تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     13-12-2015

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

تاشفین ملک اور سید فاروق کے واقعے نے امریکہ میں زوردار بحث چھیڑ دی ہے۔ ان میاں بیوی‘ جو خود بھی مر چکے ہیں‘کے ہاتھوں کیلی فورنیا میں چودہ بے گناہ افراد کا قتل ہوا۔ اس واقعے کے بعد سے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے بارے میں وہاں کے لوگ دو گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔ ایک گروہ امریکی مسلمانوں کی مخالفت جبکہ دوسرا ان کی حمایت میں بات کرتا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر مسلسل جس قسم کا چرچا ہو رہا ہے اور جتنا شور مچایا جا رہا ہے اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ صبح سے شام تک مسلمانوں کے بارے میں ہی بات ہوتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کی مخالفت میں تنازع کو جیسی ہوا دی‘ وہ بھی ایک ناقابلِ یقین بات محسوس ہوتی ہے۔ کہتے تو وہ یہی ہیں کہ مسلمان بڑے ہی زبردست لوگ ہیں اور مجھے پسند بھی بہت ہیں‘ اس کے باوجود مسلمانوں کے خلاف بک بک کرنا بھی وہ کبھی بند نہیں کر سکتے۔ امریکی صدارتی انتخاب کے لئے ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں میں موصوف سرفہرست ہیں۔ تقاضا ان کا یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہونا چاہئے۔ 
اس سے پہلے وہ مسجدوں کی نگرانی اور امریکی مسلمانوں کا ڈیٹا بیس بنانے کی تجویز بھی پیش کر چکے ہیں۔ انہوں نے حالیہ متنازع مطالبہ پریس ریلیز میں کیا ہے۔ ان کا یہ مطالبہ سان برنارڈینو کیلی فورنیا میں پاکستانی نژاد تاشفین ملک اور اس کے شوہر سید فاروق کے ہاتھوں چودہ افراد کے قتلِ عام کے بعداس وقت سامنے آیا ہے‘ جب یہ معلوم ہوا کہ یہ میاں بیوی داعش کے ساتھ ہمدردیاں رکھتے تھے۔ دوسری طرف صدر اوباما قوم سے اپنے خطاب میں اپنے ہم وطنوں کو کہہ چکے ہیں کہ''خوف کی بدولت ہمیں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہونا چاہئے۔‘‘تاہم، لگتا یوں ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی شکل اور ان کے الفاظ گویا ٹی وی سکرینوں سے مستقلاًچپک گئے ہیں۔ صبح سے شام تک انہی کی صورت اور انہی کے الفاظ ٹی وی پہ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں '' یہ بات ہر کوئی صا ف دیکھ سکتا ہے کہ مسلمان ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ ہمار ے لئے ان کی یہ نفرت سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمیں جاننا ہوگا کہ اس نفرت کا منبع اور اس کا سبب ہے کیا؟ جب تک ہم اس مسئلے کا تعین اور اس کی بدولت جو خطرات ہمیں لاحق ہیں ان کا پورا ادراک حاصل نہیں کر لیتے، یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے ملک کوان لوگوں کے خوفناک حملوں کا شکار ہونے دیں جو صرف جہاد پہ یقین رکھتے ہیں ، جن میں کوئی عقل نہیں اور جن کی نظروں میں انسانی جانوں کی کوئی قدر ہی نہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ یہ پابندی تب تک جاری رہنی چاہئے جب تک کانگرس یہ معلوم نہیں کر لیتی کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ ڈونالڈ ٹرمپ اپنی بات کے لئے حوالہ سنٹر فار سکیورٹی پالیسی نامی ایک متنازعہ ادارے کے ایک آن لائن پول کا دیتے ہیں جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں رہنے والے ایک چوتھائی مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ جہاد پرستی کی عالمگیر مہم کے تحت امریکیوں کے خلاف تشدد آمیز رویّے بالکل باجواز ہیں۔ 
ناقدین اس ادارے کی فراہم کردہ معلومات کی ساکھ پہ سوال اٹھاتے ہیں، تاہم ڈونالڈ ٹرمپ کے حامی ان کی بات کا یقین کرتے ہیں۔ان کے حامیوں میں زیادہ تعدادمزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید فاموں کی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ انہیںبتاتے ہیں کہ پولز کے مطابق امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد میں امریکیوں کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ بقول ان کے ''ہم انصاف سے کام لینا چاہتے ہیں لیکن بہت کچھ بُرا ہو رہا ہے اور حقیقی نفرت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ جو لوگ ہمارے وطن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ان کی نشاندہی کر کے انہیں حراست میں لینا ضروری ہے۔ یہ کام ان اچھے لوگوں کو کرنا ہوگا جو ہمارے ملک سے محبت کرتے ہیں اور جو یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ پھر سے ایک عظیم ملک بنے۔‘‘ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات دے کر ڈونالڈ ٹرمپ صرف اپنے ملک کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہے بلکہ امریکی مسلمانوں کے ساتھ بھی زیادتی کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف عموماً اور امریکی مسلمانوں کے خلاف خصوصاً نفرت ، خوف اور اجنبیت کی فضا تخلیق کرنے میں وہ خاصے کامیاب رہے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی ایسی باتوں پر کڑی تنقید وائٹ ہائوس سے لے کر امریکہ بھر میں خود ری پبلکن پارٹی کے رہنمائوں کی جانب سے بھی ہوئی ہے؛تاہم ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے اڑسٹھ فی صد ووٹرز ڈونالڈ ٹرمپ سے اتفاق رکھتے ہیںاور یہ چاہتے ہیں کہ امریکی مسلمانوں سمیت تمام مسلمانوں کا داخلہ امریکہ میں ممنوع ٹھہر جائے ۔ عالمی لیڈر بھی ان پہ نکتہ چینی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف بیان بازیوں سے باز نہیں آ رہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو بھی ایک پول میں یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا برطانیہ میں داخلہ ممنوع ہونا چاہئے۔ انہیں مسلمان مخالف فسطائی بھی کہا جا رہا ہے۔ ایسے بیانات سے وہ داعش ہی کی مدد کر رہے ہیں کیونکہ یہی داعش کی خواہش ہے کہ ہر امن پسند مسلمان کو امریکہ کے خلاف کر دیا جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس جنگ کو اسلام اور امریکہ کے درمیان جنگ بنادیا جائے ۔ متعدد لوگ سمجھتے ہیں کہ ''ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات امریکہ سے باہر تعینات ہمارے فوجیوں اور ہمارے سفارت کاروں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان بیانات کی بدولت وہ مسلم سماجی رہنما اور ایسے دیگر افراد بھی اب خطرے میں ہیں جو امریکہ کی مدد کر رہے ہیں، یہ ان کی موت کا پروانہ ہے!‘‘ اوہائیو کے گورنر اور ایک اور صدارتی امیدوار جان سچ کہتے ہیں کہ یہ اسی ظالمانہ اختلاف پسندی کا ایک اور نمونہ ہے جس کی جھلک ڈونالڈ ٹرمپ کی ہر سانس میں نظر آتی ہے ، اور یہی اس بات کا ایک اور ثبوت بھی ہے کہ موصوف کیوں امریکہ کی قیادت کرنے کے بالکل بھی اہل نہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے ہی ایک اور صدارتی امیدوار جیب بش نے اپنی ایک ٹویٹ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے لئے یہ لکھا ہے کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔ 
رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق جن صحافیوں نے تاشفین ملک کے پس منظر کے بارے میں مزید جاننے کے لئے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی سے رابطہ کیا‘ جہاں تاشفین کسی زمانے میں پڑھا کرتی تھی تو سکیورٹی ایجنسیوں سے اپنا تعلق ظاہر کرنے والے افراد نے انہیں معلومات فرام کرنے سے انکار کردیا اور تاشفین کے پس منظر کے بارے میں معلومات کے حصول کے سلسلے میں ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے انہیںمتنبہ کیا کہ اگر وہ باز نہ آئے تو انہیں نامعلوم جرائم کے الزام میں حراست میں لے لیا جائے گا۔ ایک ایجنٹ نے رائٹرزنیوز ایجنسی کو بتایا کہ آپ چاہے اسے ایک درخواست سمجھیں یا حکم لیکن میرا مشور ہ آپ کے لئے یہی ہے کہ آپ اس قصے کے پیچھے نہ پڑیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایک رپورٹر ٹم کریگ نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا کہ پولیس نے ملتان میں انہیں اپنے ہوٹل سے باہر جانے سے روک دیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ پچھلے سولہ سترہ گھنٹوں میں وہ بے شمار سکیورٹی اور انٹیلی جنس اہلکاروں سے بات کر چکے ہیں اور متعدد بار اپنے پاسپورٹ کی نقل انہیں فراہم کر چکے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار نے بعد میں رائٹرز کو بتایا کہ یہ صورتحال مقامی پولیس کے کچھ زیادہ ہی جو شیلے پن کا نتیجہ تھی۔ اس اہلکار نے اپنے نام کے اخفا کی استدعا کے ساتھ بتایا کہ '' یہ ہماری پالیسی نہیں۔ ہمارے پاس کچھ ایسا نہیں جو ہم چھپانا چاہیں گے، ہم تو صحافیوں کو سہولت فراہم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کئی سکیورٹی اہلکار یہ کہتے ہیں کہ صحافیوں پر اس پابندی کی وجہ یہ خدشات ہیں کہ کہیں تاشفین کی حرکت کا الزام پاکستان پر نہ لگا دیا جائے۔'' پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن اسے پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کیا جا ئے گا؛ چنانچہ اس بات کوکیسے رپورٹ کیا جاتا ہے اور کیسے دیکھا جاتا ہے، اس کی نگرانی ہمیں بہرحال کرنی پڑے گی۔‘‘ نجانے یہ ''اہلکار‘‘ جانتے بھی ہیں یا نہیں کہ سوشل میڈیا کی مہربانی سے سیکنڈوں میں خبریں دنیا بھر میں پہنچ جاتی ہیں۔ پاکستان کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اہلکار ابھی تک پچھلی صدی میں جی رہے ہیں۔ انہیں تعلیم اور تربیت فراہم ہونی چاہئے۔ 
وزیر داخلہ چودھری نثار کا بیان اس حوالے سے سب سے زیادہ متوازن رہا ہے کہ امریکہ جس قسم کی معلومات بھی چاہے، پاکستان فراہم کرنے کو تیار ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ تاشفین ملک نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ سعودی عرب میں گزارا تھا۔'' دنیا بھر میں ہونے والے ایسے دہشت گردانہ اقدامات اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ایک فرد کے کسی ذاتی اقدام کے لئے آپ ایک قوم یا ایک مذہب کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔‘‘
ڈونالڈ ٹرمپ کو اس بات پہ کان دھرنے چاہئیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved