تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-12-2015

واللہ اعلم بالصواب

تیسرا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد بلدیاتی انتخابات تو ختم ہوئے مگر اس کا جنجال تادیر چلے گا۔ اندرون سندھ اس کی شکل کچھ اور ہو گی، کراچی میں کچھ اور جبکہ پنجاب میں کسی اور ہی طرح کی۔ طبیعت نہیں بھری۔ شنید ہے کہ اس نظام کا مزید تیاپانچہ کیا جا رہا ہے۔ اس مظلوم نظام کے ساتھ اس وقت سے ہی برا سلوک ہو رہا ہے جب یہ بڑی دھوم دھام سے متعارف کروایا گیا تھا۔
جنرل تنویر نقوی نے جو ڈیزائن ترتیب دیا تھا‘ وہ کافی حد تک براہ راست عوامی تائید کے مطابق تھا، یعنی میئر یا ڈسٹرکٹ ناظم وغیرہ کا انتخاب براہ راست تجویز ہوا تھا مگر پہلے ہی دن سے اس نظام کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے اور اس میں ترمیمات کا عمل شروع ہو گیا۔ ایک آدھ تبدیلی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی لیکن ایک دروازہ ہی کھل گیا۔ اچھا بھلا نظام‘ جو تقریباً ساری دنیا میں کسی نہ کسی صورت میں رائج ہے‘ عوامی نمائندگی کے بجائے حکمرانوں کی خواہشوں کا غلام بنتا چلا گیا اور نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ عوام صرف کونسلروں اور چیئرمینوں کے انتخاب تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں‘ جن کی اہمیت صرف میئر اور ضلع ناظم تک کے انتخاب تک ہے، اس کے بعد وہ حقیقی طور پر ٹکے ٹوکری ہو کر رہ جائیں گے۔ باقی رہ جائیں گے ضلعی اور شہری حاکم، لیکن ان کے ہاتھ میں بھی اب شاید کچھ نہیں رہا۔
اب تک براہ راست انتخاب سے منتخب ہونے والے چیئرمینوں کا نتیجہ سامنے آیا ہے، ابھی مخصوص نشستوں کا معاملہ باقی ہے۔ ہر چیز پر قبضے کے شوق میں مبتلا حکمران اس مرحلے پر اپنی مرضی کے بندے منتخب کروائیں گے۔ مجھے تو یہ بھی گمان ہے کہ اخلاقی اصولوں سے عاری، فیصلے کرنے والے شاید ان لوگوں کو بھی دوبارہ ایوان میں لے آئیں جو براہ راست الیکشن میں ہار چکے ہیں۔ حکمران کچھ بھی کر سکتے ہیں، ان سے کچھ بعید نہیں۔
ایک افواہ یہ ہے ان مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے پیاروں کو (اگر وہ براہِ راست منتخب نہیں ہو سکے یا منتخب لوگوں میں سے کوئی بھی پسند کے اس معیار پر پورا نہیں اترتا جو درکار ہے) میئر اور ضلع ناظم وغیرہ بنایا جائے گا۔ ایک اور افواہ یہ ہے کہ ایک آرڈی ننس کے ذریعے دوبارہ تبدیلی کر کے کسی بھی شخص کو ان منتخب چیئرمینوں کی مہربانی سے شہر یا ضلع کا مدارالمہام بنایا جا سکے گا۔ قانون حکمرانوں کے گھر کی لونڈی ہے، لہٰذا وہ اس سے وہی سلوک کرتے رہتے ہیں جو زمانہ قدیم سے لونڈیوں کے ساتھ رائج ہے۔
فی الوقت ہر شہر میں میئر اور ہر ضلع میں ناظم کے امیدواروں کی تعداد آدھ درجن سے لے کر درجن بھر تو عام سی بات ہے۔ ہر جگہ پارٹی امیدواروں کے ساتھ ساتھ لوکل سیاستدانوں نے اپنے اپنے گروپ کو کھڑا کر رکھا تھا۔ خواہ پارٹی ٹکٹ پر، خواہ آزاد امیدوار کی شکل میں۔ اب جس کے پاس چار چیئرمین بھی ہیں، تو وہ میئر کا یا بڑی رعایت کرے تو ڈپٹی میئر کا امیدوار ہے۔ کسی پارٹی کے پاس بشمول ن لیگ کے ووٹ پورے نہیں ہیں لیکن ن لیگ کو ایک سہولت حاصل ہے کہ نوے فیصد سے زائد آزاد ارکان یا تو اس میں شمولیت کا ارادہ رکھتے ہیں یا رسمی دعوت کے منتظر ہیں؛ تاہم یہ بات طے ہے کہ محض اقتدار اور اختیار کے مزے لوٹنے کے شوق میں لاکھوں روپے خرچ کرنے والے یہ عوامی نمائندے اقتدار کی بس پر چڑھنے کے لیے دھکے مارنے سے بھی گریز نہیں کریں گے، خاص طور پر جنوبی پنجاب میں جہاں دیہاتی سیاست میں اقتدار واحد ترجیح ہوتی ہے اور نظریات وغیرہ جیسی فرسودہ اور متروک چیزوں پر کوئی غور نہیں کرتا۔
ملتان میں مزے کی صورت حال ہے۔ کافی سارے برج تو پانچ تاریخ کو ہی الٹ چکے ہیں۔ ممبر صوبائی اسمبلی رائے منصب کا بیٹا اور سابق ٹائون ناظم رائے عارف منصب فارغ ہو چکے ہیں۔ جاوید ہاشمی کا داماد بھی اسی قطار میں ہے۔ نو دولتیے عاشق شجرا کے دونوں بیٹے ہار گئے ہیں۔ سابق ایم این اے مرحوم حاجی بوٹا کا بیٹا اسی صف میں شامل ہے۔ سابق ایم این اے طارق رشید کے امیدوار بھائی پر بھی یہی گزری ہے۔ ایم پی اے شہزاد مقبول بھٹہ کے امیدوار بھی گھر چلے گئے ہیں۔ محمد علی کھوکھر ایم پی اے کا دست راست بھی اسی شمار قطار میں ہے۔ گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ کا بھتیجا اعجاز رجوانہ چند خوش قسمتوں میں سے ایک ہے جو پہلے مرحلے پر کامیاب ہو گئے ہیں۔ شنید ہے کہ اب رفیق رجوانہ بھی اپنے بھتیجے کے لیے نہایت سکون اور تسلی کے ساتھ (جو ان کی عادت ہے) جوڑ توڑ کا آغاز کر چکے ہیں؛ تاہم اس سلسلے میں سب سے مزے میں میرا نہایت پرانا اور عزیز دوست احسان الدین قریشی رہا ہے۔ سادہ طبیعت اور بھولا بھالا نظر آنے والا احسان الدین قریشی‘ جو شہر سے ایم پی اے ہے اور سابق صوبائی وزیر اوقاف ہے، اپنے بیٹے منور احسان قریشی کو بلامقابلہ چیئرمین منتخب کروا چکا ہے اور اب دھوم دھڑکے سے اپنے بیٹے کو میئر ملتان بنوانے کی مہم چلا رہا ہے۔ احسان الدین قریشی الیکشن وغیرہ کے پنگے میں ہی نہیں پڑا۔ اس کے بیٹے کے مقابلے پر سابق صوبائی وزیر اور اندرون شہر کے پرانے سیاستدان سعید قریشی کا بیٹا چیئرمین کا امیدوار تھا۔ احسان الدین قریشی نے اندازہ لگایا کہ مقابلہ زوردار ہے اور اگر معاملہ زور زبردستی پر آ گیا تو فریق ثانی کا 
پلہ بھاری ہے۔ اس نے نہایت سمجھداری سے اپنے بیٹے کے نیچے وائس چیئرمین کے لیے اندرون شہر کے ایک نہایت تگڑے گروپ سے ایک ایسا امیدوار لے لیا‘ جس کی سعید قریشی گروپ سے بڑی پرانی دشمنی تھی۔ یہ گروپ سعید قریشی سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ معاملہ اب ووٹوں کے بجائے زور بازو پر آ گیا تھا اور زور بازو میں اب میرے دوست احسان الدین قریشی کا پلڑا بھاری پڑ رہا تھا۔ اس نے اس معاملے کو پانچ دسمبر تک کھینچنے اور ''صندوقڑیوں‘‘ تک لے جانے کے بجائے پہلے ہی حل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ اس کی سمجھداری اور عقلمندی تھی کہ اس نے معاملے کو گھسیٹنے کے بجائے شروع میں ہی ختم کر دیا۔ کاغذات نامزدگی والے دن حاجی احسان الدین قریشی کے بیٹے کے ساتھ پینل میں نامزد وائس چیئرمین کے گروپ نے‘ جو حاجی سعید قریشی کا پرانا مخالف گروپ تھا‘ نے اسلم سعید قریشی اینڈ کمپنی کو راستے میں گھیر لیا۔ ایسی طبیعت صاف کی کہ موصوف کاغذات ہی جمع نہ کروا سکے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں میرا دوست حاجی احسان الدین قریشی خود صلح جُو اور پُرامن شریف آدمی ہے، وہ خود اس سارے معاملے سے دور رہا اور خدا کے فضل و کرم اور وائس چیئرمین گروپ کے زور بازو سے مسئلہ حل ہو گیا۔ سعید قریشی اینڈ کمپنی اپیلوں اور رٹوں کے چکر میں پڑ گئی۔ اللہ جانے ان اپیلوں اور رٹوں کا کیا بنا ہے اور کیا بنے گا۔ بہرحال اسی دوران میرے عزیز دوست کا بیٹا بلامقابلہ چیئرمین بن گیا ہے۔ میں اس سارے معاملے کے دوران امریکہ تھا مگر قبلہ شاہ جی جو نہایت معتبر راوی ہیں اور پل پل کی خبر رکھتے ہیں مجھے ہر دوسرے دن فون پر امریکہ میں حالات سے آگاہ رکھتے تھے۔ شاہ جی نے مجھے امریکہ فون کر کے منور احسان کے بلامقابلہ چیئرمین بننے کی خوشخبری بھی سنائی اور زور دیا کہ میں واپس آ کر احسان الدین قریشی کو مبارک بھی دوں۔ یہ میری کوتاہی ہے کہ میں اب تک شاہ جی کی فرمائش پر عمل نہیں کر سکا۔ 
یہ سارے لوکل معاملات ہیں اور بقول شاہ جی ان کا دھاندلی سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ یہ الیکشن میکنزم کا حصہ ہیں اور اب جو شخص پیسہ، سمجھداری اور زور بازو کا استعمال نہیں کر سکتا اسے الیکشن لڑنے کا کوئی حق نہیں، اسے کوئی اور مناسب کام کرنا چاہیے۔ میں نے شاہ جی کو قائل کرنے کی کافی کوشش کی مگر سید بادشاہ ہماری کوئی بات سننے پر تیار نہیں۔ 
میرے دیرینہ دوست گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ جنوبی پنجاب کے لیے نیم خود مختار ٹائپ ایک لمبی چوڑی ایکسرسائز کا حصہ تھے اور جنوبی پنجاب کے لیے سب سیکرٹریٹ کے منصوبے کے لیے بنائی جانے والی آخری ہائی پاور کمیٹی کے سربراہ تھے۔ اس کمیٹی کا اور اس کے فیصلوں کا کیا بنا؟ اس بارے میں راوی خاموش ہے کہ راوی کا بنیادی کام ہی یہی ہے کہ عین وقت پر خاموش ہو جائے۔ اس کمیٹی اور اس کی سفارشات کا تو کچھ نہیں بنا؛ البتہ ہمارے دوست رجوانہ صاحب گورنر بن گئے۔ ہمارا خیال تھا کہ گورنر کے پاس کافی وقت ہوتا ہے اور کام وغیرہ تو بالکل نہیں ہوتا مگر اب ہمارا خیال بدل گیا ہے کہ اگر گورنر کے پاس وقت ہوتا تو ملک رفیق رجوانہ اس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد ضرور کرواتے مگر گوناںگوں مصروفیات میں ایسے معمولی کام کیسے یاد رہ سکتے ہیں؟ گورنر صاحب سب سیکرٹریٹ تو نہیں بنوا سکے شاید بھتیجے کو میئر بنوا لیں؛ تاہم مجھے اس سلسلے میں بھی شک ہے کہ میاں صاحبان ایسے فیصلے اپنی صوابدید سے کرتے ہیں۔ یہ قصہ اگلے کالم میں۔ فی الوقت میرا اندازہ ہے کہ ملتان کی حد تک شاید اوپر سے کوئی سکائی لیب آن گرے۔ اس کے لیے ملتان کے ایک صنعتکار کا نام لیا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved