سُشما سوراج نے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔ لفظ سُشما ہندی میں خوبصورت خاتون کے لیے استعمال ہوتا ہے اور سُورج کی پہلی کرن کو سنسکرت میں سُشما کہا جاتا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آئیں تو تھوڑی سی روشنی ضرور پھیلی اور ان کے نام کا حُسن دو طرفہ معاملات میں داخل ہوتا دکھائی دیا۔ مگر خیر ایسا بھی نہیں تھا کہ اُن کے آنے کی دیر تھی کہ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں سُشما سوراج کی شرکت کو پتا نہیں کیا کیا سمجھ لیا گیا ہے اور کن کن تبدیلیوں کی علامت گردانا جارہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات پر جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ معاملات میں گرم جوشی در آئی ہے یعنی بگڑی ہوئی بات بننے کی طرف مائل ہے اور بس اب خیر سگالی کی گنگا بہنے ہی والی ہے۔
سُشما سوراج نے خاصی اُمید افزاء باتیں کی ہیں مگر اس میں حیرت کی بات کیا ہے۔ سفارتی زبان ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ کہیے کچھ، سنائی دے کچھ اور سمجھا جائے کچھ۔ سفارت کاری نام ہی اس چیز کا ہے کہ فریقِ ثانی کو مطمئن رکھیے یعنی ''سب اچھا ہے‘‘ کا تاثر پھیلاتے رہیے۔ سُشما سوراج نے کہا ہے کہ اب معاملات بہتری کی طرف جائیں گے، جامع مذاکرات بھی ہوں گے۔ یہ مربوط مذاکرات سے آگے کی منزل ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے حوالے سے بھی بات چیت ایجنڈے کا حصہ ہوگی۔
ہمارے اور سرحد پار کے تجزیہ کاروں کو صرف دُم درکار ہوتی ہے۔ جیسے ہی دُم ہاتھ میں آتی ہے، وہ اُسے پکڑ کر لٹک جاتے ہیں اور ہاتھی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں! جب کچھ بھی سُجھائی نہ دے رہا ہو اور کچھ بھی سمجھ میں نہ آرہا ہو تو اِتنا بھی بہت ہے۔ سُشما جی نے بھی سادہ و معصوم چہرے کے ساتھ خاصی اُمید افزاء اور بندہ پرورانہ باتیں کرکے تجزیہ کاروں کو تین چار دن بولتے رہنے کا سامان دے دیا ہے یعنی ایک بڑی سی دُم تھمادی ہے جس کی مدد سے وہ اب ہاتھی کو قابو کرنے میں جُتے ہوئے ہیں، اپنا اپنا منجن بیچ رہے ہیں۔
سُشما جی آئی ہیں تو کچھ ڈھارس ضرور بندھی ہے۔ آنکھوں میں اُمید کی چمک پیدا ہوئی ہے۔ کیا واقعی نریندر مودی کا ''رِدے پریورتن‘‘ ہوگیا ہے یعنی دل بدل گیا ہے؟ کیا بھارتی وزیر اعظم دونوں ممالک کے عوام کو خوش کرنے یا سرپرائز دینے کے مُوڈ میں ہیں؟ یقین نہیں آتا۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ مہا راج راتوں رات کیسے بدل سکتے ہیں؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم جس میں جی رہے ہیں وہ کل جُگ میں چمتکار نہیں ہوا کرتے!
سُشما جی کی اسلام آباد آمد بہت خوش آئند سہی مگر اِس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ٹھیک ہے کہ انسان کو ہر حال میں پرامید رہنا چاہیے مگر پُرامید رہنے اور اپنے آپ کو دھوکا دینے میں تو بہت فرق ہے۔ بھارت جیسا ملک اچانک اپنی پسندیدہ روش ترک کرے ... ایسا سوچنا بھی حماقت کے زُمرے میں آتا ہے۔ ہر معاملے کی خرابی میں پاکستان کا ہاتھ تلاش کرنے کی پختہ عادت رکھنے والا ملک اچانک کیسے بدل سکتا ہے؟
بھارت نے خطے کے تمام سے بہت بڑا واقع ہونے پر بھی کبھی بڑپّن دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنے کسی بھی مفاد پر ذرا سا بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ جہاں دانائی کا تقاضا یہ ہو کہ اپنے مفاد کا قامت گھٹالیا جائے وہاں بھی بھارت کسی اور کے مفاد کا رتّی بھر احترام نہ کرنے پر بضد رہتا ہے۔ آپ کہیں گے ساری دنیا اپنے مفاد کی پوجا کرتی ہے تو مہا راج بھی اپنے مفاد کے پجاری کیوں نہ ہوں؟
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کسی بھی اعتبار سے صرف اِس لیے نہ تھی کہ پاکستان سے تعلقات بہتر ہوں، برف پگھلے اور معاملات درستی کی طرف رواں ہوں۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو پھر کرکٹ جیسے اہم معاملے کو یکسر نظر انداز کرکے دونوں طرف کے کروڑوں افراد کے دل کیوں توڑے جاتے؟ جہاں اِتنی بہت سی خوش آئند باتیں کی جارہی تھیں وہیں کرکٹ کے بارے میں کچھ مثبت کہتے ہوئے کرکٹ پریمیوں کے من کو شانت کرنے کا کچھ پربندھ کردینا تھا!
کون نہیں جانتا کہ مہا راج کو علاقے کا چوہدری بننے کا بہت شوق ہے۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ ہاتھ پاؤں اچھی طرح پھیلے ہوئے ہوں۔ نیپال اور بھوٹان کم و بیش 6 عشروں سے بھارت کے انگوٹھے تلے ہیں۔ مجبور ہوکر نیپال نے اب بھارت سے بیزاری کا اظہار شروع کیا ہے۔ سری لنکا طویل مدت تک بھارت کے زیر اثر رہا۔ سری لنکا میں تامل نسل کے باغیوں کو پروان چڑھاکر نئی دہلی نے کولمبو کا ناک میں دم کیا۔ پھر یہ ہوا کہ اسلام آباد نے کولمبو کی مدد کی تاکہ نئی دہلی کے اثرات کا دائرہ چھوٹا کیا جاسکے۔
جنوبی ایشیا میں سُورج کی سی واضح اور ''چمکتی دمکتی‘‘ رسوائی سے ''ہمکنار‘‘ ہونے کے بعد بھی جب پیٹ بھرا نہ نیت تب بھارتی قیادت نے کچھ ہٹ کے کرنے کا فیصلہ کیا اور افغانستان میں قدم جمانے پر توجہ دینا شروع کیا۔ آزادی کے بعد سے بھارت نے افغانستان سے گرم جوشی پر مبنی تعلقات استوار رکھے ہیں۔ افغانستان کے طول و عرض پر سابق سوویت یونین کا قبضہ ہوجانے کے بعد تو بھارت کی موجیں ہی ہوگئیں! دونوں ممالک تقریباً شکر و شکر ہوگئے۔ مگر مجاہدین نے اچھی خاصی نغمہ بار فلم میں لڑائی کا سین ڈال دیا! مہا راج کے لیے تو مشکلات پیدا ہوگئیں۔ پھر جب نائن الیون کے بعد امریکہ اور یورپ نے مل کر طالبان اور القاعدہ کو ''کھدیڑنا‘‘ شروع کیا تب اُن کی کچھ ڈھارس بندھی اور مایوسی کی دُھند میں لپٹی ہوئی آنکھوں میں آشا کی دیپ جلنے لگے۔
اب پھر مشکل آن پڑی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے افغانستان کو مزید تباہ (!) کرنے کے بعد یعنی ''مشن‘‘ کی تکمیل پر بوریا بستر لپیٹ لیا ہے۔ ایسے میں طالبان کا تیزی سے ابھرنا فطری امر ہے۔ جب تک اتحادی وہاں تھے تب تک بھارت کے لیے شمالی اتحاد کے ساتھ مل کر اپنی مفادات کو محفوظ رکھنا ممکن تھا۔ اب طالبان کا زور بڑھ گیا ہے اور شمالی اتحاد والے پسپا ہوچکے ہیں۔ ایسے میں بھارتی قیادت کا پریشان ہونا فطری امر ہے۔ جس دن طالبان نے اپنا رخ بھارتیوں کی طرف موڑ لیا اُس دن سے تابوت نئی دہلی بھی پہنچنے لگیں گے۔ سنکٹ کی اَشُبھ گھڑی میں مہا راج کو پھر پاکستان یاد آیا ہے۔ معاملہ تجارت کا ہو یا سفارت کا، المناک زمینی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کا راستہ پاکستان سے ہوکر گزرتا ہے! سونے پر سہاگہ یعنی نئی دہلی پر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ چین اور روس بھی پاکستان کی پُشت پناہی پر تُلے ہوئے ہیں۔ تُرکی پہلے ہی تیار بیٹھا ہے۔ اگر یہ چار پانچ ممالک مل گئے تو بھارت کے لیے کیا بچے گا؟ افغانستان میں قدم جمائے رکھنا غرض ہے جس کے لیے پاکستان سے بھی کچھ بات بنانا پڑے گی۔ ؎
اُس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا کِیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سَر بَل کے گیا!
بھارت چاہتا ہے کہ افغانستان میں قدم جمے رہیں۔ اس کے لیے اُسے طالبان کو رام کرنا ہوگا۔ اور طالبان کو رام کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں پاکستان کو رام کرنا لازم ہے۔ اس چیک پوسٹ سے کلیئرنس ملی تو گاڑی آگ بڑھ پائے گی۔ کیا کیجیے، مجبوری کا سَودا ہے۔ قومی مفادات کے لیے بہت کچھ نہ چاہتے ہوئے بھی کرنا پڑتا ہے۔
بدلتے ہوئے علاقائی حالات نئی دہلی کو مزید نرمی اختیار کرنے پر بھی مجبور کرسکتے ہیں۔ جن معاملات پر بھارت ایک لفظ بھی نہیں سُننا چاہتا اُن معاملات پر وہ بات چیت بھی کرسکتا ہے۔ نئی دہلی کے بزرجمہر جو کچھ بھی کر رہے ہیں اچھی طرح سوچ سمجھ کر ہی کر رہے ہیں۔ ایک بار پھر خیر سگالی اور دوستی کا راگ الاپنا پاکستان پر مہربانی ہے نہ ہمدردی کا اظہار۔ مہا راج نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ صرف اپنی غرض کے بندے ہیں۔ مفاد خطرے میں ہو تو وہ تلوے چاٹنے کی نیتی اپناتے ہیں۔ چانکیہ نیتی بھی تو یہی کہتی ہے کہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے یعنی ضرورت کے مطابق ذرا بھی دیر کیے بغیر موقف اور نظریہ تبدیل کرلیا جائے اور مفادات کو جس طریقے سے تحفظ فراہم کرنا ممکن ہو وہی طریقہ حرزِ جاں بنایا جائے!