تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     15-12-2015

خود کشی

چوروں سے ہمدردی اور چوکیدار کی تذلیل۔
یہ سیاسی خودکشی کا راستہ ہے۔ رینجرز کے قیام میں توسیع اور اختیارات کی توثیق سندھ اسمبلی سے کرانے پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ یہ پوچھنا بھی ضروری نہیں پانچ سال بعد اچانک معاملہ اسمبلی میں لانے کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ منتخب اداروں کی بالادستی کا خیال ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری اور اعترافی بیانات کے بعد کیوں آیا؟ 90 پر چھاپے تک تو رینجرز اختیارات سے تجاوز نہیں کر رہی تھی‘ اب راتوں رات کیا ہو گیا کہ اس کے اختیارات محدود کرنے کی ضرورت پیش آ گئی؟ ع
کب کھلا تجھ پر یہ راز ''اقرار‘‘ سے پہلے کہ بعد
اپنے اختیارات سے تجاوز کسی کو زیبا نہیں۔ حکومت‘ فوج‘ رینجرز‘ پولیس نہ انتظامیہ کو۔ مگر نیشنل ایکشن پلان کا چھٹا نکتہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی خوشدلانہ تائید و حمایت سے منظور ہوا اور کراچی میں ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام رینجرز کی ذمہ داری قرار پائی۔ رینجرز جب تک نسلی‘ لسانی اور مذہبی بنیادوں پر ملوث دہشت گردوں کے خلاف سرگرم عمل رہی‘ حتیٰ کہ لیاری گینگ نشانہ بنا‘ صوبائی حکومت‘ خوشی کے شادیانے بجاتی رہی مگر جونہی شاہ کے مصاحب قابو میں آئے صوبائی حکومت کو اپنے اختیارات‘ صوبائی خود مختاری اور وفاقی اداروں کی مداخلت سب کچھ یاد آ گیا حتیٰ کہ مرنجاں مرنج سید خورشید شاہ بھی بول پڑے۔
یہ معاملہ اسمبلی میں لے جانے پر بھی شاید کسی کو اعتراض نہ ہو مگر اسمبلی کا اجلاس بلا کر بھی زیر بحث نہ لانا‘ قائم علی شاہ سے لے کر مولا بخش چانڈیو تک روزانہ بیان بازی کرنا اور عروس البلاد میں امن و امان کے قیام کے لیے اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کر فرض ادا کرنے والے ادارے کو قانونی چھتری سے محروم رکھنا‘ اسے کوچہ و بازار میں رسوا کرنے کے مترادف ہے۔ چودھری نثار علی خاں نے اس پر اعتراض کیا اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے علاوہ شہر کے تاجر و صنعت کار احتجاج کناں ہیں۔ وہ امن کی اس نعمت سے محروم نہیں ہونا چاہتے جو گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے ان کے نصیب میں ہے۔
پیپلز پارٹی اور صوبائی حکومت رینجرز کے اختیارات پر جو قدغن لگانا چاہتی ہے‘ وہ خود کشی کا راستہ ہے۔ اگر رینجرز کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے سہولت کار کسی سیاستدان اور اعلیٰ افسر کو گرفتار کر سکتی‘ نہ کسی سرکاری محکمے پر چھاپہ مار سکتی ہے‘ اور نہ سرکاری دفاتر اور فلاحی اداروں کے خلاف کارروائی کا اختیار رکھتی ہے‘ تو پھر اس کی کراچی میں تعیناتی مذاق ہو گی۔ یہ بھی شنید ہے کہ ہائی پروفائل شخصیات کے خلاف ٹیرر فنانسنگ‘ اغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری اور کرپشن کے ثبوت ملنے کے باوجود رینجرز کو پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ گرفتاری یا چھاپے کے لیے پہلے وزیر اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو اطلاع دے‘ پھر کارروائی کرے تاکہ حکمرانوں کے چہیتے افراد کو فرار ہونے میں آسانی رہے اور وہ محفوظ قلعوں میں بیٹھ کر رینجرز ہی نہیں آپریشن کا بھی مذاق اڑا سکیں۔ شرجیل میمن‘ منظور کاکا اور دیگر اس کی نمایاں مثال ہیں۔
1992ء میں کراچی آپریشن جس انجام سے دوچار ہوا‘ اس کی اہم ترین وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت کی وفاقی اور صوبائی حکومت یکسو نہ تھی۔ جنرل آصف نواز کو ہمیشہ یہ گلہ رہا کہ آپریشن کے فیصلے کے بعد جھنڈے والی کار نے 90 کا رخ کیا‘ الطاف بھائی اور دیگر کو اطلاع دی اور جب آپریشن شروع ہوا تو آپریشن کی منظوری دینے والوں نے واویلا شروع کر دیا کہ ہمیں تو اندرون سندھ ڈاکوئوں کی سرکوبی کا چکمہ دیا گیا تھا۔ گویا اندرون سندھ ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن درست‘ مگر پاکستان کی معاشی شہ رگ کو قاتلوں اور دہشت گردوں سے چھڑانا اختیارات سے تجاوز۔ یہی صورتحال اب ہے۔ رینجرز نے اگر یہ قدغن قبول کر لی تو کبھی کوئی مجرم گرفتار نہیں ہو پائے گا کیونکہ سرکاری ایوانوں میں بیٹھے دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز‘ اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کے علاوہ انہیں مالیاتی معاشی آکسیجن فراہم کرنے والوں کے ہمدرد بھی قبل از وقت آگاہ ہوں گے اور وہ منظور کاکا کی طرح یہ جا‘ وہ جا۔
دنیا میں بڑے‘ طاقتور اور بااثر مجرموں کے خلاف آپریشن منادی کر کے نہیں ہوتے‘ راز داری برتی جاتی ہے اور فرار کے راستے مسدود کیے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات شروع کیے تو پیپلز پارٹی کو یہی اعتراض تھا کہ اس طرح انہیں سنبھلنے اور فرار ہونے کا موقع مل جائے گا‘ مگر اب یہی کھیل رینجرز کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ کراچی کے دو کروڑ عوام کے امن و سکون اور مفاد کو دائو پر لگا کر دو چار ایسی شخصیات کے مفاد اور مرضی کو ترجیح دی جا رہی ہے‘ جن کی پاکستان میں اب دلچسپی لوٹ مار اور اقتدار کے سوا ہے ہی نہیں۔ مال و دولت باہر‘ اولاد باہر اور قیام باہر ۔ مگر جن بے چاروں نے کراچی اور ملک میں رہنا ہے انہیں احساس تحفظ سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ انداز فکر یہ ہے کہ ہر دہشت گرد‘ مجرم اور سہولت کار کو ختم کر دو مگر میرے قریبی اور وفادار بدمعاش‘ غنڈے‘ دہشت گرد‘ مجرم‘ لٹیرے اور سہولت کار کو کچھ نہ کہو ورنہ‘ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ رینجرز کو دس روز تک اختیارات سے محروم رکھنا اینٹ سے اینٹ بجانے کے سوا کیا ہے؟ 
دنیا بھر میں احتساب غیر مشروط اور کسی امتیاز کے بغیر ہوتا ہے۔ امریکہ کے گن گانے والی اشرافیہ کو علم ہے کہ رچرڈ نکسن کو عہدہ صدارت پر رہتے ہوئے مواخذے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جھوٹ بولنے کی سزا عہدئہ صدارت سے معزولی کی صورت میں ملی مگر یہاں وعدہ شکنی کا اعتراف کرنے اور معاہدے کو قرآن و حدیث نہ سمجھنے والوں کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ اپنا عرصہ ٔصدارت بآسانی پورا کریں‘ کوئی عدالت تعرض کرتی ہے نہ پارلیمنٹ باز پرس اور نہ فرینڈلی اپوزیشن معترض ہے۔ میثاق جمہوریت زندہ باد۔
باشعور عوام نے دودھ کی رکھوالی پر جن باگڑ بلّوں کو مامور کیا ہے ان کے حوصلے اب اس قدر بلند ہو چکے ہیں کہ وہ عوام اور وطن کی حفاظت پر مامور اداروں کو بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں‘ کراچی آپریشن کو ناکام بنانے پر تل گئے ہیں اور دہشت گردوں کو توانائی بخش رہے ہیں۔ گزشتہ روز پارا چنار اور اس سے پہلے مختلف مقامات پر بم دھماکوں کے ذریعے دہشت گردوں نے ایک بار پھر باور کرایا ہے کہ وہ ابھی برسر جنگ ہیں‘ ختم نہیں ہوئے۔ کراچی میں رینجرز اور فوجی اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ سے بھی یہی پیغام ملا ہے‘ مگر کوئی اور نہیں حکومت آپریشن کرنے والوں کے حوصلے پست کرنے میں مشغول ہے۔ وفاقی حکومت بھی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی میثاق جمہوریت کے تقاضے نبھا رہی ہے۔ چودھری نثار علی خاں ویڈیو منظر عام پر لانے کی دھمکی دیتے ہیں‘ عمل نہیں کرتے کیونکہ اس ویڈیومیں مسلم لیگ ن کے کچھ بڑوں کے کرتوت بھی افشا کیے گئے ہیں۔اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں لہٰذا کسی کو نامۂ اعمال دکھانا منظور نہیں۔
اگر صوبائی حکومت نے مجوزہ قرارداد کی منظوری کے بعد رینجرز کو بڑے لوگوں کے خلاف کارروائی سے روک دیا‘ اور رینجرز بھی پولیس کی سطح پر اُتر کر صرف چھوٹی مچھلیوں کو نشانہ بنانے لگی تو یہ مذاق عوام کو پسند آئے گا نہ قدرت کو۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ''پچھلی اُمتوں کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ بڑوں اور طاقتوروں کے لیے الگ اور چھوٹوں‘ کمزوروں کے لیے الگ قوانین بنا کر معاشرے میں تفریق پیدا کرتی تھیں‘‘ اقبال نے کہا: تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے۔ حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔ اگر ڈاکٹر عاصم حسین اور لیاری کے کسی اللہ ڈینو کے ساتھ یکساں سلوک ممکن نہیں تو پھر اس تباہی کو کون ٹال سکتا ہے جو ناانصافی‘ تمیز بندہ و آقا اور عدم مساوات پر تُلے معاشرے کا مقدر بنتی ہے۔ یہ اجتماعی خود کشی کا راستہ ہے جو سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں نے اپنے علاوہ موجودہ بُرے بھلے جمہوری نظام کے لیے چنا ہے۔
خواہش یہ نظر آتی ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ وفاقی حکومت‘ فوج اور رینجرز کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ اوّل تو وہ سرکش لٹیروں کے سامنے سرنڈر کریں‘ ایان علی کی طرح عاصم حسین اور دیگر کو بھی محفوظ راستہ دیں بصورت دیگر احتساب کا دائرہ بعض وفاقی اور پنجاب کے صوبائی وزیروں تک بڑھائیں ورنہ گورنر راج لگا کر 1993ء اور 1998ء کی تاریخ دہرائیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ ان کے خیال میں اگر جمہوریت لٹیروں‘ ٹھگوں اور سہولت کاروں کا بچائو بھی نہیں کر سکتی تو پھر جائے جہنم میں۔ 
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلائو تو کیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved