تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     15-12-2015

بد قسمت

دستاویزی فلم کا عنوان ہے Into the universe with Stephen Hawking. The Story of everything۔یہ انٹر نیٹ پر موجود ہے ۔ تخلیق اور کائنات میں دلچسپی رکھنے والوں، سوچنے اور غور و فکر کرنے والوں کے لیے یہ خزانے کی مانند ہے لیکن صرف سائنسی حقائق تک۔سائنسی حقائق سے باہر جہاں کہیں کوئی تجزیہ پیش کیا گیا ہے ، وہ سطحی ہے۔ یہاں سے آپ وہ کائناتی حقائق ضرور لے سکتے ہیں ، ہزاروں برس کی انسانی تحقیق جن پر مہرِ تصدیق لگا چکی اور جن کی حقانیت کے بارے میں اب شک و شبے کی گنجائش نہیں ۔یہاں سے آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
تاریخ، مذہب اور سائنس سمیت، سب سے پہلے طالبِ علموں کو حقائق کا علم ہونا چاہیے ۔ نائن الیون کو دو طیارے ٹکرا کر جڑواں مینار گرا دیے گئے تھے، یہ ایک حقیقت ہے، جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا ۔ براہِ راست اور بالواسطہ ذمہ دار کون تھا؟ اس بارے میں مختلف لوگ‘ مختلف نظریات رکھتے ہیں ۔ اسی طرح افغانستان اور عراق پر امریکی حملے حقیقت تھے۔ مقاصد ، کامیابی یا ناکامی کے عوامل پر بحث ہمیشہ جاری رہے گی ۔ کسی بھی موضوع پر سب سے پہلے ہمیں حقائق معلوم کرنے چاہئیں ۔ 
اس فلم میں کم و بیش چودہ ارب سال کی داستان کے وہ حصے بیان کیے گئے ہیں ، اب تک کی تحقیق میں آدمی جن تک رسائی حاصل کر سکا ہے ۔ مصنف سٹیون ہاکنگ ہے اور وہی داستان گو بھی؛البتہ ایک دوسری آواز رُک رُک کر بولنے والی اس کی مشینی آواز کی مدد کرتی ہے ۔ جس بنیاد پر تجزیات کو میں سطحی کہہ رہاہوں،اس کا سبب یہ ہے کہ کائنات کی داستان میں ، جہاں کہیں کوئی فیصلہ کن عمل سائنسدان کے حیطۂ علم میں نہیں آتا، وہاں وہ قسمت (Good Luck)کو کھینچ لاتاہے ۔جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے ، اتفاقات کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ 
آدمی جب رک کر جائزہ لیتا ہے توتخلیق کی یہ پوری کہانی اتفاقات پر ہی انحصار کر رہی ہوتی ہے ، جس کے آخر میں ہمیں انسان جیسی عظیم الشان عقل رکھنے والی مخلوق نظر آتی ہے ۔ عجیب بات یہ کہ کم و بیش ایسا ہر اتفاق کائنات کی اس موجودہ شکل تک ارتقا، نتیجتاً ایک سیارے پر ہزاروں پیچیدہ جانوروں اور ذہین فطین انسان کی پیدائش میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے ۔ 
کائنات کی تخلیق میں کششِ ثقل نے بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ بڑے دھماکے (Big Bang) کے بعد دنیا کا پہلا عنصر ہائیڈروجن گیس بکثرت وجود میں آیا۔ ہر طرف ہائیڈروجن کے عظیم الشان بادل بکھرے تھے ۔ سائنسدان کہتا ہے کہ ہائیڈروجن کے ایٹم ہر طرف اگر ایک ہی تعدا د میں بکھرے ہوتے تو وہ ایک دوسرے کی کشش کو زائل کر دیتے ۔ اتفاق سے ان کی تعداد میں فرق تھا اور یوں زیادہ تعداد والے ایٹموں نے کم تعداد والوں کو اپنی طرف کھینچنا شروع کیا۔ اس حسین اتفاق کی وجہ سے کششِ ثقل کو کام کرنے کا موقع ملا۔ بادل گہرے ہوتے چلے گئے ۔ یوں ایک خاص درجہ ٔ حرارت اور دبائو تک پہنچنے کے بعد ہائیڈروجن پر مشتمل پہلے سورج وجود میں آ سکے۔ انہی سورجو ں میں آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن، لوہا ، غرض کہ کائنات کے دیگر تما م عناصر نے پید ا ہونا تھا۔ دوسرے الفاظ میں ، انسان اور دیگر تمام جانوروں کو بھی انہی سورجوں میں آنکھ کھولنا تھی۔ سٹیون ہاکنگ کہتا ہے کہ ان سورجوں کی پیدائش ایک اتفاق تھی !
ہاکنگ یہ نہیں جانتا کہ وہ کون سے عوامل تھے، جنہوں نے اس بڑے دھماکے کو ممکن بنایا۔ وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ دھماکے کے بعد جب اینٹی میٹر اور میٹر کے ذرات ایک دوسرے کو فنا کر رہے تھے تو خوش قسمتی سے میٹر (Matter)کے ذرّات ذرا زیادہ تھے اور انہی بچ نکلنے والے ذرات نے بعد میں یہ دنیا بنائی ۔ ...ایک اور اتفاق۔ 
سورج وجود پاتے گئے ، کہکشائیں بنتی چلی گئیں ۔ خوش قسمتی سے ہر کائنات کے مرکز میں ایک خوفناک قوت والا بلیک ہول وجود میں آیا، جس نے ان کہکشائوں کو ایک خاص شکل اور حرکت عطا کی۔ یہ کہکشائیں اپنے بلیک ہولز کے گرد آہستہ آہستہ حرکت کرنے
لگیں۔ آٹھ ارب سال بعد ملکی وے کے مرکز سے آٹھ ہزار نوری سال کی دوری پر ایک زرد سورج نے جنم لیا۔ خوش قسمتی سے اس کے تیسرے سیارے کا فاصلہ زندگی کے لیے نہایت مناسب تھا۔ بعد میں جب یہاں زندگی پنپنے لگی تو ایک خوش قسمتی یہ ہوئی کہ یہاں زیرِ زمین پگھلے ہوئے لوہے نے طاقتور مقناطیسی میدان پیدا کیے کہ جاندار شمسی طوفانوں سے محفوظ رہیں ۔ خوش قسمتی سے اس زمین کی تشکیل میں کوئلے، تیل، گیس اورلوہے سمیت وہ سب عناصر اتنی مقدار میں موجود تھے ، جو کروڑوں سال کی حیوانی ، بالخصوص انسانی ضروریات پوری کر سکتے تھے۔ مزید خوش قسمتی یہ کہ یہاں ایسے بیکٹیریا اور پودے وجود میں آئے، جو ہوا میں آکسیجن کا تناسب برقرار رکھتے رہے ۔ اسی آکسیجن کے ذریعے زندگی سانس لیتی، اپنی توانائی بحال رکھتی ہے۔ اس ضمن میں 2.3ارب سال پہلے وقوع پذیر ہونے والا ایک واقعہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے ، جب ایک خاص قسم کے بیکٹیریا نے ہوا میں آکسیجن کی مقدار میں انتہائی اضافہ کیا۔ اسے Great Oxygenation Eventکہاجاتا ہے ۔ یہ بھی اتفا ق تھااور آج ہم اسی کی وجہ سے سانس لینے کے قابل ہیں ۔ 
اوزون ایک خوش قسمتی تھی۔ خوش قسمتی سے زمین کے قریب ہی ایک بڑا چاند موجود تھا؛لہٰذا اس کا مدار خاصا مستحکم رہتاہے ۔زمین 23.5 ڈگری کے زاویے پر اپنے محور پر جھکی ہوئی ہے ۔ اس زاویے پر موسموں کی شدت کا انحصار ہوتاہے ۔ خوش قسمتی سے زندگی کی پرورش میں یہ زاویہ نہایت مناسب تھا۔ خوش قسمتی سے کرئہ ہوائی کا دبائو نہایت مناسب ثابت ہوا۔ خوش قسمتی سے کرئہ ارض کی کششِ ثقل اتنی مناسب ہے کہ ہم آسانی سے اپنے روزمرّ ہ امور ، جیسا کہ برتن میں پانی انڈیلنا وغیرہ انجام دیتے ہیں۔ خوش قسمتی سے جاندار خلیات ایک کامل درستگی کے ساتھ اپنی نسل بڑھانے لگے ۔ انہیں درست طور پر جوڑ کر عضو تشکیل دینا آگیا اور یوں پیچیدہ جانور تخلیق ہوئے ۔ایک بڑا اتفاق یہ بھی تھا کہ بقا کی جنگ میں ایک دوسرے کو ہڑپ کرجانے والے جانداروں میں اولاد کی محبت پیدا ہوئی ورنہ وہ اپنی اولاد کھا جاتے۔ یوں جانور پھلتے پھولتے رہے ۔ 
خوش قسمتی سے کر ئہ ارض پر پانی کا ایک چکّر (Water cycle)وجود میں آیا۔ پانی جب بخارات میں تبدیل ہوتا تو ہوا کششِ ثقل کو توڑتے ہوئے اسے اوپر اٹھانے میں کامیاب رہتی ۔بلندی پہ جا کر اتفاق سے یہ بخارات دوبارہ گہرے ہوتے، ان کا وزن بڑھتا اور کششِ ثقل ہی کے تحت وہ واپس زمین کا رخ کرتے۔ پانی آسمان سے برستا، زیرِ زمین جا ٹھہرتا۔ آج اسی زیرِ زمین پانی پر انسانی آبادیاں قائم ہیں۔ پانی کا یہ چکر ایک اتفاق تھا۔ 
یہاں خوش قسمتی کی انتہا یہ ہوئی کہ چیونٹی سے ہاتھی تک، سب جانداروں کی عقل ایک ہی جگہ پر رک گئی ۔ ستاروں کے مرکز میں پیداہونے والے جن عناصر سے انسان وجود میں آیا تھا، وہ اس قدر عقل مند ہو گیا کہ ان ستاروں ، کہکشائوں اور کائنات کا جائزہ لینے لگا۔وہ Story of everything بیان کرنے لگا۔ 
یہاں ایک بنیادی بات سمجھ میں آتی ہے ۔ خدا یہ کہتا ہے کہ جسے وہ ہدایت دینا چاہے ، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتااور جسے وہ گمراہ کردے، اس کے لیے کوئی ہدایت نہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved