تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     16-12-2015

ڈھکنی سے اک شہر ڈھکا…

ایک اور سولہ دسمبر آ گیا ہے! زخم ہرے ہو گئے ہیں!
کیا شہر تھا ڈھاکہ! جعفر طاہر نے کہا تھا ؎
ڈھکنی سے اک شہر ڈھکا اور ڈھاکہ جس کا نام!
پلٹن میدان سے لے کر بیت المکرم مسجد تک...اور اس سے آگے بُوری گنگا تک...دل ہے کہ بکھرا پڑا ہے! دھان منڈی سے نیو مارکیٹ تک نِیل کھیت سے پاکستان چوک تک! ستارے ہیں کہ ٹوٹ ٹوٹ گرتے ہیں! آنکھیں ہیں کہ خون کے آنسو روتی ہیں!
میمن سنگھ تک ساتھ چلتا ہوا گھنا جنگل‘ شیرپور گھاٹ‘ جھیل پر تیرتے کنّول‘ نوکوں میں بیٹھے مانجھی! دھان کی سبز فصلیں! آم‘ املی اور کٹھل کے پیڑ‘ کیلوں کے باغات! چیکو‘ انناس اور شریفہ کے انبار کے انبار! ٹوکریوں میں لیچی رکھے قطاروں میں بیٹھ کر بیچنے والے بیوپاری! کیا کُچھ یاد نہیں آتا! 
سلہٹ‘ جلال بابا کے مزار پر حاضری دے کر بھارتی سرحد تک کا سفر بھولنے والا نہیں! رانگامتی اور کتہائی کے دلفریب مناظر‘ کاکسس بازار میں آباد خوبصورت قبیلوں کے صاف ستھرے گھر‘ چائے کے باغات اور ان میں کام کرنے والے آسامی خاندان‘ جو پتے توڑ رہے ہیں اور سُکھا رہے ہیں!
کھویا ہے اُسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سنے! لاکھ پکارو
جس بنگال کو بختیار خلجی نے اٹھارہ شہسواروں کے ساتھ حاصل کیا تھا‘ اُس بنگال کو ہم نے نوّے ہزار افراد گروی رکھ کر ضائع کیا! بختیار خلجی کے بازو لمبے تھے۔ اتنے لمبے کہ مورخین کے مطابق گھٹنوں سے نیچے آتے تھے۔ اس کے مقابلے میں ہماری زبانیں لمبی ہیں! بازو تو کیا لمبے ہونے تھے‘ دل چھوٹے ہیں! سینے گُھٹے ہوئے ہیں! پیشانیاں تنگ ہیں! اس قدر تنگ کہ قسمت کے ستارے ان پیشانیوں پر چمکنے سے انکار کرتے ہیں ؎
جبیں سے بخت آخر اُڑ گیا یہ کہہ کے اظہار
یہاں اب ختم میرا آب و دانہ ہو رہا ہے
زندہ قومیں سانحوں سے سبق سیکھتی ہیں! مصائب آئیں تو مصائب کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتی ہیں! ہم نے مشرقی پاکستان کھویا تو سبق کیا حاصل کیا! افسوس! ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ ہم اُن تباہ شدہ قوموں کی طرح ہیں جو اپنی ہر غلطی پر اکڑتی تھیں‘ خدا کے پیغمبروں کے ساتھ کٹ حجتی کرتی تھیں یہاں تک کہ عذاب آ کر اُن کا قصہ تمام کر دیتا تھا!
ہم اندھوں کا وہ گروہ ہیں جو مستقبل میں جھانک سکتا ہے نہ اسے ماضی ہی کی غلطیاں نظر آتی ہیں! کتنی آسانی سے‘ کتنی دیدہ دلیری سے‘ کتنی ڈھٹائی سے اور کس درجہ بے حیائی سے ہم سارا ملبہ بھارت پر ڈال دیتے ہیں‘ جیسے ہمارا تو کوئی قصور ہی نہیں تھا! کتنی سہولت سے ہم مشرقی پاکستانیوں پر غداری کا الزام لگا دیتے ہیں! کتنی افسوسناک جہالت ہے جس کی وجہ سے ہم مشرقی پاکستان کی ہندو آبادی پر الزام دھر دیتے ہیں! یہ ہندو آبادی اُس وقت کہاں تھی جب پاکستان کی تحریک میں بنگالی مسلمان سو فیصد شریک تھے! وہاں تو کوئی خاکسار تحریک نہ تھی‘ وہاں تو مجلس احرار بھی نہیں تھی! وہاں تو کسی ابوالاعلیٰ مودودی نے ''مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ لکھ کر مسلم لیگ کو پاکستان کے لیے اَن فِٹ قرار نہیں دیا تھا! پھر جب مہاجرین آئے تو یہ مشرقی پاکستانی ہی تھے جنہوں نے اپنے بازو وا کیے اور دامن کشادہ کیے۔ بچے کھچے پاکستان کے ننانوے فیصد دانشوروں کو مشرقی پاکستان کے زمینی حقائق سے دور کی واقفیت بھی نہیں! ریلوے اور پوسٹل کے محکموں پر اردو بولنے والے مہاجرین کی مکمل اجارہ داری تھی! اِن اللہ کے بندوں نے اپنی بستیاں تک الگ بسا لی تھیں! اس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے ڈھاکہ اور چٹاکانگ میں مغربی پاکستانیوں اور اردو بولنے والے مہاجرین کو بنگالیوں کی تضحیک کرتے دیکھا‘ اور اپنے کانوں سے ان کے بارے میں ناقابل برداشت کلمات سنے! اُس وقت کے سب سے بڑے اخبار 'پاکستان ٹائمز‘ نے اپنے اداریے میں تسلیم کیا کہ مشرقی پاکستان کا کمایا ہوا زرمبادلہ مغربی پاکستان کے الّلے تلّلوں پر خرچ ہو رہا تھا! کس آسانی سے اُن پر غداری کا الزام لگا دیا جاتا ہے! اور اُن کی ''حالتِ زار‘‘ کا ماتم یوں کیا جاتا ہے جیسے یہاں گھی اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں!!
پھر انتخابات ہوئے۔ عوامی لیگ جیتی تو اُسے اقتدار نہیں دیا گیا! دلیل کیا تھی؟ یہ کہ مغربی پاکستان میں اسکی نمائندگی نہیں ہے! آج اس کی سزا قدرت نے کس انوکھے انداز میں دی ہے! مسلم لیگ کا جو ٹکڑا آج وفاق میں برسراقتدار ہے‘ اُس کی نمائندگی بلوچستان میں‘ سندھ میں اور کے پی کے میں...نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک صوبے کے بھی صرف وسطی حصے سے تعلق رکھنے والی جماعت پورے ملک پر حکمران ہے۔ دفاع‘ داخلہ‘ خزانہ‘ تجارت‘ دفاعی پیداوار‘ بجلی اور پانی‘ بین الصوبائی معاملات‘ امور کشمیر‘ زراعت اور خوراک‘ پٹرولیم اور قدرتی وسائل‘ منصوبہ بندی‘ جہازرانی‘ کیا یہ ساری شہ رگیں ایک صوبے کے پاس نہیں؟ سندھی اور پشتو بولنے والے وزراء کی کیا تعداد ہے اور کیا تناسب ہے؟ اللہ کے بندو! اگر آج آسمان نہیں ٹوٹ رہا تو اُس وقت کون سی قیامت ٹوٹ پڑنا تھی؟
1969ء میں ملائشیا میں نسلی فسادات ہوئے۔ ایسی پالیسیاں بنائی گئیں کہ آج تک دوبارہ نہیں ہوئے۔ پاکستان بنا تو سول سروس کے تربیتی اداروں میں پاکستانی زبانوں میں سے ایک زبان کا سیکھنا لازم تھا۔ بنگالی‘ پنجابی یا سندھی سیکھتے تھے اور پنجابی بنگالی! پھر یہ سلسلہ نااہلی اور کوتاہ نظری کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اتنی عقل کسی میں نہیں کہ اب بھی یہ ضروری ہے۔ بین الصوبائی شادیوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے تھی! مگر یہاں سب کو ایک ہی فکر ہے کہ بادشاہت اپنے خاندان سے باہر نہ چلی جائے!
مشرقی پاکستان کے سانحہ سے سبق سیکھتے تو ہم ایک اور سولہ دسمبر سے بچ سکتے تھے! ہم پر ایک اور سولہ دسمبر آیا جیسے آسمان کا ایک ٹکڑا پھٹا اور ہم پر گر پڑا۔ پشاور آرمی پبلک سکول میں مہکتے ہوئے پھولوں اور چمکتے ہوئے ستاروں کا قتل عام ہوا! اگر ہم نے ایوب خان اور یحییٰ خان کی آمریت سے سبق سیکھا ہوتا تو ہم جنرل ضیاء الحق کی آمریت سے پرہیز کرتے مگر سیاست دان‘ گروہ درگروہ‘ ضیاء الحق کی دہلیز پر کورنش بجا لائے۔ نام نہاد شوریٰ میں کون لوگ تھے؟ یہی لوگ آج بھی اس قوم پر مسلط ہیں۔ میڈیا پر صبح شام قوم کو جمہوریت کا درس دیتے ہیں! 
آمر نے سرحدیں مٹا دیں! پاسپورٹ اور ویزے کی اہمیت صفر ہو گئی۔ جائیدادوں سے لے کر ٹرانسپورٹ تک سب کچھ غیر ملکیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ ملک منشیات اور اسلحہ سے بھر گیا! آج اِس ملک میں اتنا اسلحہ ہے کہ اس کا تصور بھی محال ہے۔ یہ سب ایک ایسے آمر کی میراث ہے جس کا وژن ایک گز آگے نہیں دیکھ سکتا تھا! ہمارے بچوں کے چیتھڑے اُڑ گئے۔ ہماری عورتیں اور بوڑھے بم دھماکوں میں ریزہ ریزہ ہو گئے۔ ہمارے عساکر کے کڑیل جوانوں اور جری افسروں کا خون پانی کی طرح بہا اور زمین میں جذب ہوا۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ ون مین رُول تھا! اگر اسمبلی ہوتی اور اسمبلی میں دوراندیش سیاست دان ہوتے تو یہ بھی دیکھتے کہ جہادیوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ انہیں معمول کی زندگی میں واپس کس طرح کھپایا جائے گا؟ مہاجرین کو اُن کے کیمپوں میں محدود کیسے رکھنا ہو گا؟ اسلحہ اور منشیات کی لعنتوں سے کس طرح بچا جائے گا! آج ہماری اسمبلی میں بیٹھنے والے عوامی نمائندوں کی قابلیت‘ قابل رشک نہیں مگر بخدا! یہ جمہوری حکومتیں ضیاء الحق اور یحییٰ خان جیسے ضعف بصارت کے مریضوں کے چمڑے کے دام والی نام نہاد حکومتوں سے پھر بھی بہتر ہیں۔
1921ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی وجود میں آئی تو ہندو طنز سے اسے مکہ یونیورسٹی کہتے تھے۔ برطانوی عہد میں اسے آکسفورڈ آف ایسٹ بھی کہا جاتا تھا۔ جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے‘ پرچھائیوں کے عقب سے ایک نوحہ اٹھتا ہے اور ڈھاکہ یونیورسٹی کی پھیلی ہوئی پُرشکوہ عمارتوں کے اُوپر سے ہوتا ہوا تیر ی طرح دل میں پیوست ہو جاتا ہے۔ ؎
سر پہ کتنے ہی لڑھکتے ہوئے سنگ آہ! گرے
ہم جو چوٹی پہ تھے کس کھائی میں ناگاہ گرے
خلقتِ شہر ہنسی‘ تو نے بھی دیکھا ہو گا
ہم بہ ایں خلعتِ شاہانہ سرِراہ گرے
دل دہکتا ہے ترے درد کے ہالے کی طرح
ایسے لگتا ہے کہ سینے میں شبِ ماہ گرے
قربتیں‘ حوصلے‘ رگ رگ میں مچلتا ہوا خون
ایک اک کر کے زمیں پر مرے بدخواہ گرے
(2) 
بہت ویران ہے آنگن ... ہر اک مٹی کا ذرہ زخم خوردہ ...ہر اک شے ہول سے ٹوٹی ہوئی بوسیدہ اور مردہ...جہاں اک پیڑ تھا سرسبز شاخوں چہچہاتے طائروں کا گھر...وہاں گہرا گڑھا ہے اور کچھ ٹوٹے ہوئے پر...پھڑپھڑاتے ہیں چلے جب بھی ہوا...چٹختے ہیں چلے جب بھی جھلستی لُو...کوئی کمرہ نہیں کھلتا...مگر اندر سے ماضی کی گھنیری سسکیاں...آتے دنوں کی اجنبی بے مہر آوازیں...سنائی دے رہی ہیں...شگاف ایسے پڑے دیوار میں...چٹیل لق و دق پار کا صحرا نظر آنے لگا ہے صاف...کوسوں تک نہیں جس میں کوئی روئیدگی...جس میں سرابوں‘ ہڈیوں اور کاسہ ہائے سر کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا...یہاں وہ ساتھ ہوتا تھا...بپا اک جشن سا دن رات ہوتا تھا...یہاں رو دوں...کوئی صورت نہیں باقی بجز اس کے...کہ اپنے آپ کو اس صحن میں بو دوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved