تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     12-12-2015

ڈاکٹر صاحب

سراج الدّولہ کے عہد کا شاعر یاد آتا ہے ؎
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ اُٹھ گیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کا قرض کبھی نہیں اترتا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف ایسے ہی ایک شخص تھے۔ مجھ ناچیز کی زندگی میں وہ پینگ کے ''ہلارے‘‘ کی طرح آئے اور چلے گئے؎
روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
میں گواہی دیتا ہوں کہ رئوف کلاسرا نے ان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، وہ مکمل طور پر درست ہے۔ ہر لکھنے والے کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے، جو اس کے طرزِ احساس اور شخصیت سے پھوٹتا ہے۔ کلاسرا یوں بھی ڈاکٹر صاحب کے حاضر باش تھے۔ ناچیز ان سے تین چار بار ہی ملا، دو تین یادگار واقعات ہیں مگر ایک واقعہ نے حیرت زدہ کر دیا۔ تب خود سے میں نے کہا: بس! 
ایک معتبر گواہ نے بتایا کہ پروفیسر احمد رفیق اختر ایک دن اپنے گھر سے نکلے اور پچاس کلومیٹر دور ڈاکٹر صاحب کے ہاںتشریف لے گئے۔ جیسا کہ کلاسرا نے واضح کیا ہے، وہ ان نایاب سرکاری افسروں میں سے ایک تھے، جو کسی وقت بھی عتاب شاہی کا شکار ہو جاتے۔ ایسے ہی ایک افسر میرے عزیز دوست فاروق گیلانی تھے اور ایک ڈاکٹر شعیب سڈل ۔ بادشاہوں کا مزاج فارسی کے ایک شاعر نے بیان کیا ہے: کبھی دشنام پہ انعام، کبھی خدمت پہ عتاب۔ نازک مزاجِ شاہاں تابِ سخن نہ دارد۔ ان سے واسطہ رکھنا ہو تو ان کا نخرہ جھیلنا پڑتا ہے ؎
جو ستم ہے بے سبب ہے، جو کرم ہے بے طلب ہے
مجھے یہ بھی ہے گوارا، مجھے وہ بھی ہے گوارا
درویش افسر کے گھر پہنچے ان کی خیریت پوچھی‘ تسلی دی‘ ایک کاغذ پہ دعا لکھی۔ ظاہر ہے کہ ہمیشہ کی طرح کچھ اسمائے ربانی اور رحمتہ اللعالمینؐ کی تعلیم کردہ دعائوں میں سے، ایک یا ایک سے زیادہ مناجات۔ اللہ اللہ خیر سلاّ۔
حیرت سے میں نے سوچا: اتنی مروت تو فقیر بادشاہوں کے ساتھ نہیں برتتے۔ سچی بات یہ ہے کہ بادشاہوں کے ساتھ بالکل نہیں برتتے۔ یارب ڈاکٹر صاحب میں کون سا وصف ہے کہ ان کے دروازے پر گئے۔
تہہ خانے کے تین چار کمروں پر مشتمل ایک سادہ سے مکان میں، ڈاکٹر صاحب سے پہلی ہی ملاقات میں بات سمجھ میں آ گئی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ تین چار احباب‘ بے تکلف ماحول۔ چہک صرف کلاسرا رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کبھی کبھار سر اٹھا کر دیکھتے اور مسکراتے۔ کبھی ایک آدھ جملہ بھی چست کر دیتے مگر شائستہ، مگر بامعنی۔
کھانے کا وقت آیا تو ماحضر میز پر چن دیا گیا۔ لذیذ کھانا مگر تکلّف کا نام و نشان تک نہ تھا۔ کھانا یہی ہوتا ہے، باقی ظہرانے اور عشائیے ہوتے ہیں، تصنّع یعنی عذابِ جان !
ایک چیز انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی اور بہت ہی ممتاز۔ ایک آدھ بار کا ملنے والا بھی اکثر عمر بھر یاد رکھتا۔ کسی بھی متنازعہ مسئلے ، کسی بھی عصری تنازعے پر دو ٹوک اور واضح الفاظ میں وہ رائے کا اظہار کرتے۔ دوسروں کی سنتے اور توجہ سے سنتے۔ اپنے مؤقف پر مگر خال ہی سمجھوتہ کرتے۔
وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق طالب علم تھے۔ ایک معزز خاندان کے فرد اور اس ثقافت میں گندھے ہوئے، جو قیام پاکستان کے ہنگام پیدا ہونے والی رومان پسند نسل کی شناخت تھی، اس کا طرّہ ٔ امتیاز بھی، دیانت، شرافت، وضع داری اور سب سے بڑھ کر حصولِ علم کی بے پایاں آرزو۔
دو چیزوں نے ان کی شخصیت کو چمکا دیا تھا۔ ایک طلسمی ہالہ ان کے گرد قائم تھا، ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے، تا آنکہ وہ اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ سول سروس کے طور اطوار سے وہ خوب واقف تھے۔1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ وقار احمد کا حوالہ دے کر انہوں نے کہا تھا۔ ''Waqar living and God willing` I`ll sort out the Bureaucracy ‘‘ وقار زندہ رہے اور اللہ کی مرضی ہو تو افسر شاہی کو میں نمٹا دوں گا۔ اس سے پہلے جنرل آغا محمد یحییٰ خان نمٹا چکے تھے۔ غالباً 700 افسر انہوں نے برطرف کیے تھے۔ ملک کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے شاید گیارہ سو۔ ڈاکٹر صاحب اس سے پہلے کے افسر تھے۔ آغا محمد یحییٰ خان اور بھٹو کے عہد سے افسر شاہی کے جس زوال کا آغاز ہوا، وہ اب تک جاری ہے۔ تاریخی تجربہ یہ ہے کہ افسر شاہی کو مؤثر اور نتیجہ خیز رکھنے کا صرف ایک طریق ہے۔ قانون کے دائرے میں مکمل آزادیِٔ عمل، پوری آزادی اور مکمّل ڈسپلن۔
ٹالسٹائی نے یہ کہا تھا: پھولوں سے ہار نہیں بنتا، اس کے لیے دھاگہ درکار ہوتا ہے۔ قانون ایک معاشرے کا دھاگا ہوتا ہے۔ اگر کوئی سمجھ سکے تو اس کا لنگر اور پرچم بھی۔ اگر سلیمان ذی شان کے عہد میں ترکوں سے سرپرستی کی استدعا کرنے والی انگریزی قوم، آدھی دنیا پر حکومت کر سکی تو اس لیے کہ انہوں نے ایسی ہی افسر شاہی تشکیل دی اورصدیوں تک استوار بھی رکھّی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آغاز اس کا ترکوں نے کیا تھا مگر وہ اپنا سبق بھول گئے۔ اور جو بھول جائے، قدرت اسے فراموش کر دیتی ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ کوئی اس کا لاڈلا نہیں۔ اس کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: تم اس کے قانون کو کبھی بدلتا نہ پائو گے۔
ملک کے بہترین طالب علم افسر شاہی سے وابستہ ہونے کی آرزو کیوں پالا کرتے؟ اس لیے نہیں کہ معاوضے گراں قدر تھے۔ دولت تو تاجروں کے پاس ہوتی ہے۔ اس لیے کہ یہ ایک معزّز پیشہ تھا۔ بھس کے سوا اگر کچھ باقی بچا ہے تو انشاء اللہ شریف خاندان اسے بھی گھن کے ساتھ پیس ڈالے گا۔ اسلام آباد اور لاہور سیکرٹریٹ میں یہ تماشا عام ہے کہ شہ پا کر دس سال جونیئر افسر اپنے سینئر کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے۔ افسر شاہی پر کیا موقوف بازاری ثقافت میں ہر ادارے کا انجام یہی ہوتا ہے۔ سندھ میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی افسر بدعنوانی میں مددگار نہیں تو وہ اچھوت ہے۔ بلوچستان میں افسر شاہی سہم کا شکار ہے۔ سالِ گزشتہ وفاقی حکومت کے عطا کردہ 35 ارب روپے واپس کر دیئے گئے، جس سے کم از کم ساڑھے تین لاکھ ملازمتیں پیدا کی جا سکتی تھیں۔ بلوچستان کے آدھے بے روزگار آسودہ ہو سکتے۔
ڈاکٹر صاحب اس خزاں رسیدہ معاشرے کے ان زندہ لوگوں میں سے ایک تھے، جو بہار کا خواب دیکھتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج بھی خواب تو دیکھتا ہے، زرداریوں اور شریفوں کی موجودگی میں! 
ایک کے بعد دوسرا حکمران۔ ایک ایک ادارہ انہوں نے برباد کیا۔ ایک پاکستانی فوج بچ رہی ہے۔ اس کے باوجود بچ رہی کہ یکے بعد دیگرے چار سپہ سالاروں نے اسے برباد کرنے کی تدابیر کیں۔ جنرل راحیل شریف کو اللہ محفوظ رکھے۔ حکمرانوں کا بس چلے تو اسے پنجاب پولیس بنا دیں۔ ڈرتے ڈرتے منصوبہ بندی میں وہ لگے رہتے ہیں مگر یہ کہانی پھر کبھی۔
ڈاکٹر ظفر الطاف ان لوگوں میں سے ایک تھے، جن کے بل پر ملک چلائے جاتے ہیں۔ صداقت شعار، حیرت انگیز قوّت متخیّلہ، طالب علمانہ للک۔ سحر سے شام تک سیکھنے میں لگے رہتے۔ غیر معمولی یادداشت اور سب سے بڑھ کر توکّل کا توشہ کہ غنی کرتا ہے ؎ 
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں 
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
عارف سے یہ سوال میں نے کبھی نہ کیا کہ وہ ڈاکٹر ظفر الطاف کے ہاں کیوں تشریف لے گئے۔ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اسلام آباد چھوٹا سا شہر ہے اور سب لوگ، سب لوگوں کو جانتے ہیں، اگر وہ جان لینے کے آرزو مند ہوں۔
ڈاکٹر صاحب کو اللہ نے درد کی دولت عطا کی تھی۔ یہی ان کا وصف تھا اور یہی ان کی کمزوری۔ ایسے اوصاف کے باوجود کہ جوانی ہی میں اسا طیری کردار ہو گئے تھے، ان کے اندر کا زندہ دل لاہوری کبھی اس قدرغالب آتا کہ تماشا ہو جاتا۔ اگر یہ کسی دوست یا محتاج کا مسئلہ ہو تو ڈاکٹر صاحب کو قاعدہ قانون پامال کرنے میں کوئی تامّل نہ ہوتا۔ سوٹ اور نکٹائی میں ملبوس، فرفر انگریزی بولنے والا یہ آدمی عہد قدیم کا کوئی شہسوار تھا، جو اپنے زمانے سے بچھڑ گیا تھا، ایک غنی آدمی۔ اس کی یاد آتی ہے تو بے ساختہ ایک دعا دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے۔ دلاوروں کے دلاور اور بچوں کے سے معصوم ع
ایک عالی دماغ تھا، نہ رہا
سراج الدّولہ کے عہد کا شاعر یاد آتا ہے ؎
غزالاں تم تو واقف ہو‘ کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ اُٹھ گیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved