تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-12-2015

یک سوئی، جناب والا یکسوئی

اور کتاب یہ کہتی ہے: کان ابراہیم حنیفا۔ ابراہیم یکسو تھے۔
بلوچستان کے چیف سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ نے وہ پینتیس ارب روپے واپس کیوں کر دیئے جو وفاقی حکومت نے زخم خوردہ آبادیوں کے اندمال کو بھیجے تھے؟۔ چیف سیکرٹری ہیں سیکشن افسر تو نہیں۔میاں محمد نواز شریف کا انتخاب ہیں، جو 1983ء سے کاروبار حکومت چلا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ بہرحال وہ بلوچستان کی آبادی کے آرزو مند ہیں، بربادی کے نہیں۔ 35 ارب سے کتنی سڑکیں تعمیر ہو سکتی ہیں۔ کتنے سکول اور ہسپتال کھل سکتے ہیں۔ اگر یہ بھی نہیں تو ٹیکنیکل ٹریننگ کے کتنے ادارے وجود پا سکتے ہیں، جن میں چھ ماہ سے لے کر سال بھر کی تربیت پا کر ہزاروں نوجوان اپنے خاندانوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جاتے۔ کتنے چولہے روشن ہوتے، کتنے زخم سِل جاتے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن، پاکستانی سپہ سالار سے ملنے آئیں۔ وہ پریشان تھے۔انکل سام کے مطالبات وہ پورے نہ کر سکتے تھے اور خاتون تحکم کے ساتھ بات کیا کرتیں۔ Imperial hubras، استعماری گھمنڈ! ۔ایک سرتاپا شائستہ وجود کو جب ایک گنوار سے واسطہ پڑتا ہے؟۔ انہوں نے مشورہ کیا۔ دانا اور جہاندیدہ لوگ ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔وامرھم شوریٰ بینہم۔ان کے معاملات باہم بحث سے طے پاتے ہیں۔ نیک نیتی کے ساتھ کیے جانے والے تبادلہ خیال میں بہترین صلاحیت بروئے کار آتی ہے۔ قوت متخیلہ کا شعلہ روشن ہوتا ہے اور دیئے سے دیا جلتا ہے۔ ع 
اک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ
انہیں بتایا گیا کہ خاتون محترم کے مزاج میں تیزی ہے'مگر نامعقولیت کی متحمل نہیں‘ چنانچہ انہیں بولنے کا موقعہ دیا جائے۔ دو چار منٹ، دس منٹ۔ اپنا غبار وہ نکال چکیں تو دلائل پیش کر دیئے جائیں۔ دردِ سر وہی تھا، وزیرستان! آپریشن کے لیے حالات سازگار نہ تھے۔ اس سے پہلے بہت کچھ کرنا تھا۔ سب سے بڑھ کر عوامی حمایت۔ آج کی دنیا میں فقط یہ حکمران اور افواج نہیں جو جنگیں لڑا کرتے ہیں بلکہ قوم کی قوم۔ اگر وہ پشت پر کھڑی نہ ہو تو ڈھاکہ ڈوب جایا کرتا ہے۔
عالم یہ تھا کہ دو ہم جولیوں سمیت تیرہ چودہ سال کی اس بچی ملالہ کے سر میں گولی پیوست ہوئی تو سوشل میڈیا پر بہت سوں نے اسے ڈرامہ لکھا۔ عالم یہ تھا کہ ٹی وی مذاکرے میں وقفے کے دوران مولوی صاحب نے ارشاد کیا: دھماکے آئی ایس آئی کرتی ہے اور الزام طالبان پر آتا ہے۔ عالم یہ تھا کہ لاہور میں ڈیڑھ دو سو علماء کے اجتماع نے دہشت گردوں کی مذمت سے انکار کر دیاتھا۔ سوال یہ تھا کہ قومی حمایت حاصل کیے بغیر، فوج اگر چڑھا دی گئی تو کیے کرائے پر پانی ہی نہ پھر جائے۔ بنیاد اگر مضبوط نہ ہو تو عمارت ڈھے پڑتی ہے اور باقی صرف صدمہ رہ جاتا ہے، کچلی ہوئی لاشیں۔ الامان۔ 
نسخہ نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ ہلیری کلنٹن دل کا بوجھ ہلکا کر چکیں تو سپہ سالار نے زبان کھولی اور ایک ایک کر کے، سارے دلائل میز پر رکھ دیئے۔ اس نے انہیں اٹھایا، دیکھا اور تولا۔ اس کے مؤقف اور اندازِ فکر کے مقابلے میں وہ بہت بھاری نکلے۔ اب وہ قدرے خفیف ہوئیں۔ چھڑی چھپالی اور گاجر نکال کررکھ دی۔ قبائلی خطے کے لیے ، افغانستان میں قابض افواج پرجہاں سے یلغار ہوتی ہے، ہم آپ کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔
سادہ سے سوال کا جواب اتنا ہی سادہ تھا۔ کشتہِ سلطانی و ملّائی، صدیوں کی غربت، جہالت اور تیس برس کی جنگوں کے مارے افتادگانِ خاک کے لیے، دم لینے کی مہلت۔ روٹی کا ایک ٹکڑا، سفر کے لیے ایک ذرا سی ہموار سڑک، وہ شاہراہ جس کی تعمیر کے لیے وہ پسینہ بہائیں اور اس کی اجرت سے قوت لایموت کا اہتمام کر سکیں۔ چولہا روشن ہو تو عقل کا چراغ جل اُٹھنے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ بھوک تو گاہے شیطان کے مندر تک لے جاتی ہے۔ ''دو سو ملین ڈالر‘‘۔ امریکی وزیر خارجہ نے بشاشت سے کہا :اور یہ عطیہ ہے۔ کوئی شرط اس کے ساتھ وابستہ نہیں۔ بس یہ کہ سرمایہ برباد نہ ہو، چور اُچکے ٹھیکیدار اور ان کے سرپرست اچک نہ لے جائیں۔ 
منصوبہ حکومت نے بنایا۔ تعمیر افواج کی نگرانی میں ہونے لگی۔ سات سو کلو میٹر کی دو رویہ شاندار شاہراہ۔ جس سے افغانستان سرحد تک پھیلی قبائلی آبادیوں کافاصلہ، ایک سے سات گھنٹے تک کم ہوگیا۔ ٹرک کے ٹائر ایک کی بجائے تین برس تک کارگر رہتے۔ پھر سپہ سالار نے ایک عجیب فیصلہ کیا: ایک مزدور کی اجرت اگر دوسو روپے روزانہ ہوتی ہے تو اس خطرناک سڑک پر کام کرنے والوں کو چارسو روپے روزانہ دیئے جائیں۔ اس لیے کہ پھر یہ ان کی اپنی سڑک ہو گی۔ وہ اس کی حفاظت کریں گے۔ وہ اس قابل ہوں گے کہ مہینے بھر میں آدھی یافت بچا لیا کریں۔ سال بھر میں ساٹھ ستر ہزار کی بچت ہو گی تو اس کا مطلب ہو گا، چائے کا ایک کھوکھا، قسطوں پر لی جانے والی ایک گاڑی کی پہلی قسط، بائیسکل کی گدیاں بنانے کی ایک چھوٹی سی دکان یا ایک عدد ٹیلی فون بوتھ۔
اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب، بیس برس سے یہی کرتے آئے ہیں۔ بلا سود دس ہزار روپے وہ دیا کرتے تھے، روپے کی قدر کم ہوئی تو بیس ہزار، پھر تیس ہزار۔ ایک دن آیا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ایک ارب روپے ان کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ اب وہ پچاس ہزار بھی دے سکتے ہیں۔ فیصل آباد میں ایک یونیورسٹی بنا سکتے ہیں۔
بلوچستان کو بھی یہی درکار ہے۔ امن اور استحکام اور روزگار کے مواقع کہ زندگی معمول پر لوٹ آئے۔ آنگنوں میں بچوں کے ہاتھ ہنسنے لگیں اور بیاہتائیں سانولی شام میں ساجنوں کا انتظار کریں۔ ایک مرحلہ طے ہوا۔ تین برس کی شبانہ روز مشقت سے، انس اور الفت کے ساتھ کی جانے والی ریاضت سے مغائرت کم ہونے لگی۔ دشمن اور دوست ممالک کی سرپرستی میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے ''حریت پسند‘‘ کمزور پڑنے لگے۔ بہت سے چولہے مگر اب بھی خاموش ہیں۔ دھاگے سے بندھی اندیشوں کی تلوار اب بھی سر پہ لٹکی رہتی ہے۔
جنرل ناصر جنجوعہ اور ڈاکٹر عبدالمالک کا عہد تمام ہوا۔ اب یہ سردار ثناء اللہ زہری کا دور ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا ؎
کار دنیا کسے تمام نہ کرد
ہر کہ گیرد، مختصر گیرد
ایک ہاتھ سے کوئی کام مکمل نہیں ہوتا۔ جو بھی تھامتا ہے، تھوڑی سی مدت کے لیے۔ شاعر نے کہا تھا:دائمی حیات اگر عطا ہوتی تو ختم المرسلینؐ کو ہوتی۔ خیر، انہیں تو پیشکش بھی ہوئی تھی۔ فرشتہ پیغام لے کر آیا تھا۔ ساری دنیا کے خزانے اور دائمی حیات۔ فرمایا: ''مگر میرا وہ اعلیٰ رفیق‘‘۔ موت آدم زاد کی گھات میں ہے۔ مہلت ہمیشہ مختصر ہوتی ہے۔ ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک اور جنرل جنجوعہ تو ابھی حیات ہیں۔ اللہ انہیں جیتا رکھے۔ مشاورت اور رہنمائی کے لیے وہ موجود ہیں مگر مشعل اب دوسرے ہاتھوں میں ہے اور تیرگی سے انہی کو نمٹنا ہے۔
فقط مال و زر کی بات نہیں۔ دولت کے بل پر قوموں کے مقدر سنور سکتے تو عربوں کے سنور گئے ہوتے۔ صلاحیت کار لازم ہے اور وہ بازار میں نہیں بکتی جان دینا سہل نہیں۔پسینہ بہانا مشکل۔ رسم درہِ دنیا سے اوپر اٹھنا ہوتا ہے۔ ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھنے سے دیوار بنتی ہے اور یہ جاں سوزی کا عمل ہے۔خلوص درکار ہے۔ ایک سمجھ اور مکمل وابستگی۔ لبنان کے فلسفی نے کہا تھا: موبے دلی سے کشید کرے، باد نہیں، وہ زہر کشید کرتا ہے۔
صرف بلوچستان ہی نہیں، پورے ملک کا مسئلہ یہی ہے ۔پورے کے پورے عالم اسلام کا۔ یکسوئی!
اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: ابراہیم ؑ ہم تجھے تمام انسانوں کا امام بنا دیں گے۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں درود پڑھا جاتا ہے اور دائم پڑھا جاتا ہے، وہاں رحمت اللعالمینؐ کے ساتھ ساتھ وہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے۔ اے اللہ سلامتی کیجیو محمدﷺ پر اور آلِ محمد پر، جس طرح کہ تو سلامتی کی ابراہیمؑ پر۔
اور کتاب یہ کہتی ہے: کان ابراہیم حنیفا۔ ابراہیم یکسو تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved