تعلقات میں عرصۂ دراز سے چھائے جمود کو توڑ تے ہوئے بھارت اور پاکستان نے جامع مذاکرات کو نئے سرے سے بحال کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔پچھلے سال لوک سبھا اور حال ہی میں اختتام پذیر بہار کے صوبائی انتخابات میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کو انتہا تک لے جانے کے بعد، 18ماہ پرانی وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کا یقینا یہ ایک بڑا فیصلہ ہے۔اپنی حلف برداری کی تقریب میں جنوب ایشیائی ممالک اور موریشئس کے سربراہان کو مدعو کرکے مودی نے امن اور خیر سگالی کی امیدیں جگائی تھیں، مگر جوں جوں اس دعوت کے اسرار ظاہر ہوتے گئے ‘یہ امیدیں معدوم ہوتی گئیں۔ بھارت کو علاقائی سپر پاور اور اپنے آپ کو عالمی لیڈر منوانے کے زعم میں مودی نے نہ صرف پاکستان، بلکہ نیپال کے ساتھ بھی تعلقات بگاڑ لیے۔بنکاک میں قومی سلامتی کے مشیروں کی میٹنگ اور وزیر خارجہ سشما سوراج کو اسلام آباد میں افغانستان سے متعلق ''ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس میں بھیجنے کا فیصلہ اور دو طرفہ مذاکرات کی بحالی یقینا نیک شگون ہیں، مگر بقول کانگریسی لیڈر منی شنکرآئیر، اس عمل کو شاک پروف بنانے کی ضرورت ہے۔ مذاکرات کی بحالی کے پیچھے کئی محرکات ہیں، ان میں سب سے اول افغانستان کی صورت حال ہے۔ چونکہ اگلے سال ''ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس بھارت میں منعقد ہونے والی ہے، اس لیے سشما سوراج کی اسلام آباد کانفرنس میں عدم شرکت کی صورت میں نئی دہلی میں ہونے والی اگلی کانفر نس میں پاکستان کی شرکت مشکوک ہوجاتی‘ جس سے افغانستان سے متعلق اس کانفرنس کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔پچھلے ماہ بھارت کے دورے کے دوران اعلیٰ افغان اہلکاروں نے بھارت اور پاکستان سے باہمی تعلقات بہتر بنانے کی اپیل کی تھی، اور بر ملا کہا تھاکہ اس کا خمیازہ افغانستان کو بھگتنا پڑتا ہے۔ دوسرا اہم محرک جموں کشمیر میں ابتر ہوتی ہوئی صورت حا ل بھی ہے۔ حکمران پی ڈی پی اور بی جے پی اتحاد کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے 15اکتوبر کو مودی کے ساتھ دہلی میں ملاقات میں خاص طور پر یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ کشمیر میں تعمیر و ترقی، پاکستان کو ساتھ لیے بغیر ممکن نہیں‘ اس لیے امید کی جارہی تھی کہ7نومبر کو ا پنے پیش روئوں کی طرح مودی سرینگر کی ریلی میں کوئی سیاسی یا سفارتی پیغام ضرور دیں گے۔مگر نہ صرف انہوں نے عوام کو مایوس کیا، بلکہ مفتی محمد سعید کے وقار پر بھی سوالیہ نشان لگاکر واپس آگئے۔اب وزیر اعلیٰ نجی محفلوں میں پارٹی کے لیڈروں کی ناراضگی دور کرنے کے لیے کہہ رہے تھے، کہ وزیر اعظم نے گو کہ سرینگر میں کوئی اعلان تو نہیں کیا، مگر مذاکرات کی بحالی اور امور کو حل کرنے کی طرف پیش قدمی کی یقین دہانی کراگئے ہیں۔پچھلے ماہ دورہ ٔبرطانیہ سے قبل لندن میں احتجاج کو سبوتاژ کرنے اور اس کی شدت کم کرنے کیلئے مودی کے دست راست رام مادھو نے بیرون ملک کئی کشمیری لیڈروں سے ملاقاتیں کرکے انہیں بھی کچھ اسی طرح کی یقین دہانیاں کرائی تھیں۔
سوراج کے اسلام آباد دورہ کے بعد جاری مشترکہ بیان میں بتایا گیاکہ کشمیر، انسدادِ دہشت گردی اور سکیورٹی سمیت تمام مسائل پر مذاکرت کا دوبارہ سے آغاز ہو گا۔فرانس کی راجدھانی پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے حاشیے پر وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے پاکستانی ہم منصب میاں نواز شریف کے درمیان دس روز قبل ہوئی ملاقات کے بعد دوطرفہ تعلقات میں آنے والی گرم جوشی کو آگے بڑھاتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹری جامع مذاکرات کے شیڈول اور طریقہ کار طے کرنے کے لیے ملاقی ہونگے۔ سوراج نے کہا کہ جامع مذاکرات کو دوبارہ بحال کرنے پر دونوں ممالک متفق ہیں۔ انہوںنے کہا ''ان جامع مذاکرات میں پہلے کی طرح تمام حل طلب مسائل پر مذاکرات کئے جائیں گے اور ان میں کچھ نئی چیزیں بھی شامل کی گئی ہیں‘‘۔ دونوں لیڈران نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ بنکاک میں قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان دہشت گردی اور سکیورٹی امور پر کامیاب مذاکرات ہوئے اور فیصلہ کیاگیا کہ قومی سلامتی مشیران
دہشتگردی سے جڑے تمام امور کے حل کے لیے مشترکہ طور پر جاری رکھیں گے‘جبکہ پاکستان کی جانب سے بھارت کوممبئی ٹرائل کوجلدمنطقی انجام تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
مذاکرات میں جہاں بھارت دہشت گردی کو ایجنڈے کا اہم حصہ بنانے میں کامیاب ہوا، وہیں پاکستان کے لیے باعث اطمینان ہے کہ کشمیر کو بھی اتنی ہی فوقیت دی گئی ہے؛تاہم بھارت کے لیے ایک اہم رعایت ہے کہ 18 سال قبل طے شدہ میکانزم میں ترمیم کرکے مربوط یعنی composite کو ہٹا کر مذاکرات اب صرف جامع comprehensiveفریم ورک کے تحت ہوں گے ۔ مئی 1997ء میں مالدیپ میں اس وقت کے وزیر اعظم اندر کمار گجرال نے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کے ساتھ اس میکانزم کی داغ بیل ڈالی تھی۔پاکستان کے اصرار پر لفظ' مربوط‘ کا اضافہ کیا گیا تھا، تاکہ حل طلب امور یعنی تجارت، سیاچن، سرکریک، وولر بیراج، امن و سلامتی وغیرہ امور پر پیش رفت کشمیر پر پیش قدمی کے ساتھ منسلک رہے۔مگر اب نئے میکانزم کے تحت سبھی امور پر جداگانہ پیش رفت کو ممکن بنایا گیا ہے۔بھارت کیلئے باعث اطمینان یہ بھی ہے کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے لیے مشیر جنرل ناصر خان جنجوعہ کی صورت میں پاکستان آرمی کے ساتھ ایک چینل اس کے مذاکرات کاروں کو مہیا ہوگیا ہے۔یہاں یہ احساس شدت اختیار کرتا جارہا تھاکہ سابق صدر پرویز مشرف کی معزولی کے بعد مغربی ممالک کے برعکس بھارتی مذاکرات کار، پاکستان میں پاور کے ایک اہم جزو آرمی کے ساتھ براہ راست رابطہ میں نہیں ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے جب مشیر برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعہ کا تعارف کروایا تو وزیر خارجہ سوراج نے کہا ''جی ان کا بہت ذکر سنا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اگلے سال سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کریں گے۔ سوراج نے کہا ''ستمبر2016ء میں پاکستان میں سارک سربراہ کانفرنس ہورہی ہے اور ہمارے وزیراعظم نریندر مودی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئیں گے اورمیں بھی وزیر اعظم کے ہمراہ ہوں گی‘‘۔ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ماحول میں گرمجوشی ہے اور اسی گرمجوشی کو بڑھانے کیلئے وہ پاکستان آئی ہیں۔
اس ماحول کو قائم رکھنے اور امن مساعی کوآگے بڑھانے کی سمت میں مودی کوسب سے بڑا چیلنج اپنی ہی پارٹی کے سخت گیر عناصر کی طرف سے ہے۔ ان کے برسراقتدار آتے ہی ،ہندوانتہاپسند تنظیمیں پاکستان کے خلاف زہر اگلتی رہی ہیں اور بھارت کے اندربھی وہ مسلمانوں کے تئیںاودھم مچائے ہوئے ہیں۔ یہ اسی کاشاخسانہ ہے کہ دلی اوربہارمیں حکمران بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ اقتصادی محاذ پر ناکامی نے بھی بی جے پی کے سامنے حکومتی وسیاسی مستقبل کے حوالے سے کئی تیکھے سوالات کھڑے کئے ہیں۔ بہر کیف سیاسی اور سفارتی حلقے پُرامید ہیں کہ بنکاک مذاکرات، بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اور وزیراعظم مودی کے متوقع دورہ پاکستان سے سرد مہری کی برف پگھلے گی اور دونوں ملکوں میں تنائوکم ہوگا۔ بہتر یہی ہوگا کہ مودی حکومت متکبرانہ رویہ چھوڑ کرزمانے کی نئی حقیقتوں کو جلد از جلد تسلیم کر کے حل طلب امور کی طرف واضح پیش قدمی کرے ، تو یہ خود اس کی تعمیرو ترقی کے لئے نیک شگون ہوگا ۔مگر پاکستان کے لیے بھی لازم ہے کہ اس بات کا ادراک رکھے کہ ماضی میں مذاکرات کی آڑ میں کشمیر میں حقوق انسانی کا بھی کھل کر مذاق اڑایا گیا ہے۔ اس لیے بھارت کو اعتماد سازی کے کچھ عملی اقدامات لاگو کروانے پرزور دے، تاکہ مذاکرات کی بحالی کی خوشگوار ہوا سرینگر اور اس کے اطراف میں بھی پہنچے۔اس میں لازماً کالے قوانین کا خاتمہ سر فہرست ہونا چاہئے۔ 1978ء میںاس خطے میں پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذعمل میں لایا گیا جو کہ بظاہر جنگل سمگلروں کے خلاف استعمال میں لایا جاناتھا لیکن یہ مخالفا نہ سیا سی نظریہ رکھنے والوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جاتا رہاہے۔1990ء سے اب تک یہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 48,375 لوگ گرفتار ہوئے جن میں نوجوان،بزرگ ‘اسکولی بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔4کو سزائے موت ،25کو عمر قیدجبکہ2755کو10سے 17سال تک کی سزا اور18701کو 5برس کی قید ہوئی۔مارچ2011ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ جاری کرکے اس بات کا انکشاف کیا کہ ریاست جموں و کشمیر میں مقدمہ چلائے بغیر سینکڑوں نوجوانوں کو جیل خانوں میں بند کر کے رکھا گیا ہے۔ 1990 ء میں ''افسپا‘‘ کے نام سے ایک اور تلوار کشمیریوں پر گرا دی گئی۔ افسپایعنی آرمڈفورسز اسپیشل پاورس ایکٹ کے سیکشن 4کے تحت فوج کا کوئی بھی جونیئرکمیشنڈ افسر شک کو بنیاد بناکر کسی بھی کشمیری پر کوئی بھی ملٹری کارروائی کرسکتاہے۔ وادیٔ کشمیر اور جموں صوبہ کے پیر پنچال رینج میں آ ج بھی ہزاروں زیر حراست لاپتہ افراد کاکوئی اَتہ پتہ نہیں ہے۔ سرکار میں شامل لوگ انسانی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرکے لوگوں سے ووٹ حاصل کر کے ا نہیں ہر دفعہ الّو بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور مختلف فورسز ایجنسیاں سرکار کو نظر انداز کرکے اپنے انداز سے آمرانہ طرز عمل کے ذریعے سے کام کرتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں اس وقت 27000 بیوائیں اور 22000 یتیم بچے کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، حالانکہ غیر سرکاری ایجنسیوں کے مطابق اصل تعداد سرکاری تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ کشمیر یونیورسٹی کی ایک سٹڈی کے مطابق 2008 ء میں بیوائوں کی تعداد 32400 تک پہنچ چکی تھی۔ امید ہے کہ مذاکرات کی بحالی سبھی مظلومین کے لیے نوید سحر ثابت ہوگی۔ اگر یہ زخموں کا مداوا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تو ناکامی کی صورت میں خطے کو خاصی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔