بلدیاتی الیکشن کے تمام مراحل مکمل ہوئے۔ آخری مرحلے میں کراچی کی باری تھی۔ اور اس مرحلے میں متحدہ قومی موومنٹ کی بھی باری آگئی یعنی عوام نے اُسے ایک بار پھر شہرِ قائد کا نظم و نسق سنبھالنے کے حوالے سے بھرپور مینڈیٹ سے نوازا۔ یہ مینڈیٹ غیر متوقع تو خیر نہیں تھا تاہم اتنا ضرور ہے کہ مجموعی کیفیت تھوڑی سی حیرت انگیز ثابت ہوئی۔
ایک سال سے زائد مدت سے کراچی میں آپریشن جاری ہے جس کے نتیجے میں خاصا امن رہا ہے۔ لوٹ مار اور قتل و غارت کی وارداتیں گھٹتی گئیں، امن بڑھتا گیا اور ساتھ ہی ساتھ ریاستی مشینری پر عوام کے اعتماد کا گراف بھی بلند ہوتا گیا۔ ایسے میں عوامی سطح پر یہ توقع ابھری کہ اب سب کچھ درست ہوجائے گا مگر ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
کراچی میں معاملات میں کچھ بہتری آئی ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ایک بہت بُری بات یہ ہوئی ہے کہ خود کراچی پر قبضے کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ یا کم از لگتا تو ایسا ہی ہے۔ وفاق نے کراچی کو اپنے زیر انتظام علاقے کی حیثیت سے برتنا شروع کردیا ہے جو، ظاہر ہے، بہت خطرناک رجحان ہے۔
سندھ حکومت کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ویسے تو خیر تقریباً ہر دور میں صوبائی حکومت نے کراچی کے بنیادی مفادات کو نظر انداز کیا
ہے اور اُسے ایک حقیقی پرامن اور ترقی یافتہ شہر بنانے سے متعلق کردار ادا کرنے سے گریز کیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت صوبائی حکومت کے کنٹرول میں بھی نہیں تھا اور اسی لیے اس کی نظر میں بھی نہ سماتا تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے، حقیقت یہ ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومت نے کراچی کو نظر انداز کرنے کی روش کبھی ترک نہیں کی۔ اس شہر کو ہر دور میں حقوق یعنی موزوں ترین سہولتوں اور فنڈنگ سے محروم رکھا گیا ہے۔ اگر کبھی کراچی کے نام پر زیادہ فنڈز جاری بھی کیے گئے تو شہریوں کے لیے نہیں بلکہ چند منظورِ نظر افراد کے لیے یعنی سیاسی رشوت کی مد میں۔ شہر کے مکین تو سہولتوں کو ترستے ہی رہے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے ایک ٹاک شو میں خدا جانے کس کے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں بلدیاتی الیکشن ہونا ہی نہیں چاہیے تھا! شیخ رشید صاحب کی پارٹی سے راولپنڈی کے لوگوں نے جو سلوک روا رکھا ہے یہاں اُس پر بحث مقصود نہیں مگر یہ سوال ضرور ذہن میں ابھرتا ہے کہ کراچی کے حوالے سے انتہائی غیر جمہوری مشورہ دینے کا مینڈیٹ شیخ رشید کو کس نے اور کیوں دیا۔ کیا اس لیے کہ کراچی کی بلدیاتی قیادت کے منصب پر ایک بار پھر متحدہ کے فائز ہوجانے کا خدشہ تھا؟ جیسا کہ بعد میں ثابت بھی ہوا۔ یعنی نیت یہ ہے کہ کراچی کی سیاسی اور جمہوری حیثیت ''معلق‘‘ رکھتے ہوئے معاملات مصنوعی طور پر چلائے جاتے رہیں، غیر نمائندہ افراد کو کراچی کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا جاتا رہے۔
آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ن لیگ ہی کے دور میں ایک بار منتخب حکومت کی بساط لپیٹ کر سید غوث علی شاہ کو وزیر اعظم کے ''وائس رائے‘‘ کی حیثیت سے سندھ پر مسلط کردیا گیا تھا۔ کیا وہ کوئی ایسا تجربہ تھا جسے کراچی کے معاملے میں دہرایا جاتا؟ اس ایک تجربے نے سندھ کو جو نقصان پہنچایا اور معاملات کو جس قدر بگاڑا وہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔
پورے ملک کی طرح کراچی میں بھی بلدیاتی الیکشن کا نتیجہ زیادہ حیرت انگیز نہ تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ کا بھاری مینڈیٹ کے ساتھ سامنے آنا کسی بھی اعتبار سے کسی بھی پارٹی کے لیے سیٹ بیک قرار نہیں دیا جاسکتا۔ صوبائی حکومت نے ''دور اندیشی‘‘ کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے بہت پہلے کراچی کے بلدیاتی اداروں کے ہاتھ پاؤں باندھنے کا اہتمام کرلیا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ کراچی کے عوام نے متحدہ قومی موومنٹ سمیت متعدد سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے نمائندوں کی حیثیت سے چُن تو لیا ہے مگر وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ جنرل کونسلر کا تو خیر ذکر ہی کیا، یہاں تو میئر کے اختیارات بھی برائے نام ہیں۔ پَر کچھ اِس طرح کتر دیئے گئے ہیں کہ اپنی خواہش تو ایک طرف رہی، عوام کی امنگوں کے مطابق اُڑنا بھی ممکن نہیں رہا!
کراچی میں قبضہ مافیا کو کنٹرول کرنے کی تمام کوششیں لاکھ قابل تعریف سہی مگر اِس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ خود کراچی پر قبضے کی جنگ کب ختم ہوگی اور اس میدان کے کھلاڑیوں کو کنٹرول کرنے والے کھلاڑی کہاں سے آئیں گے!
اس سے زیادہ المناک بات کیا ہوگی کہ ملک کا سب سے بڑا اور معیشت کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والا شہر یتیموں کی طرح جی رہا ہے، جیسے کوئی وارث ہی نہ ہو؟ ملک کی تمام اور بہت سی بیرونی نسلوں کے لوگوں کو بھی اپنے آپ میں سمونے والا یہ ''مِنی پاکستان‘‘ چاہتا ہے کہ اب اِس کی حالت درست کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے۔ شہر میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا معاملہ انتہائی بے نظمی کا شکار ہے۔ تقریباً ڈھائی کروڑ کی آبادی والا شہر صحت عامہ کی سہولتوں سے کما حقہ ہم کنار نہیں۔ بجلی اور پانی کی فراہمی کا معاملہ بھی کسی طور ایسا نہیں کہ مطمئن ہوکر بیٹھا جائے۔ ایسے میں وفاق اور صوبے کے درمیان کشمکش سے اہل کراچی خدشات میں مبتلا کیوں نہ ہوں؟
کراچی اپنے حقوق چاہتا ہے۔ اِسے بیشتر معاملات میں سائڈ لائن کرنے کے بجائے حقیقی مرکزی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔ مستحسن تو یہ ہوگا کہ وفاق اِسے اپنے زیر انتظام علاقے کے طور پر نہ برتے۔ اینٹ اور گارے کی عمارتوں کا ڈھیر سمجھنے کے بجائے کراچی کو جیتے جاگتے انسانوں کا مجموعہ سمجھا جائے۔ اور صوبائی حکومت بھی کراچی کو اپنے حصے کا مال سمجھ کر ٹھکانے لگانے کی روش ترک کرے۔ یہ اموال متروکہ میں سے نہیں، سانس لیتی ہوئی نگری ہے۔ کوئی بھی جگہ نگری اس وقت بنتی ہے جب وہاں آباد ہوتے ہیں۔ اور لوگوں کے مسائل بھی ہوتے ہیں جنہیں حل کرنا لازم ہوتا ہے۔ کراچی صرف ان کا ہے جو اس میں رہتے ہیں۔ اگر ان کے حقوق کا تحفظ ممکن نہ ہوا یعنی ان کے مسائل حل نہ کیے گئے تو خرابیاں محض برقرار نہیں رہیں گی، بڑھیں گی!
خواجہ میر دردؔ نے خوب کہا ہے ؎
دردؔ کا حال کچھ نہ پوچھو تم
وہی رونا ہے، نِت وہی غم ہے!
جس شہر پر پورے ملک کی معیشت کا بہت حد تک مدار ہے اس کا ذکر جب بھی ہوتا ہے، بات بالعموم رونے پیٹنے تک پہنچتی ہے۔ دنیا بھر میں ملک کے سب سے بڑے شہر کو منظم رکھنے پر خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ قومی معیشت متوازن رہے۔ یہاں حال یہ ہے کہ کراچی سمیت کسی بھی بڑے شہر کو ممکنہ بہترین حالت میں رکھنے کا کسی کو خیال ہی نہیں۔ شہر بے ہنگم پھیلتے ہیں اور مسائل کا گڑھ بن جاتے ہیں۔ اور پھر یہ ہوتا ہے کہ حل نہ کیے جانے والے مسائل ناسور بنتے جاتے ہیں۔ کراچی سمیت کئی شہروں کا یہی حال ہے۔ اب تو ایسا کچھ کیا جائے کہ شہری آبادیاں متوازن ہوں اور بالخصوص کراچی جیسا بڑا، ساحلی شہر حقیقی مفہوم میں بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کرے تاکہ ملک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ اور اگر مقتدر قوتوں کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تو پھر خواجہ میر دردؔ ہی کا یہ شعر یاد رکھا جائے ؎
فرصتِ زندگی بہت کم ہے
مغتنم ہے یہ دید جو دَم ہے