونا ضروری ہے۔
اس کی نفسیاتی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ غزل اوری اینٹڈ قاری ایک تو غزل میں ایک آدھ شعر اپنے مطلب کا نکال لیتا ہے‘ جبکہ نظم کے ضمن میں ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ غزل کے دو مصرعوں کی مسافت بیحد مختصر اور سہولت آمیز ہے‘ جبکہ نظم کے کوئی بھی دو مصرعے پڑھ کر اس کا یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا؛ چنانچہ اگر پانچ سات مصرعوں پر مشتمل نظم اس کے سامنے رکھی جائے تو وہ اتنے ہی وقت میں اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے جتنے میں غزل کے ایک شعر سے۔
غزل نے ایک نقصان تو یہ کیا ہے کہ اس نے قاری کو سہل پسند بنا دیا ہے کیونکہ غزل کا ایک شعر یعنی دو مصرعے اس کے ساتھ وہ کچھ کر گزرتے ہیں‘ جو نظم کے دو تین مصرعے نہیں کر سکتے کیونکہ نظم جتنی بھی طویل ہو، قاری کو ساری کی ساری ہی پڑھنا ہوتی ہے جس کا یا تو اس کے پاس وقت نہیں ہوتا یا وہ اسے ایک خواہ مخواہ کی مشقت سمجھتا ہے؛ چنانچہ نظم کی طرف راغب کرنے کے لیے یہ نسخہ آزمایا جا سکتا ہے کہ اسے اختصار کے ذریعے غزل کے قریب تر کر دیا جائے؛ اگرچہ یہ قاری کو فریب ہی دینے والی بات ہو گی؛ تاہم یہ طریقہ کامیاب بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ جس طرح کا مزہ وہ غزل کے شعر سے اُٹھانے کا عادی ہو چکا ہے، اس کے لیے ممکن کر دیا جائے کہ وہ نظم پڑھ کر بھی اسی طرح لطف اندوز ہو سکے۔ یہ کوشش ناکام بھی ہو سکتی لیکن آخر کوشش کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ کیونکہ مقصد تو یہ ہے کہ قاری نظم کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ نسخۂ ترکیبِ استعمال علی اکبر ناطق کی نظموں کے لیے ہی نہیں ہے جن کا مجموعہ ''یاقوت کے ورق‘‘ کے نام سے چھپ کر مارکیٹ میں آ چکا ہے۔ اسے محض ایک اُبھرتے ہوئے ستارے سے تشبیہہ نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ اُبھر کر اپنے اس مقام تک آ چکا ہے، بہت سے شاعر جسے حاصل کرنے کی حسرت دل میں لیے اس دنیا سے پردہ کر جاتے ہیں۔ افسانوں کا ایک مجموعہ چھپ کر اہلِ فن سے داد پا چکا ہے‘ جبکہ ایک چونکا دینے والا ناول ''نولکھی کوٹھی‘‘ کے نام سے حال ہی میں شائع ہوا ہے جس پر میں انہی کالموں میں اپنی رائے کا اظہار کر چکا ہوں۔ یہ سمارٹ سی کتاب ''آج‘‘ کراچی سے شائع ہوئی ہے جس کی قیمت 200 روپے رکھی گئی ہے۔کچھ نظمیں دیکھیے:
ریت کے ٹیلے
میں نے کہا تھا آخر اک دن تھک جائیں گے...ریت کے ٹیلے کھودنے والے کب تک ٹیلے کھودیں گے...ریت کے ٹیلے کھودنے والے تھک جائیں گے...میں نے کہا تھا دھرتی چھیدنے والے آخر رک جائیں گے...تیل کے چشمے 
ڈھونڈنے والے کب تک چشمے ڈھونڈیں گے...کب تک آگ کی مشکیں بھر کر گہرے کنوئوں سے کھینچیں گے...چہروں پر چھڑکائیں گے...دھرتی کودہکائیںگے...آخر اک دن تھک جائیں گے...میں نے کہا تھا بھاری ضربیں تھم جائیں گی...کب تک تیشہ مارنے والے ہاتھ زمیں کوپیٹیں گے...نور کے ذرے توڑیں گے...شعلوں کو لہرائیں گے...کب تک راکھ اڑائیں گے...ہانپ کے اک دن بیٹھ رہیں گے...میں نے کہا تھا دیکھنا آخر مینہ برسے گا...زرد ہوا کو مانجے گا...امبر کو چمکائے گا...سبز فضا لہرائے گی...میں نے کہا تھا شورتھمے گا...زہر بُجھے گا گندھک کا...لیکن میں نے جھوٹ کہا تھا...ریت کے ٹیلے کھودنے والے جنتے رہے ہیں ٹیلے کھودنے والوں کو...دیکھنا اک دن سارے ٹیلے بھڑک اٹھیں گے...گاڑھے دھوئیں کا ابر اٹھے گا...سانس گھٹے گی...اور میں روتے روتے آخر تھک جائوں گا۔
کھڑے پانیوں کے کنارے
جہاز آ گیا ہے... مگر بادبانوں کے دھاگے سلامت نہیں لے کے لوٹا... فلک بوس عرشے کے تختے سلامت نہیں لے کے لوٹا... جہاز آ گیا ہے... کھڑے پانیوں کے کنارے... جمی ریت پر 
آ کے ٹھہرا ہوا ہے... کئی دن ہوئے ہیں کنارے کی لہروں میں... ہچکولے کھاتے ہوئے بے بسی سے... کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف میں... مگر اس کے زینوں سے کوئی مسافر نہ کپتان اُترا... کھڑے پانیوں میں جو لنگر گرائے... جہاز آ گیا ہے فقط ایک سناٹا لے کر... پھٹے بادبانوں کے رسوں سے کس کر جسے باندھ رکھا کسی نے... ہوا، کشتیاں ہیں نہ چپو... نہ کمپاس باقی بچے ہیں... جو آ کر سناتے سمندر کی ہم کو کوئی داستاں ہی... نمک خوردہ چھتّے پہ صدیوں کی برفیں... کبھی اُٹھتے دیکھا نہ میں نے دُھواں اس کی فولادی چمنی سے اب تک... مگر دو پرندے دہانے کے اوپر ابھی آ کے بیٹھے ہیں... کچھ دیر تک اپنی چھاتی کے نازک پروں میں... چلائیں گے مِنقار کی قینچیاں... پھر یہ دم بھر میں اُڑ کر کسی اور جانب نکل جائیں گے... اُنہیں اس سے کیا... کہ جہاز آ گیا ہے مگر وہ مسافر جو اُس کو امانت کیے تھے... نہیں لے کے آیا۔
آج کا مطلع
نہیں کہ ملنے ملانے کا سلسلہ رکھنا
کسی بھی سطح پہ کوئی تو رابطہ رکھنا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved