لاہور کی شاہراہ قائد اعظم (مال روڈ) پر عجائب گھر کے سامنے لاہوریوں کو اپنی جیب سے ایک خوبصورت ہسپتال کا تحفہ دینے والے سر گنگا رام کا مجسمہ نصب تھا۔ 1947ء کی تحریک پاکستان کے سلسلے میں نکلنے والے جلوس میں شہریوں نے اس کے مجسمے پر اینٹیں اور پتھر برسانے شروع کر دیے۔ پتھرائو کے دوران پوری طاقت سے پھینگا گیا ایک پتھر مجسمے سے اچھل کر پتھر مارنے والے کے سر پر جا لگا‘ جس سے اس کے سر سے خون بہنے لگا اور وہ نوجوان بے ہوش کر گر گیا۔ اسے گرتا دیکھ کر ہجوم سے ایک آواز آئی اسے فوراً گنگا رام ہسپتال لے چلو۔
گزشتہ دنوں چنائی (بھارت) میں طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی۔ چاروں طرف پانی ہی پانی دکھائی دے رہا تھا۔ ہزاروں گھر ڈوب گئے۔ اس دوران چنائی میں عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملے‘ جب مسلمانوں نے مساجد کے دروازے سیلاب سے متاثرہ ہندو خاندانوں کے لیے کھول دیے۔ موسلادھار بارش رکنے یا آہستہ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ متاثرین کے گھروں میں تین سے چار فٹ پانی کھڑا تھا۔ مسلمانوں نے مساجد کے علاوہ اپنے گھروں کے دروازے بھی ان کے لیے کھول دیے۔ اس ایثار پر اور ہمدردی پر مرلی گنیشن نامی نوجوان نے تامل اخبار میں بھارت کے ہندوئوں سے اپیل کرتے ہوئے ایک فقرہ لکھا: ''بھگوان کے واسطے اب کے کوئی بابری مسجد مت گرانا ایسا نہ ہو کہ کل کو کسی آفت کے وقت ہمیں پناہ کے لیے کوئی مسجد دستیاب نہ ہو سکے‘‘۔
چنائی کی رہائشی صحافی سنکارا راما بھارتی مسلمانوں کے اس ایثار پر ''Rains of Humanity'' کے عنوان سے لکھتی ہیں: میں نے ایک حیران کن منظر دیکھا، ایک ہندو ماں مسجد کے اندر کھڑی اپنے بچے کو اندر آنے کے لیے آوازیں دے رہی تھی، جب میں نے مسجد کے اندر جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ مسجد کے اندر مسلمانوں نے ان کے لیے کھانے اور پردے لگا کر رہائش کا خود ہی انتظام کر رکھا تھا۔ میں نے جب ان ہندو خواتین سے پوچھا کہ آپ کو ڈر تو نہیں لگ رہا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم سب یہاں محفوظ ہیں، کسی قسم کا ڈر خوف نہیں، ہم دیکھ رہی ہیں کہ مسلمان بھائی ہمارے لیے اپنے رب سے پرارتھنا کرتے ہیں۔ راما بھارتی کہتی ہیں کہ یہ بارش گو طوفانی ہے‘ جو اپنے ساتھ تباہی اور بربادی لیے ہوئے ہے‘ سینکڑوں لوگ اب تک سیلاب کی تند لہروں کی زد میں آ کر یا مکان گرنے سے ہلاک ہو چکے ہیں، لوگوں کی املاک بھی سیلاب کی نذر ہو چکی ہیں، لیکن میں اور دوسرے ہم وطن جو مناظر دیکھ رہے ہیں اس پر مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ چنائی شہر کے لیے یہ بارش کسی رحمت سے کم نہیں!
سنکارا راما بھارتی مزید لکھتی ہیں، افسوس کہ آج تک ہمارا میڈیا ہمیں یہی بتاتا رہا کہ ہمارے ہیرو ارجن، سارتھ کمار اور وجے کانتھ جبکہ ولن یہ داڑھی والے مسلمان نوجوان ہیں، لیکن آج سب کچھ الٹ ہو گیا۔ ہم کسی کی سنی سنائی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی پر کہہ رہے ہیں کہ سیلاب اور بارشوں سے متا ثرہ وہ علا قے جہاں ہماری فوج اور انتظامی ادارے جانے سے کترا رہے ہیں، چنائی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک یہ داڑھیوں والے نوجوان مسلمان ہماری مدد کو پہنچ رہے ہیں۔ یہ مدد دکھاوے کی نہیں بلکہ وہ اپنے ساتھ ہر طرح کا غذائی سامان اور مناسب لباس بھی لیے ہوتے ہیں۔ مجھ سمیت میڈیا کے بہت سے ساتھی جھکی ہوئی نظروں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے حیران ہو رہے ہیں کہ کس طرح یہ نوجوان گہرے سیلابی پانیوں میں سے مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو اپنی کمروں پر لاد لاد کر محفوظ مقامات تک پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ سیلاب میں ڈوبی اور بہتی ہوئی لاشوں کو بھی عزت و احترام سے نکال کر سرکار کے حوالے کر رہے ہیں۔
سنکارا راما مزید لکھتی ہیں: یہ مناظر پوسٹ کرتے وقت میں ایک مسجد کے اندر بیٹھی ہوں‘ جسے اب سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے کیمپ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسلمان نوجوان یہاں موجود ہندو خاندانوں کے لیے ہر قسم کا راشن مہیا کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میرے سمیت کروڑوں بھارتی ان مسلم نوجوانوں کو مذہبی انتہا پسند اور دہشت گرد کہتے نہیں تھکتے، لیکن انہوں نے اپنی مساجد ہندو خاندانوں کو استعمال کر نے کی صرف کھلی چھٹی ہی نہیں دی بلکہ نوکروں کی طرح ان کے آگے پیچھے پھر رہے ہیں۔
Tamil Daily Paper کی ہیڈلائن نے تو پورے بھارت میں دھوم مچا دی‘ جسے متعصب شمالی بھارت کا میڈیا kill کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اخبار لکھتا ہے: ''کریسنٹ انجینئرنگ کالج کا ایک مسلمان انجینئر محمد یونس اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو نکالنے کے لیے کام کر رہا تھا۔ اس نے ایک خاتون کو دیکھا جو ایک نشیبی علاقے میں بڑی مشکل سے گہرے پانی میں ہاتھ پائوں مار رہی تھی‘ اور قریب تھا کہ وہ بے بس ہو کر ڈوب جاتی، وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے تیز سیلابی لہروں میں کود گیا اور بڑی جدوجہد کرکے اس خاتوں تک پہنچ گیا۔ یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ ڈبکیاں کھاتی ہوئی عورت حاملہ تھی اور اُس وقت ایک نئی انسانی روح کو دنیا میں لانے کے لیے درد زہ کے مرحلے سے بھی گزر رہی تھی۔ یونس نے اپنی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے سخت جدوجہد کے بعد اسے باہر نکال کر ایک ہسپتال پہنچا دیا جہاں اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس ہندو خاتون کا نام چترا اور اس کے خاوندکا نام موہن ہے، دونوں نے اپنے بیٹے کا نام ''یونس‘‘ رکھ دیا ہے۔
آر ایس ایس، بھارتیہ جنتا پارٹی، نریندر مودی اور کانگریسی لیڈر نعرے لگاتے ہیں کہ جو گائے کا گوشت کھانے والا ہے‘ وہ بھارت سے دفع ہو کر پاکستان چلا جائے، لیکن نومبر کے آخر میں
جب چنائی میں سیلاب اور طوفانی بارشوں نے تباہی مچائی تو مساجد سے ایک ہی اعلان سننے کو مل رہا تھا: ''بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہ لوگ مساجد میں آ کر پناہ لیں، جلدی کریں‘‘۔ آسمان کی آنکھ نے کچھ ایسے مناظر بھی دیکھے کہ وہ لوگ جو اپنے گھروں کی دوسری منزلوں پر پناہ لیے ہوئے تھے انہیں طوفانی بارش میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ان کے گھروں اور گلیوں میں دور دور تک تیز لہریں مارتا ہوا پانی نظر آ رہا تھا۔ سینکڑوں گھرانے مدد کے منتظر تھے۔ چار دنوں سے موبائل سروس بند ہونے کے باعث سرکاری مشینری بھی ان کی مدد کو نہیں پہنچ رہی تھی۔ ایسے میں وہ حیرت سے ایسے لوگوں کو اپنے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے دیکھے رہے تھے جنہیں وہ جانتے تک نہیں تھے۔ انہوں نے اس سے پہلے کبھی ان داڑھی والوں کو نہیں دیکھا تھا جو اپنے ساتھ غذائی سامان لیے ہوئے گھر گھر تقسیم کر رہے تھے۔ وہ یہ کام کسی مذہب و فرقے کی بنیاد پر نہیں یا کسی خاندانی کمیونٹی کی بنیاد پر بھی نہیں بلکہ خالص انسانی بنیاد انجام دے رہے تھے۔ ان کا یہ اخلاص، یہ قربانی ایک ہندوستانی کے لیے، ایک انسان کے لیے، ایک ماں بہن اور معصوم بچے کے لیے تھی‘ جس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ چنائی کا سیلاب تو کب کا اتر چکا۔ زندگی معمول پر آنے لگی۔ لوگ اپنے گھروں کو واپس جاتے ہوئے پیش آنے والی تکالیف بھول رہے ہیں، لیکن ایک بات انہیں کبھی نہیں بھولے گی کہ ''مساجد پناہ کے لیے ہوتی ہیں آگ لگانے کے لیے نہیں‘‘۔