سندھ میں اس وقت ایک زبردست معرکہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف و ہ لوگ ہیں‘ جو حد سے بڑھی ہوئی کرپشن ‘کو ختم کرنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کرنے کے خواہش مند ہیں اور اس سلسلے میں رینجرز سے مدد لینے کے حق میں بھی ہیں۔جب رینجرز کو کراچی میں بلایا گیا‘ تو اس وقت حالات قابو سے باہر ہو چکے تھے۔ہر پولیس‘ ہر صوبائی ایجنسی‘ انتظامیہ کا ہر حصہ قانون شکنوں کے سامنے دونوں ہاتھ کھڑے کر چکا تھا۔ تاجروں سے بھتے لئے جا رہے تھے۔ اغوا برائے تاوان کی منڈی لگی ہوئی تھی۔سرکاری زمینوں پر قبضے ہو رہے تھے اور عام شہری جب کوئی پلاٹ خرید کر گھر بنانے کی تیاری کرتا تو غنڈوں کے کارندے فوراً نئے خریدارکو دھمکی دیتے کہ گھر بنانا چاہتے ہو تو جتنے میں پلاٹ خریدا ہے‘ اس سے آدھی رقم ہمارے حوالے کر دو‘ ورنہ یہاں گھر بنانے کی ہمت نہ کرنا۔ جو عام شہری زندگی بھر محنت کر کے‘ پونجی جمع کرتا کہ گھر بنا سکے تو اسے غنڈے گھیر لیتے۔ وہ بیچارہ گھر بنانے کے لئے یا تو غنڈوں کو ٹیکس ادا کرتا یا اپنا پلاٹ چھوڑ کر کسی اور شہر کا ر خ کر لیتا۔ کراچی میں ناجائز مکانات اور فلیٹ بنا کر ‘عام شہریوں کو کس طرح بیچے جا رہے تھے‘ اس کی تازہ مثال مون گارڈن میں ناجائز فلیٹوں کے سکینڈل کی شکل میں سامنے آئی ہے۔پاکستان کے سب سے ترقی یافتہ اور جدید شہر میں اتنی دیدہ دلیری سے کرپشن کی مثال شاید ہی کہیں اور موجود ہو۔ زمین سرکاری تھی۔ قابض کا پتہ نہیں تھا۔ عمارتوں کے نقشے بنے نہیں تھے۔ ایک شخص نے سرکاری زمین پر قبضہ کر کے‘ بغیر نقشے کے فلیٹس تعمیر کرنا شروع کر دیے۔ابھی تعمیر مکمل نہیں ہوئی تھی کہ عمارت میں کوئی خرابی نکل آئی۔ تعمیر شدہ عمارت گرا دی گئی۔ اس کے بعد کوئی اور صاحب آئے۔ انہوں نے اسی گری ہوئی عمارت کے ملبے سے سریا نکال کر‘ اسی کو نئی عمارت کے لئے استعمال کیا۔پھر سے فلیٹ بنائے اور اس کے مالکان حقوق بیچ کر چلتا بنا۔ متوسط طبقے کے لوگوں نے جعلی ملکیت پر فلیٹ بیچنے والے فراڈیوں کے فریب میں آکے‘ اپنی جمع شدہ پونجی لگائی اور اپنی طرف سے ذاتی گھروں میں منتقل ہو گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ کہانیاں میڈیا پر آچکی ہیں۔ میں نے اس کہانی کو بہت مختصر کر کے لکھا ہے۔یہ سب کچھ صوبائی حکومت کے زیر سایہ ہوا۔ قدم قدم پر جعل سازی کی گئی۔ حکومت بھی موجود تھی۔ اس کے محکمے بھی موجود تھے۔ پولیس بھی موجود تھی۔ لیکن اس فراڈ کو کوئی نہ روک سکا۔ یہ سکینڈل اس وقت ہوا ‘جب کراچی میں رینجرز موجود تھی لیکن اس کا دائرئہ اختیار انتہائی محدود تھا۔ چنانچہ وہ کچھ نہ کر پائی۔ یہ ہیں صوبے کے وہ آئینی حقوق جن میں وفاقی مداخلت پر احتجاج ہو رہا ہے۔
صوبائی حکومت اپنے ان سارے اختیارات کا تحفظ چاہتی ہے‘ جن کے تحت کرپشن کا بازار گرم رکھا جا سکے۔ حکومت میں آنے والے راتوں رات‘ کروڑ پتی اور ارب پتی بن جائیں۔ دبئی اور یورپ میں قیمتی زمینیں خریدیں۔ اپنے ملک میںمحلات بنائیں اور عیش و عشرت کی زندگی گزاریں۔ ان لوگوں نے نا م نہاد جمہوری آزادیوں کے نام پر‘ لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کیا کہ کوئی آسودہ حال شہری‘ کوئی تاجراور کوئی سرکاری محکمہ لوٹ مار کے اس کھیل سے محفوظ نہ رہ سکا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ کراچی کے شہری‘ اپنی اپنی بساط کے مطابق اس شہر سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ جس کے پاس سرمایہ تھا‘اس نے ملک کے دوسرے حصوں کی طرف رخ کر لیا یا بیرون ملک چلا گیا۔ جو چھوٹے دکاندار اور کاروباری لوگ ذاتی یا خاندانی وجوہ کی بنا پر‘ کراچی چھوڑ کے جانے کی پوزیشن میں نہیں تھے‘ وہ لاقانونیت کے اس ماحول میں مجبوراً رہنے لگے اور جو قیمت انہیں ادا کرنا پڑتی تھی ‘ وہ نا قابلِ بیان ہے۔ دکاندار یا کسی بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹو رکا مالک ہوتا تو اسے بھتے کی پرچی ملتی کہ اتنے لاکھ فلاں جگہ پہنچا دو‘ ورنہ انجام کے لئے تیار رہو۔جب رینجرز کو بلانے کا فیصلہ ہوا‘ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ کراچی کے شہریوں کو ہرطرح کے جرائم کا سامنا تھا۔ بھتہ خور ایک پرچی کے بدلے لاکھوں روپے بٹورتے اور اگر کسی وجہ سے بھتے کی رقم کا انتظام نہ ہوتا تو ہدف کو گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا۔ جس پولیس کے سید قائم علی شاہ گن گا رہے ہیں۔ اس وقت وہ پولیس کہاں تھی؟ اس کا بڑا حصہ غنڈوں‘ چوراچکوں‘ وڈیروں کے کارندوں پر مشتمل تھا۔ پولیس میں بھرتی کے لئے مختلف ریٹ مقرر تھے۔ جو بھی ریٹ کے مطابق قیمت ادا کرتا‘ اسے بغیر کسی ٹیسٹ کے بھرتی کر لیا جاتا۔ اس پولیس کی کہانیاں سندھ کے ہر گلی کوچے میں زبان زد عام ہیں۔جو وزیر اس پولیس کو بھرتی کرنے کا ذمہ دار ہوتا‘ اس نے اپنی وزارت کروڑوں میں خریدی ہوتی اور دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر وزارت کے معاوضے میںدی گئی رقم‘ جلد از جلد پوری نہ ہوئی اور اسے اچانک وزارت سے ہاتھ دھونا پڑ گیا تو وہ خود برباد ہو کر رہ جائے گا۔
چائنا کٹنگ کا قصہ تو آپ نے پڑھ یا سن رکھا ہو گا۔ متعلقہ سرکاری محکموں کے افسر سرکاری زمینوں میں ناجائز پلاٹ بنا کر‘ فروخت کیا کرتے تھے۔ ایک وفاقی محکمے نے چھاپا مار کر متعلقہ فائلیں اٹھائیں تو سندھ کی کرپٹ حکومت کے اوسان خطا ہو گئے۔ ڈر پیدا ہو گیا کہ اگر احتساب کرنے والے وفاقی محکموں نے صوبائی محکموں کا احتساب شروع کر دیا تو دونوں ہاتھ سے دولت کمانے والی صوبائی حکومت کا کیا بنے گا؟ اوران سب سے اوپر جو ڈان کسی جزیرے میں بیٹھ کر‘ وصولیاں کر رہا ہوتا ہے‘ اس کے غیظ و غضب سے بچنا ناممکن ہو جائے گا۔ سندھ کی صوبائی حکومت حقیقت میں ایک ڈان کے تابع ہے۔ یہ اسی ڈان کے بنائے ہوئے نظام کے تحت چلتی ہے‘جو وزارتوں اور بڑے بڑے عہدوں سے نواز کر‘ بھاری نذرانے وصول کرتا ہے۔ڈان کی ہوس زر یہاں تک بڑھ گئی کہ دوسرا کوئی ‘کراچی کے خزانے پر ہاتھ نہیں مار سکتا تھا۔ جس کو لوٹ مار کرنے کی خواہش ہوتی‘ ڈان کے در پر حاضر ہوتا۔ اس کی فیس ادا کرکے‘ لوٹ مار کا اجازت نامہ حاصل کر لیتا۔ کراچی کے ہر بڑے صنعت کار‘ چھوٹے تاجر حتیٰ کہ کباب پراٹھا بیچنے والے دکاندار کو بھی ڈان کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنا پڑتا۔ حکومتی اہلکار ہوں یا کاروباری طبقہ ہر کسی پر لازم تھا کہ وہ ڈان کا نذرانہ مقررہ طریقہ کار کے تحت‘ ڈان تک پہنچا دیتا۔
یہ نظام کامیابی سے چل رہا تھا لیکن عوام کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ یہ تھی وہ صورت حال جس میں رینجرز کو بلا کر ‘کراچی کے شہریوں کو ایک بے خطر اور پر امن زندگی دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈان صاحب بظاہر آئین کے تحت‘ کاروبار چلاتے تھے لیکن جب معاملات حد سے بڑھ گئے تو حکومت کو نوٹس لینا پڑا اور ڈان کے کارندوں کو بھی مجبور ہو کر‘ کراچی کے حالات سدھارنے کی خاطر رینجرز کی خدمات قبول کرنے کے لئے رضامند ہونا پڑا۔ جب تک رینجرز بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز‘ برائے تاوان اغوا کرنے والوں‘ لینڈ مافیائوں اور چور اچکوں کے خلاف کارروائیاں کرتی رہی‘ ڈان دل پر جبر کر کے خاموش رہے لیکن جب ڈ ان کے اپنے کارندے گرفت میں آنے لگے تو پریشانی شروع ہو گئی۔آئینی ماہرین بٹھائے گئے۔رینجرز کو جتنے عرصے کے لئے‘ کراچی میں خدمات کے لئے بلایا گیا تھا‘ وہ عرصہ پورا ہواتو ڈان نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ آئین کے مطابق معاملے کو اسمبلی میں لے کر جائو اور رینجرز کے ہاتھ پائوں باندھ دو۔ کراچی کے منہ بولے کپتان ‘کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ رینجرز کو‘عوام کے خلاف ہونے والے جرائم تک محدود کر دے اور میرے چیلوں کا کاروباربلا خوف وخطر جاری رہے۔منہ بولے کپتان ‘نے رینجرز کے ہاتھ پائوں باندھنے کے لئے جو ذمہ داریاں تجویز کی ہیں ان کی فہرست قابل مطالعہ ہے۔-1رینجرز‘ اہم شخصیات کے خلاف کارروائی سے پہلے وزیراعلیٰ سے اجازت لے گی۔-2 رینجرز‘ اعلی سرکاری افسران کے خلاف براہ راست کارروائی نہیں کرے گی۔ -3سرکاری دفاتر سے جرائم کی نشاندہی کرنے والے کاغذات حاصل نہیں کر سکے گی ۔ -4 فلاحی اداروں کے خلاف رینجرز کو‘ اینٹی ٹیررازم ایکٹ کے تحت براہ راست کارروائی کا اختیار نہیں ہو گا۔ یہ دنیا کا واحد حکومتی نظام ہو گا جس کے تحت لوٹ مار کرنے والے تمام قوانین سے محفوظ رہیں گے اور ملازمت پیشہ لوگ‘ تاجر اور صنعت کار پابند ہوں گے کہ اپنا مال و متاع احترام کے ساتھ‘ ڈان کے کارندوں کی خدمت میں پیش کر دیں ۔ خدانخواستہ کپتان کی پیش کردہ شرائط کے تحت‘ رینجرز کو کراچی میں رکھا گیا تو ہمیں ایک انوکھے نظام کا تجربہ کرنا پڑے گا۔ ڈان اور اس کے کارندوں کو آئین کے تحت‘ کھلی لوٹ مار کی اجازت ہو گی اور رینجرز ان کے تحفظ پر مامور ہو گی۔کراچی دنیا کا پہلا شہر ہو گا ‘جہاں ڈان کو قومی فوج کی خدمات دستیاب ہوں گی۔چوہدری نثار نے انکشاف کیا ہے کہ رینجرز اور سندھ میں خدمات انجام دینے والے دیگر سکیورٹی اداروں کے تمام اخراجات وفاق بھیجتا ہے۔ چوہدری صاحب یہ تمام ادائیاں چیک کے ذریعے کرتے ہوں گے۔ کیش بھیجا کریں ۔