کراچی آپریشن کے حوالے سے رینجرز کو اختیارات کی بحالی کی مدت5دسمبر کو ختم ہو گئی تھی اور کافی لیت و لعل کے بعد اب سندھ حکومت نے کہا ہے کہ یہ مسئلہ اسمبلی میں پیش ہو گا اور اس کی منظوری کے بعد یہ بحالی ہو سکے گی۔ اسی دوران موصوف پرسے دہشت گردی کا مقدمہ بھی ختم کر دیا گیا ہے‘ نیز پولیس کو ان کے خلاف دہشت گردوں کا اپنے ہسپتال میں علاج کروانے کا الزام بھی دستیاب نہیں ہوا‘ حتیٰ کہ اب مسلم لیگ(ن) کے رہنما جناب دانیال عزیز نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ عاصم حسین کے خلاف مقدمہ بے جان ہے اور اس میں قانونی پیچیدگیاں ہیں؛ چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلے پر وفاقی حکومت اور سندھ حکومت میں کوئی افہام و تفہیم ہو گئی ہے اور اب ان پر صرف کرپشن کا الزام رہ گیا ہے جس کی تحقیقات اب نیب کرے گی‘ جس سے بھی بعض اندازوں کے مطابق ان کی رہائی کسی وقت بھی عمل میں آ سکتی ہے۔ یہ بات ان کالموں میں پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ دونوں بڑی پارٹیوں کی کسی بھی اہم شخصیت کے خلاف کوئی بھی مقدمہ کامیاب نہیں ہونے جا رہا۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے جو اقبالی بیان دیا ہے اور جس میں ایک اطلاع کے مطابق پارٹی کے بڑے لیڈوں کو بھی براہ راست ملوث کیا گیا ہے‘ اس کے پیش نظر بھی سندھ حکومت کے لیے یہ مقدمہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا تھا اور وفاقی حکومت اس دفعہ بھی ان ''مظلوموں‘‘ کی مدد کو پہنچی ہے جبکہ یہ بھی
معلوم ہوا ہے کہ رینجرز اگر کسی پارٹی لیڈر پر ہاتھ ڈالنا چاہیں تو اس کی سندھ حکومت سے پیشگی اجازت حاصل کریں گے۔ آپریشن پر اس صورتحال کا کیا اثر پڑتا ہے اور فوج سمیت رینجرز کے لیے یہ کس حد تک قابل قبول ہو گا‘ یہ بھی چنددنوں کے اندر واضح ہو جائے گا۔ اگرچہ پہلے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے یہ دھمکی دی تھی کہ اگر سندھ حکومت نے اختیارات بحال نہ کیے تو وفاقی حکومت اپنا اختیار استعمال کرے گی لیکن مندرجہ بالا اطلاعات سے لگتا ہے کہ وہ بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں جبکہ یہ مقدمات اگر پیپلز پارٹی کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں تو آپریشن میں کمی یا اس کا خاتمہ سیدھا سیدھا ملکی سلامتی کا مسئلہ ہے! بلدیاتی انتخابات میں بڑی کامیابی اور بھارتی رویّے میں واضح لچک کے بعد نواز حکومت سمجھ رہی ہے کہ اس کے بازو میں طاقت کا ایک نیا ٹیکہ لگ گیا ہے‘ حالانکہ حکمرانوں کو اس بات کی بھی خبر ہونی چاہیے کہ سیاسی مصلحتوں کی بناء پر ملکی سلامتی کو دائو پر نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی اس معاملے میں فوج کی پسپائی کا کوئی امکان نظر آتا ہے جبکہ سول‘ ملٹری تعلقات کے حوالے سے دونوں کے ایک ہی صفحے پر ہونے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے جبکہ اہل نظر و خبر
کے اندازوں کے مطابق سب اچھا نہیں ہے۔ اور جس طرح حکومت کو اطلاع دیے بغیر آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا گیا تھا اور حکومت کواس کے جواب میں صبر ہی کا گھونٹ بھرنا پڑا تھا‘ اسی طرح مُک مکا کی گولی اس کے لیے نگلنا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ یہ حکمتِ عملی جس حد تک بدنام ہو چکی ہے‘ عوام کے نزدیک اُتنی ہی ناقابل قبول بلکہ قابل نفرت بھی ہے۔
باقی رہی نیب ‘ تو اس کے بارے میں کوئی بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہے جس کا آگا شیر کا ہے اور پیچھا گیدڑ سے بھی بدتر ‘اس لیے اس کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ہے اور یہ صرف وہی اختیار استعمال کر سکتی ہے جس کی حکومت اجازت دے جس کے یہ براہِ راست ماتحت ہے‘ چنانچہ اگر ملک میں کرپشن ختم کرنے کا ادارہ خود بے اختیار ہو تو کرپشن کون ختم کرے گا‘ بیشک چیف جسٹس آف پاکستان حتیٰ کہ صدر مملکت تک بار بار اس تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ کرپشن ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ پھر‘ جن افسروں کے ذمّے کرپشن کے خلاف انکوائری اور تحقیقات ہیں‘ ان میں کتنے ایسے ہیں جن پر خود ایسے الزامات نہیں ہیں۔ اور‘ کیا چور چوروں کے ہاتھ کاٹیں گے؟
نواز لیگ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر مقدمات کا معاملہ کراچی میں طول پکڑتا ہے تو اس کے منطقی نتیجے میں کرپشن کے خاتمے کا رخ وفاق اور پنجاب کی طرف بھی ہو کر ہی رہے گا‘ اس لیے نواز لیگ کے لیے بھی پیپلز پارٹی کی طرح یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اور اس سے بچنے کے لیے اسے سیاسی خودکشی بھی بہت حد تک قابلِ قبول ہو گی۔ لیکن اس کا فائدہ اسے اسی صورت ہو سکتا ہے کہ اگر دونوں پارٹیوں کو لوٹا ہوا مال بھی ہضم ہو جائے اور یہ قید و بند سے بھی محفوظ رہیںاور تاریخ اپنے آپ کو اس طرح دہراتی نظر آئے جیسے جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی کرپشن ختم کرنے کا نعرہ لگایا تھا اور پھر برف میں لگ کر بیٹھ گئے تھے۔ اور‘ اب ملتان سے موصول ہونے والی مشتاق احمد شیدا کی یہ نظم جو مجید امجد کی وفات پر ساہیوال کی ایک تعزیتی تقریب میں پڑھی گئی۔
ساہیوال کے لیے ایک بد دُعا
زمانے... او زمانے... تیری سرحد سے نکل کر کھو گیا... اک بے نوا...جس کے ذمے نہ کسی کا قرض تھا... اور نہ تری آلائشوں کے واجبات...جس کی ساری کائنات...اک ''شبِ رفتہ‘‘ کا گر یہ... شام کے خاموش بے آہٹ اندھیرو... جامنوں کے سرنگوں پیڑو‘ سفیدے کے درختو... اب نہ گزرے گا تمہارا منتظر اس راہ سے... وہ روز ادھر سے گزرتا تھا کون دیکھتا تھا... وہ اب اِدھر سے نہ گزرے گا ‘ کون دیکھے گا... شہر کے دانشورو... کیا وہ صلیب اس شہر میں اب بھی گڑی ہے... جس پہ اک عیسیٰ نفس شاعر کے ہاتھ اور پائوں... میں کیلیں جڑی تھیں... اور جسے اس شہر کا مدفن مقدر میں نہ تھا...اے بے مروّت شہر تجھ کو یاد ہو گا... جب لبِ جُو کچھ شجرکاٹے گئے... تو ان کی لاشوں پر وہ رویا تھا... ان کا نوحہ بھی لکھا تھا...لیکن اس کی لاش پر کوئی بھی نوحہ خواں نہ تھا... تیرے طول و عرض میں اس کے لیے مدفن کی کوئی جا نہ تھی... سفاک شہر... شہرِ ساہیوال ... او سفاّ ک شہر... تو قبولہ ہے یہی تیری سزا ہے... تو سدا جلتا رہے... اور ترے چاروں طرف ہر دم دھواں اٹھتا رہے !
آج کا مطلع
بہت قید کاٹی ہے ‘ گھر سے نکل
نکل اے ثمر، اب شجر سے نکل