تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     13-12-2015

مٹی نہ پھرول فریدا۔۔۔۔یار گواچے نئیں لبھدے۔۔۔۔۔ (4

پنڈی عدالت کے جج نے شاہین صہبائی کے بھتیجے کی ضمانت فریحہ الطاف کے ضامن بننے پر دے دی۔ ہم سے پہلے سیکرٹ ایجنسیوں کے اہلکار عدالت سے باہر نکلے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف، فریحہ الطاف اور میں نکلنے لگے تو جج کے ریڈر نے کہا پانچ سو روپے نکالیں۔ میں اور ڈاکٹر ظفر الطاف نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ میں نے کہا رہنے دیتے ہیں،کیا یہ اچھا لگے گا ایک فیڈرل سیکرٹری اور ایک صحافی عدالتوں میں اس طرح پیسے دیتے پھریں؟ بولے درست کہتے ہو، ہم بغیر پیسوں کے آرڈر تو لے لیں گے لیکن چند دن لگ جائیں گے اور بے چارہ معصوم بچہ جیل میں بیٹھا رہ جائے گا۔ ہم نے سمجھا پانچ سو میں کام ہوگیا ۔ ریڈر نے سپاہی کو آواز دی اور کہا اسے سو روپیہ دو۔ ہم نے دے دیا۔ ریڈر سپاہی سے بولا پچاس روپے مجھے دوکیونکہ میری وجہ سے تمہیں سو روپیہ ملاہے۔ جس اہلکار نے آرڈر ٹائپ کیا اس نے دو سو روپے لیے۔ پانچ سو روپے رجسٹرکرنے والے نے لیے اور آخر میں جس نے روبکار لے کر جانی تھی تین سو روپے اس نے لیے۔
میں اور ڈاکٹر ظفر الطاف ایک دوسرے سے آنکھیں چراتے عدالت سے باہر نکلے۔ فریحہ الطاف قہقے لگا رہی تھی کہ دیکھو ابو اور رئوف انکل کیا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا :یارکبھی میں اسی پنڈی کی عدالت میں جوڈیشل مجسٹریٹ تھا، آج اسی میں یہ سلوک ہوا ہے۔ بہت افسردہ تھے کہ ہم نے اپنا کیا حشر کر دیا۔ سب ایک دوسرے کا گوشت نوچ رہے ہیں۔ بات دو ہزار روپے کی نہیں، کیا جج کو پتا نہیںکہ اس کی عدالت میںکیا ہو رہا ہے! میں نے کہا، مجھے اور فکر ہے۔ آپ سول سرونٹ ہیں، جنرل مشرف کے حکم سے آپ پر نیب کے مقدمات بن چکے ہیں، آپ نے اس وقت شاہین صہبائی کا ساتھ دیا ہے جب ان کے دوستی کے دعویدار صحافی اور دوست ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ بہت سے بیوروکریٹس پہلے ہی گرفتار ہیں، نیب آپ کو نہیں چھوڑے گا اور آپ ہیںکہ آبیل مجھے مار! ہنس دیئے اورکہا: زندگی انسان کو اپنی شرائط اور اپنے آدرشوں پر گزارنی چاہیے۔کیا ہوجائے گا؟ جیل ہوجائے گی، بھگت لیںگے۔ کہا، پاکستان میں جمہوریت کے لیے لڑنا اکیلا شاہین صہبائی کا ٹھیکہ نہیں، ہمیں اس کا نہیں توکم از کم اس کے مظلوم رشتہ داروںکا تو ساتھ دینا چاہیے۔ 
ڈاکٹر صاحب کی بیگم بہت پریشان تھیں، اکثر مجھے مسکراتے ہوئے کہتیں تم دونوں کب جیل جا رہے ہو؟ میں دونوں کے لیے روزانہ اچھا سا کھانا لایا کروںگی۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اپ سیٹ ہیں۔کوئی بات ہے جو چھپائی جا رہی ہے۔ آخر ایک دن ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ یار نیب سے کوئی شخص روزانہ میری بیوی کو فون کر کے دھمکیاں دے رہا ہے۔ اب تک تو عاصمہ نے چھپایا ہوا تھا لیکن اب وہ بول رہی ہے، وہ خوفزدہ ہے۔ میں نے کہا، کہیں تو اسے میڈیا پر لے آتے ہیں۔
ڈاکڑظفر الطاف کو شاہین صہبائی کے بھتیجے اور برادر ان لاء کی ضمانتیں کرانے کی سزا ملنا شروع ہوچکی تھی۔ بولے، تم مجھے جانتے ہو، میں کیسا آدمی ہوں۔ مجھے فکر عاصمہ کی ہے، وہ میرے مزاج کی وجہ سے ساری عمر اسی طرح کی ناپسندیدہ چیزوں کا سامنا کرتی آئی ہے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ رات گئے مجھے فون آیا۔۔۔۔رئوف یار عاصمہ فوت ہوگئی ہے۔ نیب نے اسے مار ڈالا ہے۔ میں ششدر رہ گیا۔ فوراً پولی کلینک ہسپتال گیا۔ پورے حوصلے کے ساتھ کھڑے تھے۔ مجھے پتا تھا اندر سے کیا لاوہ پک رہا ہے۔ بولے: ایک فون آیا اورکچھ کہا، وہیں گریں اور پھر نہ اٹھ سکیں۔ میت ایمبولنس میں ڈالی۔ میں نے کہا: میں آپ کوگاڑی میں لاہور جاتا ہوں۔ بولے نہیں، رہنے دو، میں خود ایمبولنس میں لے جائوںگا۔ برسوں کا ساتھ تھا، بھلا کیسے اکیلا سفر کرنے دوں۔ سب لوگ علیحدہ گاڑیوں میں اور وہ خود میت کے ساتھ ایمبولنس میںگئے۔ مجھے ڈاکٹر صاحب سے زیادہ ان کی اکلوتی بیٹی فریحہ کی فکر تھی۔
مجھے اندازہ تھا ان کی زندگی کا مشکل وقت شروع ہوچکا ہے۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ مشکلات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ وہ بنیادی طور پر ایک فائٹر تھے، خود سے زیادہ طاقتور سے لڑنے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔ نتائج کی پروا کرنا ان کے خون میں شامل نہ تھا۔ اچھی بات یہ تھی کہ ان کی لغت میں انتقام کا لفظ ہی نہیں تھا۔ میں نے جتنا انہیں اپنے مخالفوںکو معاف کرتے دیکھا کسی اورکو نہیں دیکھا۔ ایک دفعہ ان کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ ان کے بڑے بھائی جاوید الطاف بھی موجود تھے۔ ایک فائل لائی گئی، وہ ایسے افسر کی تھی جس نے کبھی ان کے خلاف مقدمات بنانے میں احتساب سیل کو مدد دی تھی۔ یہ اس کی برطرفی کی فائل تھی۔ بالعموم وہ اپنے اعتماد کے افسروں کے نوٹس کم پڑھتے تھے، لیکن اس دن انہوں نے فائل پڑھنا شروع کردی اور غصے سے لال پیلے ہوگئے۔ بولے، کس نے کہا تھا اس کے خلاف کارروائی کرو۔ افسر نے کہا، سر! اس نے آپ کو بہت تنگ کیا تھا، اب ہم نے اسے پھنسا لیا ہے۔ بولے، میں نے کب کہا تھا اسے پھنسائو؟ تم اسے جانتے ہو؟ میں جانتا ہوں۔ اس کے بچے ہیں، کوئی کالج کوئی سکول میں پڑھتا ہے۔ نوکری نہ رہی تو اس کے پاس سرکاری گھر رہے گا نہ گزر اوقات کے لیے پیسے۔ اس کی سزا اس کے بچوںکو نہیں دے سکتا۔ افسر نے کوشش کی تو جاوید الطاف جو اب تک خاموش بیٹھے تھے پہلی دفعہ بولے، ظفر درست کہہ رہا ہے۔ 
نواز شریف دور میں سیکرٹری بنے تو ایک دن سیف الرحمن نے بلایا اورکہا کل آپ کی بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف گواہی ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کیا کہنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بولے، سب معلوم ہے۔ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے ٹریکٹر امپورٹ ریفرنس کیا ہے؟ یہ منصوبہ میرا تھا۔ میری ہی سمری کی بینظیر بھٹو نے منظوری دی تھی۔ 
سیف الرحمن جو فرعونیت کی انتہا پر تھے، ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سخت لہجے میں بولے: لیکن ہم چاہتے ہیںکچھ اور بھی باتیں ہیں جو آپ جج کو بتائیں۔ آپ کو کچھ ''ایڈیشنل‘‘ کہنا پڑے گا۔ ڈاکٹر صاحب بولے، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک فیڈرل سیکرٹری عدالت میں جج کے سامنے قرآن پاک پر حلف اٹھا کر جھوٹ بولے اور وہ کہے جو آپ کہلوانا چاہتے ہیں؟ آپ کا خیال ہے، ایک فیڈرل سیکرٹری یہ کام کرے گا یا آپ اس سے کرا لیں گے؟ بھول جائیںکہ میں وہاںکچھ غلط کہوں گا۔ وہی کہوںگا جو عدالت میں قرآن پر حلف اٹھا کر کہنا چاہیے۔ سیف الرحمن بولا، آپ بھول رہے ہیں کہ آپ ہماری حکومت کے وفاقی سیکرٹری ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور بولے، آپ بھی بھول رہے ہیں کہ ایک وفاقی سیکرٹری محض چند لوگوںکی خوشنودی کے لیے عدالت میں کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ میں بینظیر بھٹو اور زرداری کو اس سکینڈل میں بے قصور سمجھتا ہوں۔ میں وہی کہوںگا جو مجھے کہنا چاہیے۔ آپ میرے خلاف جوکرنا چاہتے ہیں وہ کر لیجیے گا۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کر چلے گئے۔ 
حالانکہ برسوں پہلے بینظیر بھٹو نے اپنی دوسری حکومت میں اپنے پرنسپل سیکرٹری احمد صادق کو حکم دیا تھا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کو وزیر زراعت نواب یوسف تالپورکے پاکستان لوٹنے سے پہلے نوکری سے فارغ کر کے رپورٹ دو۔ نواب یوسف تالپور ڈاکٹر الطاف کے شیدائی تھے۔ بی بی کو خطرہ تھا کہ نواب صاحب اسے یہ کام نہیں کرنے دیں گے کیونکہ بی بی ان کی بہت عزت کرتی تھی۔کرنا خدا کا یہ ہوا کہ نواب یوسف تالپور اسی دن لوٹ آئے۔ دفتر جا رہے تھے کہ سیڑھیاں اترتے ڈاکٹر صاحب مل گئے۔ بولے،کہاں جا رہے ہو سائیں؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا، آپ کی وزیراعظم کا حکم تھاکہ فوراً دفتر چھوڑ دوں، سو چھوڑ دیا ہے۔ نواب تالپور نے پوچھا، بات کیا ہوئی؟ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وزیراعظم نے ایک حکم دیا تھا جو میں نے ماننے سے انکارکر دیا ہے۔ نواب صاحب، بینظیر بھٹو اور ڈاکٹر ظفر الطاف دونوں کو جانتے تھے۔ وہ جانتے تھے دونوں ضدی ہیں۔ بینظیر بھٹو بھلا کیسے برداشت کرتیںکہ ایک سیکرٹری ان کا حکم ماننے سے انکارکر دے اور دوسری طرف ڈاکٹر ظفر الطاف جس بات پراڑ جائیں تو وزیراعظم کے کہنے پر بھی نہیں کریںگے۔ نواب یوسف تالپور پھنس گئے۔ وہ وزیراعظم ہائوس گئے۔ ملٹری سیکرٹری حیران ہوا۔ بولا، آپ کی اپائنٹمنٹ تو نہیں ہے۔ بولے، بی بی کو بتائیں ایمرجنسی ہے۔ بی بی اس وقت آرام کے لیے جا رہی تھیں۔ اطلاع دی گئی تو کہا بلا لو۔ بی بی نے پوچھا خیریت تو ہے؟ نواب صاحب بولے خیریت نہیں ہے۔ آپ نے ڈاکٹر ظفر الطاف کو ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ بولیں، ہاں دیا ہے، وہ میری کوئی بات نہیں سنتا۔ اسے حکم دیا کہ فلاںکام کردو۔ یہ پڑھو اس کا تحریری انکار۔ یوسف! تمہارا سیکرٹری بہت ضدی افسر ہے،کوئی بات نہیں مانتا۔ جو اس کے من میں آتا ہے وہی کرتا ہے۔ اس نے میرا یہ حکم ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ نواب یوسف تالپور بولے، بی بی میرا خیال ہے ظفر الطاف درست کہہ رہا ہے۔ وہ یہ کام نہیں کرے گا اور آپ اسے ہٹائیںگی بھی نہیں۔ بی بی غصے میں آگئیں۔ بولیں کمال ہے، میرا وزیر میری بجائے ایک افسرکی سائیڈ لے رہا ہے۔ تم نے پوچھا ہے ظفر الطاف سے کہ اس نے کیوں میرا حکم ماننے سے انکار کیا؟ نواب یوسف تالپور بولے، جی بی بی پوچھا ہے۔ تو پھر اس کا کیا کہنا ہے؟ بینظیر بھٹو نے غصے سے زیادہ طنزیہ انداز میں پوچھا۔ بی بی! ڈاکٹر ظفر الطاف کہتا ہے اگر میں نے یہ کام وزیراعظم کے کہنے پر کر دیا تو اس فیصلے کا دفاع نہیں کر سکوںگا، اس لیے میں یہ نہیں کروںگا۔ میں پرنسپل اکائونٹنگ افسر ہوں، ایگزیکٹو پاورز میری ہیں، جو فیصلہ کروںگا اس کی ذمہ داری میری ہوگی۔ نواب تالپور نے کہا، لیکن بی بی آپ ڈاکٹر ظفر الطاف کو فارغ نہیںکریں گی، وہ اپنی جگہ کام کرتا رہے گا۔ اس نے آپ کو درست انکارکیا ہے۔ بینظیر بھٹوکو اپنی تھکاوٹ، نیند اور آرام بھول گیا۔ وہ ہکا بکا یوسف تالپور کو دیکھ رہی تھیں! (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved