ایک متحمل مزاج صحافی اور پروڈیوسر نے چند دن قبل اسلام آباد کے بلدیات انتخابات کے حوالے سے لکھا: الیکشن کمیشن کنفیوژن دور کرے اور پھر بعض شواہد بھی پیش کیے ہیں ۔ ان میںاسلام آبادکے مقامی انتخابات کے بارے میں مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے چیئرمین پینلز کی تعداد کے بارے میں میڈیا پر متضاد خبروں کا نشر ہونا ہے ۔ اس پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ یہ خبریں تو میڈیا کے ذریعے نشر ہوئیں،کیا اس کی ذمے داری ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عائد ہوتی ہے ؟۔
گزارش ہے کہ ادارے جیسے بھی ہیں، ہمارے قومی ادارے ہیں ، انہی میں سے ایک الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے ۔ ہمیں ان کا حریف نہیں بلکہ حلیف ، رقیب نہیں بلکہ رفیق اور خیر خواہ بن کر اصلاحِ احوال کے لیے تجاویز دینی چاہئیں ، بقولِ شاعر :
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تو نے
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف جناب سید خورشیدشاہ نے جب یہ بیان دیا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کو استعفیٰ دیدینا چاہیے ، تو مجھے ہٹلر کا قول یا د آیا : "Brutus You Too"،کیونکہ سندھ ، خیبر پختونخوا اوربلوچستان کے ارکان تو پیپلز پارٹی کا حسنِ انتخاب ہیں اور سابق و موجودہ چیف الیکشن کمشنر اور پنجاب کے رکن کے انتخاب میں بھی ان کی رضامندی شامل ہے ۔ یہ تو ساس والا معاملہ ہوا جو دسیوں زاویوں سے جائزہ لے کر بہو کا انتخاب کرتی ہے اور پھر سب سے پہلے اس کی مخالفت بھی وہی کرتی ہے ، حالانکہ اسے تو اپنے حسنِ انتخاب کی لاج رکھنی چاہیے ۔ ہمیں موجودہ انتخابات میں کسی بڑی خرابی کا علم نہیں ہے۔ لیکن NA-122 اور اس کے بعدمقامی انتخابات کے نتائج میں تاخیر کے اسباب میرے نزدیک یہ ہیں :
(الف) ماضی میں پریذائیڈنگ افسر ان اپنے اپنے نتائج تیار کرکے ریٹرننگ افسران کو پہنچا دیتے تھے اور ریٹرننگ افسر ان نتائج مرتب کر کے اعلان کر دیتے اور الیکشن کمیشن کو پہنچا دیتے ، بعض صورتوں میں دوبارہ گنتی ہو جاتی ۔ الیکشن کمیشن کے تمام تفصیلی پرفارمے پریذائیڈنگ افسران بھی بہت کم مرتب کرتے ہوں گے ، سوائے اس کے کہ کوئی افسر ذاتی طور پر بہت ٹیکنیکل اور فرض شناس ہو ۔ یہی صورتِ حال ریٹرننگ افسر ان کے عملے کی ہوگی ، اِلّا ماشاء اللہ ۔ مگر جناب عمران خان کے بے انتہا دباؤ کے باعث جب بیگ کھولے گئے تو بہت سی بے قاعدگیاں سامنے آئیں ، جو بشری کوتاہی کی بنا پر بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن جناب عمران خان نے کمالِ مہارت سے اسے اپنے حق میں استعمال کیا ، فارم 14اور 15کا بار بار ذکر آیا ۔ اس سے ان کو بحیثیتِ مجموعی کوئی خاص فائدہ تو نہیں ہوا ، لیکن انتخابی عملے کی غفلت اور کوتاہی بہرحال آشکار ہو گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب پریذائڈنگ افسران اور ریٹرننگ افسران سب محتاط ہو گئے ہیں کہ کسی بھی مرحلے پر باز پرس ہو سکتی ہے۔ مگر ان تمام پر فارموں کوپُرکرنا اچھا خاصا ٹیکنیکل کام ہے ، الیکشن رو ز روز تو ہوتے نہیں کہ لوگ عاد ی جائیں اوریہ کام فٹافٹ کسی غلطی کے بغیر انجام پائے ۔
(ب) ہمارا الیکٹرانک میڈیا سنجیدگی سے کام لے تو تعمیری کردار ادا کر سکتاہے ۔ لیکن مسابقت سنسنی خیزی کے بغیر ممکن نہیں اور پھر ریٹنگ کا آسیب ان کے سر پر مسلط رہتا ہے ۔ سو ان کی اسکرین کی رونقیں تو یقینا دو بالا ہو جاتی ہیں ، لیکن نظام لرزہ بر اندام رہتا ہے اورانتخابی عملے پر کپکپی طاری رہتی ہے ۔ اگر لازمی سروس رولز کا اطلاق نہ کیا جائے توبہت کم سرکاری و نیم سرکار ی اداروں کے ملازمین برضا و رغبت اس ڈیوٹی کو انجام دینے کے لیے آمادہ ہوں، جہاںہر وقت ہنگامہ آرائی کا احتمال بھی رہتا ہے اور اس ملّی خدمت میں ستائش کا تو دور دور تک امکان نہیں ہے ، البتہ ملامت کا وافر سٹاک دستیاب ہے ۔
(ج) اگر ریٹرننگ افسران کے پاس انتظامی عہدے اور اختیارات نہ ہوں تو ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولتوں کی فراہمی ان کے لیے نا قابل عمل ہو جائے ، یہ تو تھوڑا افسرانہ رعب و دبدبہ کام آجاتاہے ۔ پولنگ افسران اور پریذائڈنگ افسران کو ایک دن کے لیے مئجسٹریٹ درجہ ٔ اول کے جواختیارات دیے جاتے ہیں ، یہ محض کاغذی باتیں ہیں ۔ اس لیے ان اختیارات کے استعمال کی کوئی ایک نظیر بھی ہمارے علم میں نہیں ہے ، حالانکہ پولنگ اسٹیشنوں پر بالعموم ہنگامہ آرائی کے واقعات رو نما ہوتے رہتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اختیارات استعمال کرنے کے بعد وہ جائیں گے کہاں ؟، بعد میں توان کا واسطہ انہی دادا گیروں اور رسہ گیروں سے پڑتا ہے،پھر انہیں کون تحفظ دے گا ۔
(د) چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس (ر) سردار رضاخان نے بیزاری کے ساتھ کہا ہے کہ ہائی کورٹس ہمارے کام میں مداخلت نہ کریں ، یہ شکایت تو اور بھی کئی لوگوں کو ہے، لیکن توہین عدالت کی تلوار لٹک رہی ہے ، اِس کی کسک سابق وزیرِ اعظم جناب سید یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیرِ قانون جنابِ بابر اعوان بہتر طور پر بتا سکتے ہیں۔آج کل چیف جسٹس آ ف پاکستان جناب انور ظہیر جمالی مختلف فورموں پر عمدہ خطابات فرما رہے ہیں ، کیاہی اچھا ہو کہ وہ سٹے آرڈرکے لیے کوئی واضح معیارطے کریں تاکہ آئے روز معمول کا نظامِ حکومت اور اداروں کا تسلسل جامد نہ ہو اور جہاں حکومت اور اداروں کی قواعد کو پامال کرنے کی روایت بالکل نمایاں ہو ، وہاں بروقت روک ٹوک عائد کی جاسکے ۔
(ہ) جناب چیف جسٹس آف پاکستان سے یہ بھی گزارش ہے کہ بعض حضرات جن کا کسی معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ، کوئی مفاد وابستہ نہیں ہوتا ، وہ محض ذاتی تشہیر اور ناموری کے شوق میں آئے دن پٹیشنیں دائر کرتے رہتے ہیں اورسپریم کورٹ آف پاکستان کی رجسٹری کا عملہ انہیں بہت اچھی طرح جانتاہے ، ان پر بھی کوئی ضابطہ ہونا چاہیے ۔
(و) الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹنگ ٹیموں کی پھرتیاں دیکھنے کی چیز ہیں۔ چند دن پہلے دن بھر ٹیلی ویژن پر چلتا رہا کہ الیکشن کمیشن نے نابینا کو پریذائڈنگ یا پولنگ افسر بنادیا ۔ یہ خبر اس شانِ افتخار کے ساتھ نشر کی جاتی رہی کہ گویا ہمالیہ کی چوٹی سر کر لی ہو ۔ یہ الیکشن کمیشن یاریٹرننگ افسر کی سطح کا مسئلہ تھا ہی نہیں ۔ ہوتا یہ ہے کہ ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل سے ان کے عملے کی فہرستیںان کا ڈائریکٹریٹ طلب کر کے متعلقہ ریٹرننگ افسران یا ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کو فراہم کرتا ہے ۔ اس فہرست میں بینا یا نابینا نہیں لکھا ہوتا ، یہ کوتاہی متعلقہ ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل کی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر لیٹر لے کر وہ نابینا ٹیچر یا لیکچرر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسرکے پاس جاتے تو وہ انہیںڈیوٹی سے مستثنیٰ کر دیتے ، لیکن پھر اتنی بڑی اسٹوری ٹیلی ویژن اسکرین پر دن بھر چلتی رہی۔
(ز) آغاخان ہاسپٹل میں میرے مرحوم بیٹے کا کینسر کا میجر آپریشن ہونے والا تھا ، میں نے سرجن سے پوچھا : کیا آپ کے ہاں آپریشن کی فلم بنتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر آپریشن کی وڈیو فلم کہیں نہیں بنتی ،سوائے اس کے کوئی بہت اہم آپریشن ہو جو تدریس یا تحقیق میں کام آ سکتا ہو، کیونکہ اس سے سرجن اور آپریٹنگ ٹیم کی توجہ بٹ سکتی ہے اور آپریشن کی کوالٹی متاثر ہو سکتی ہے ۔ سوجب درجنوں ٹیلی ویژن چینلز کی رپورٹنگ ٹیمیں ہر زاویے سے لائیو کوریج کررہی ہوں تو انتخابی عملے کی کار کردگی کا متاثر ہونا اورنتائج مرتب کرنے میں تاخیر ناگزیر ہے ۔
(ح) جس طرح چیف الیکشن کمشنر نے ہائی کورٹس سے کہا کہ معمول کے امور میں غیر ضروری مداخلت نہ کی جائے ۔اسی طرح الیکشن کمیشن کو بھی چاہیے کہ'' ضابطہ ٔ اخلاق ‘‘ایسا بنائیں جو قابل عمل ہو ، ایسا نہ ہو کہ قانون کا حترام ہی اٹھ جائے اور وہ صرف کتاب کی زینت بن کر رہ جائے۔ پارلیمنٹ کی الیکشن ریفارمز کمیٹی، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں مل کر پورے انتخابی نظام پر نظر ثانی کریں اور پاکستان کے دستیاب حالات اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے ایک فول پروف نظام وضع کریں ۔
(ط)ہمارے سیاست دانوں پر بھی لازم ہے کہ پروپیگنڈے کی سیاست کو خیر باد کہہ کر سنجیدہ اور مسائل پر مبنی سیاست کریں ۔ ایک دوسرے کی شخصی اہانت و تحقیر کے کلچر کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہیں ۔ جناب عمران خان میڈیا پر ایک عرصے سے ببانگ دہل اعلان کررہے ہیں کہ ہم نے تیس فیصد ترقیاتی وسائل نچلی سطح پر رضاکارانہ طور پر منتقل کر دیے ہیں ، جبکہ وہاں کے منتخب مقامی نمائندوں سے معلوم ہو اکہ ابھی کوئی مالی وسائل نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوئے ۔ پچھلے دنوں جناب سراج الحق انتخابی مہم کے سلسلے میں کراچی آئے ہوئے تھے ، وہ از راہ کرم ملاقات کے لیے تشریف لائے، تومیں نے ان سے اس دعوے کی حقیقت معلوم کی۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی رولز آف بزنس ہی نہیں بنے ۔ پراونشل فنانس کمیشن بننا ہے جو ترقیاتی وسائل کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کے لیے فارمولا مرتب کرے گااور تناسب طے کرے گا۔
(ی) حالیہ بلدیاتی انتخابات کو ایک مانیٹرنگ نجی این جی او فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (Fafin) نے کافی حد تک بہتر قرار دیا ہے ۔ ابھی ہم اس مقام پر نہیں پہنچے کہ اعلیٰ جمہوری اقدار و روایات ہم سے منسوب ہو ں ، تو جہاں کچھ بہتری نظر آئے اس کی تحسین کی جانی چاہیے ،کیونکہ لعن طعن تو ہمارے ہاں بہت ہوتی رہتی ہے ، کلمۂ خیر بہت کم کسی کو نصیب ہوتا ہے ۔