تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     14-12-2015

ترکمانستان ، افغانستان، پاکستان ،بھارت گیس پائپ لائن

اسلام آباد میں افغانستان پر ' قلبِ ایشیا ‘((Heart of Asia کانفرنس کے انتظامات دیکھ کر دنیا کے تقریباََ دو درجن ممالک سے آئے ہوئے نمائندے ابھی پاکستانی وزارت ِ خارجہ کو حسنِ انتظام کی داد بھی نہ دے پائے تھے کہ وزیراعظم نواز شریف افغان صدر اشرف غنی کو ساتھ لیے آپہنچے اور کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ تلاوت قرآن مجید کے بعدہال کی دیواروں میں لگے سپیکروں سے قومی ترانہ بجنے لگا تو ہال میں بیٹھا ہر شخص کھڑا ہوگیا۔ بیرونِ ملک سے آئے لوگوں کو تو کیا معلوم لیکن وہاں موجود ہر پاکستانی قومی ترانے کی دھن میں استعمال ہونے والے بد آواز سازوں کو سن کر پریشان ہوگیا۔کسی کے سان و گمان میں نہ تھا کہ عالمی سطح کی ایک کانفرنس میں بجانے کے قومی ترانے کے لیے اس قدر گھٹیا موسیقی استعمال ہوگی۔ خدا خدا کرکے قومی ترانے کی یہ توہین ختم ہوئی اور وزیر اعظم کا خطاب شروع ہوا۔ان کی جامع تقریر سن کر لگا کہ ان کے بعد آنے والے مقررین بھی کام کی بات کریں گے مگر یہ امید بر نہ آئی ۔ ان کے بعد اشرف غنی جو بولنا شروع ہوئے تو رکنے میں ہی نہ آئے۔ ان کی طویل تقریر بے معنی جملوں سے اتنی اٹی ہوئی تھی کہ چند ایک بامعنی فقرے بھی اپنا اثر کھو بیٹھے ۔ جیسے ہی انہوں نے افغانستان میں خواتین کی آزادی اور غربت کے خاتمے کی بات شروع کی تو واضح ہوگیا کہ وہ اپنے ملک میں امن کے قیام کا بنیادی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں اور عالمی برادری کو مخصوص اصطلاحوں سے متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ایک ایسا ملک جہاں خانہ جنگی جاری ہے، اس کے ضلعوںکے ضلعے اور صوبوں کے صوبے طالبان کے ہاتھوں میں جارہے ہیں،جہاں کی حکومت اپنے دارالحکومت کی بھی پوری طرح حفاظت نہیں کر سکتی، وہاں کا صدر خواتین کی ترقی اور غربت کے خاتمے جیسی اصطلاحیں استعمال کرے گا تو دنیا اسے سوائے اس کے کیا مشورہ دے سکتی ہے کہ بھائی صاحب نیا فرنیچر خریدنے سے پہلے گھر کی آگ بجھا لیں تو مناسب ہوگا۔
افغان صدر کی تقریر کے بعد منجھے ہوئے سفارتکاروں کے لیے یہ کانفرنس عملی طور پر ختم ہوچکی تھی۔ اس لیے جیسے ہی وزیراعظم افغان صدر کو لے کر ہال سے نکلے ایک تہائی مندوبین بھی ہال سے باہر نکل کر وزارت خارجہ کے دفتر کے خوبصورت برآمدوں میں پڑے صوفوں پر آن بیٹھے۔ جس کی تقریر کی باری قریب ہوتی وہ اندر چلا جاتا اور بے دلی سے بول بال کر باہر آکر اپنے موبائل سے کھیلنے لگتا۔ کچھ ہی دیر میں عالم یہ ہوگیا کہ برآمدوں میں موجود سفارتکاروں کی تعداد ہال کے اندر بیٹھے ہوئے مندوبین سے کہیں زیادہ ہوگئی۔ کانفرنس ہال کی کرسیاں خالی اور ہال کے باہر پڑے صوفے بھرگئے تھے۔ حتٰی کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی تقریر بھی باہر بیٹھے ہوئے لوگوں کو اندر جانے پر مجبور نہ کرسکی اور وہ تقریر کرنے کے فوری بعد ہمارے مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کے لیے چلی گئیں۔ ان کے بعد تو کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ یوں لگا لیں کہ تقریر کے لیے سفارتکار کا نام اور ملک پکارنے کے ساتھ ساتھ یہ درخواست بھی کی جاتی کہ وہ پانچ منٹ 
سے زیادہ نہ بولیں ورنہ کانفرنس وقت پر ختم نہ ہوپائے گی۔ 
اسلام آباد میں ہونے والی قلبِ ایشیا کانفرنس اپنی نوعیت کی پانچویں کانفرنس تھی۔ دوہزار گیارہ میں جب اس سلسلے کی پہلی کانفرنس ترکی میں ہوئی تو خیال تھا کہ افغانستان کے تمام پڑوسیوں اور عالمی طاقتوں کو ایک جگہ بٹھا کر کوئی متفقہ حکمت عملی طے کی جائے گی جس کے تحت افغانستان میں امریکی مدد سے قائم حکومت اورافغان طالبان کے درمیان معاملات سلجھانے کا کوئی راستہ نکالا جائے گا تا کہ 2014 ء میں امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی لپیٹ میں نہ آجائے۔ اس مقصد کے لیے افغانستان کے متحارب گروہوں۔ افغان حکومت اور افغان طالبان۔۔کے درمیان مذاکرات کو باقاعدہ طور پر اس پہلی کانفرنس کے اعلامیے کا حصہ بنا یا گیا اور لکھا گیا کہ تمام ملک ان کے 
درمیان مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس شق میں پاکستان کا نام تو نہیں لیا گیا تھا لیکن سب جانتے تھے کہ پاکستان کو ہی مذاکرات کی راہ ہموارکرنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ پاکستان نے انتہائی فراست سے کام لے کر اس وقت کا انتظار کیا کہ چین بھی پاکستانی کوششوں کا حصہ اور گواہ بن جائے۔ یہ موقع 2014 ء میں آیا جب چوتھی قلبِ ایشیا کانفرنس بیجنگ میں منعقد کی گئی اور اس کے اعلامیے میں ایک بار پھرافغانستان کے اندر مذاکرات اور مفاہمت کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس کانفرنس کے بعد چین نے پاکستان کی مشترکہ کاوش سے اسی سال جولائی میں طالبان اور افغان حکومت مری میں ایک میز پر بیٹھ گئے۔ جیسے ہی مذاکرات آگے بڑھنے کی صورت بنی تو ملا عمر کی موت کا معاملہ سامنے آگیا اور یہ مذاکرات شروع ہوتے ہی ختم ہوگئے۔ملا عمر کے بعد طالبان کے نئے امیرملا اختر منصور نے دوبارہ مذاکرات کے لیے شرط رکھ دی کہ طالبان باغی گروہ کے طور پر مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ ان کا قطر دفتردنیا کے سامنے مذاکرات کرے گا۔اس شرط کے بعد صورتحال کچھ یوں ہے کہ پاکستان اور چین طالبان کا مطالبہ تسلیم کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن امریکہ اور افغان حکومت طالبان کے ساتھ ایک باغی گروہ کے طور پر تو بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن انہیں قانونی فریق کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا کہ وہ مناسب موقعے کے انتظار میں 'قلب ِایشیا‘ کانفرنسوں کی بے معنی مشق کرتا رہے اور کوئی متبادل راستہ تلاش کرے، جواسے مل گیا ہے۔
متبادل راستہ یہ ہے کہ افغانستان میں تمام فریقوں سے اپنی ضرورت کے مطابق تعلقات رکھے جائیں۔ ترکمانستان ، افغانستان ، پاکستان اور انڈیا گیس پائپ لائن اسی متبادل راستے پر اٹھنے والا پہلا قدم ہے۔ ابھی اس گیس پائپ لائن کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے تو افغانستان اور طالبان کے بارے میں عالمی تصورات بدلنے لگے ہیں۔ پاکستان اس امید پر اس منصوبے میں شامل ہوا ہے کہ افغانستان کے مشرقی علاقے میں طالبان سیاسی اور معاشی مدد کے عوض اس پائپ لائن کی حفاظت کریں گے اور مغربی حصے میں افغان حکومت اس کی مقدور بھر حفاظت کرے گی۔ اس منصوبے کی جزئیات کو جانتے ہوئے اس کی امریکی حمایت درحقیقت افغانستان میں بالواسطہ طور پر طالبان کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ بھارت کی اس منصوبے میں شمولیت اور گرم جوشی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ بھارت کو یہ نکتہ سمجھ آگیا ہے کہ اسے افغانستان کے اندر الجھنے سے گریز کرنا چاہیے اور خاص طور پر اس موقعے پر جبکہ پاکستان کا اثر ور سوخ اسے اس گیس سے محروم کرسکتا ہے جس کی اسے اشد ضرورت ہے۔ جس دن یہ پائپ لائن افغانستان کی حدود میں داخل ہوگی تو تصورات عمل میں ڈھلنے لگیں گے۔ پھر کوئی بھی قلبِ ایشیا کانفرنس طالبان کے قطر دفتر کے نمائندہ وفد کے بغیر مکمل نہیں کہلائے گی۔ البتہ پاکستان وزارت خارجہ کا یہ کارنامہ ضرور قابل ِ ستائش ہے کہ اس نے پانچ سال سے جاری قلبِ ایشیا کانفرنس جیسی بے فائدہ مشق سے بھی دنیا میں پاکستان کی عزت و توقیر کے اسباب پیدا کرلیے اور اس کی بین الاقوامی تنہائی کا خاتمہ کرڈالا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved