تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     16-12-2015

16 دسمبر اور باہمی تعاون

فیس بک پر کسی نے ایک سوال ڈالا ہے۔ کیا آرمی پبلک سکول کا سانحہ سقوطِ مشرقی پاکستان سے زیادہ اہم اور دردناک واقعہ ہے؟ مجھے تو اس سوال کا جواب آتا ہے مگر مسئلہ وہی ہے کہ ہر شخص کا جواب اپنا اپنا ہوتا ہے۔ اس سوال کے نیچے بہت سے جواب بھی ہیں اور آراء بھی‘ لیکن مجھے نہ ان جوابات سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی لوگوں کی آراء سے یا کمنٹس سے کچھ لینا دینا ہے۔ مجھے تو اس سوال سے غرض ہے کہ آخر یہ سوال کرنے کی نوبت کیوں آئی ؟
ترجیحات قائم کرنا یا درجہ بندی کرنا‘ نہ صرف یہ کہ انسانی فطرت ہے بلکہ معاملہ فہمی کا ایک منطقی طریقہ کار بھی‘ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم معاملات کو حقائق کی آنکھ سے دیکھنے کی بجائے مختلف حوالوں سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ ان میں کبھی یہ کہ ہم جذباتی ہو کر سوچتے ہیں اور کبھی اتنے حقائق پسند ہو کر معاملے کو محض حساب کا سوال سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن سب سے برا رویہ یہ ہے کہ ہم سچ کو قبول کرنے اور حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں، سانحہ مشرقی پاکستان کو ممکن ہے کوئی اپنی سبکی‘ کمزوری‘ بے عزتی اور کوتاہی کے خوف سے بھولنا چاہتا ہو مگر جو قومیں اپنا ماضی‘ خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو‘ بھول جائیں تو ان کا مستقبل بھی تاریک ہی ہوتا ہے۔ سانحہ اگر سبق ہے تو وہ مستقبل کو بہتری اور روشنی کی نوید ہے اور اگر ہم اس سے سبق نہیں لیتے تو یہی اصل سانحہ ہے۔ سبق وہ عمل ہے جس کا تعلق یاد رکھنے سے ہے۔ آج ہم سانحہ مشرقی پاکستان کو آرمی پبلک سکول کے سانحے میں جو بذات خود ایک سنگین واقعہ ہے، لپیٹ کر اسے بھولنا چاہتے ہیں یا جان چھڑانا چاہتے ہیں تو یہ دراصل حقیقی سانحہ ہے۔ پچھلے سات دن سے سارا میڈیا اور دیگر سٹیک ہولڈرز سولہ دسمبر کے دن میں ہونے والے ایک سانحے کے نام پر دوسرے اس سے بھی زیادہ بڑے سانحے کو چھپا کر قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ قوموں کا ماضی ایک اٹل حقیقت ہوتا ہے اور اس سے جان چھڑانے کا طریقہ یہ نہیں کہ اسے یادوں سے بھلا کر دھویا جائے۔ جو اقوام اپنا ماضی بھول جاتی ہیں ان کا دراصل کوئی مستقبل بھی نہیں ہوتا۔
اور سچ تو یہ ہے کہ ابھی سانحہ مشرقی پاکستان پرانا بھی کب ہوا ہے؟ ہم اسے بھولنا چاہتے ہیں مگر بنگلہ دیش والے ہمیں مسلسل یاددہانی کروانے میں مصروف ہیں کہ نہ ہم اسے بھول رہے ہیں اور نہ آپ کو بھولنے دیں گے۔ ہمارے روشن خیال دانشوروں کا کام یہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں بڑی محنت سے کوئی تاریک پہلو تلاش کرتے ہیں اور اسے اتنا اچھالتے ہیں کہ دیگر سب حقائق‘ سچائیاں اور بے گناہیاں اس تسلسل سے کئے جانے والے پروپیگنڈے کے نیچے دب کر رہ جاتی ہیں۔ ہمارے روشن خیال دانشور اور بنگلہ دیش کے قدامت پسند اس معاملے میں ایک ہیں۔ بنگلہ دیش میں کسی کو جرأت نہیں کہ وہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھا سکے۔ یہ ساری آزادی صرف پاکستان میں ہے کہ وہ تصویر کا وہ رخ دکھا سکیں جس میں اپنا قصور ہی نکلتا ہو اور باقی ہر مجرم بے قصور قرار پائے۔ 1971ء میں بننے والا بنگلہ دیش بنگالی قوم بننے کی طرف جا رہا ہے جبکہ ہم 1947ء سے آج تک قوم بننا تو کجا‘ قوم بننے کی جانب پہلا قدم بھی نہیں اٹھا سکے۔
ہمارے روشن خیال دانشور یکطرفہ سچ بول کر اغیار سے داد لینے کو بہادری اور سچائی کا تمغہ سمجھ کر سینے پر لگاتے ہیں اور فخر سے سینہ پھلا کر چلتے ہیں۔ دوسری طرف یہ عالم ہے کہ دیگر تمام سچائیاں بے توقیر ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہمارے روشن خیال دانشور وہی کہتے ہیں جو بنگلہ دیش کے قوم پرست کہہ رہے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک سچ صرف یہ ہے کہ سارا قصور پاکستانی سیاستدانوں اور اس سے بڑھ کر پاک فوج کا تھا۔ مکتی باہنی‘ بھارتی جارحیت‘ سول نافرمانی‘ بغاوت اور سرکاری تنصیبات کی تباہی پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔ شکریہ بنگلہ دیش والو آپ ہمیں کبھی ڈھاکہ یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے فیصلے کے ذریعے‘ کبھی عبدالقادر ملا کی پھانسی کے ذریعے‘ کبھی قمر الزمان کو تختۂ دار پر لٹکا کر‘ کبھی علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر چودھری کو سزائے موت دے کر یاد دلاتے رہتے ہو کہ ابھی پاکستان سے محبت کے مجرموں کی سیاہ رات ختم نہیں ہوئی۔ ابھی تم لوگ پاکستان کی سلامتی اور یکجہتی کے لیے اپنی جانیں دائو پر لگانے والوں کا جرم نہیں بھولے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کی سنڈیکٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک پاکستان بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران کئے جانے والے جنگی جرائم پر معافی نہیں مانگتا تب تک ڈھاکہ یونیورسٹی پاکستان سے کسی قسم کے دوطرفہ تعلقات بشمول میمورنڈم آف انڈر سٹینڈنگ‘ طلبہ و اساتذہ کا باہمی تبادلہ‘ ثقافتی تعلقات‘ کھیل اور پاکستان کا دورہ وغیرہ آج (مورخہ 15 دسمبر 2015ء) سے مکمل طور پر ختم کیا جاتا ہے۔ اس کا اعلان ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر عارفین صدیقی نے کیا ہے۔ فیڈریشن آف بنگلہ دیش یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن اور ڈھاکہ یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر فرید الدین احمد نے کہا ہے کہ وہ مل کر ایک ایسا ہی اجتماعی فیصلہ کریں گے۔
عبدالقادر ملا کو پھانسی ہوئی، ہم خاموش رہے۔ عبدالقادر ملا کا قصور کیا تھا؟ صرف یہ کہ اس نے 1971ء میں بھارتی ایماء پر قائم ہونے والی مکتی باہنی کی بغاوت میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ دسمبر 2013ء میں عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی گئی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش رہیں۔ اپریل 2015ء میں قمر الزمان خان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ ہم خاموش رہے جیسے قمر الزمان کا جرم بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ تھا۔ اس کا جرم ہمارا ساتھ دینا تھا۔ اس کا قصور پاکستان سے محبت تھی جس پر اسے سزا ہوئی تو ہم خاموش رہے۔ ہمیں پاکستان کی سالمیت کے لیے قربانی دینے والوں کی رتی برابر پروا نہیں۔ پھر گزشتہ ماہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے جنرل سیکرٹری علی احسن محمد مجاہد اور صلاح الدین قادر چودھری کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا، ہم خاموش رہے۔ صرف صلاح الدین قادر چودھری کے ذاتی دوست اور کلاس فیلو اسحاق خاکوانی اور محمد میاں سومرو شور مچاتے رہے اور اس کی بے گناہی کی فریاد کرتے رہے۔ جس تاریخ کو اس پر قتل وغیرہ کا الزام عائد کیا تھا وہ 
تب پاکستان میں موجود تھا۔ یونیورسٹی کا ریکارڈ‘ پاسپورٹ کا اندراج اور دیگر تمام ثبوت اس کی بے گناہی ثابت کرتے تھے مگر کسی چیز کو‘ کسی ثبوت کو اور کسی گواہی کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا۔ گواہوں کو بنگلہ دیشی حکومت نے ویزے دینے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کی حکومت خاموش رہی جیسے کسی کا ذاتی معاملہ تھا۔ ضعیف العمر پروفیسر غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا سنائی۔ بہادر بوڑھا جیل میں ہی جان دے کر آزاد ہو گیا۔ اے کے ایم یوسف اور عبدالعلیم بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے رب کے ہاں حاضر ہو گئے۔ میر قاسم علی اور مطیع الرحمان نظامی ابھی پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے منتظر ہیں اور ہم ہیں کہ بالکل لاتعلق ہیں‘ نہ ہمیں سولہ دسمبر یاد ہے اور نہ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے۔ سولہ دسمبر 1971ء کو سقوط مشرقی پاکستان ہوا اور پاکستان کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ سولہ دسمبر 1971ء کے بعد بنگلہ دیش میں ساڑھے تین لاکھ بنگالی قتل ہوئے‘ یہ کون تھے؟ انہیں تو پاکستانی فوج نے نہیں مارا تھا۔ پھر انہیں کس نے مارا اور کیوں مارا؟ یہ سب وہ لوگ تھے جو پاکستان سے محبت کے دعویدار تھے۔ تاریخ میں وطن سے محبت کی ایسی لازوال داستان بھی کسی نے کم ہی لکھی ہو گی اور تاریخ میں اس سے زیادہ بے حسی‘ سردمہری اور مجرمانہ خاموشی کسی نے کم ہی دکھائی ہو گی جتنی ہمارے حکمرانوں نے۔
کچھ لوگ پاکستان میں بھی یہ کہتے ہیں کہ آخر ان کا کوئی تو جرم ہو گا؟ اگر جرم ہوتا تو پینتالیس برس تک بنگلہ دیش کو ان کا جرم کیوں نظر نہ آیا؟ ان کے خلاف کوئی مقدمہ کیوں نہ بنا؟ علی احسن محمد مجاہد اسمبلی کا رکن کیسے رہا؟ وہ 2001ء سے 2007ء تک سماجی بہبود کا وزیر کیسے رہا؟ اسے شیخ مجیب الرحمان کے دور حکومت میں 1971ء تا 1975ء تک کسی جرم کا مرتکب کیوں قرار نہ دیا؟ حسینہ واجد کے پہلے دور حکمرانی میں اس کے جرائم کیوں یاد نہ آئے؟ اگر صلاح الدین قادر چودھری مجرم تھا تو اس کے صفائی کے 20 گواہوں کے بجائے محض چار کو ہی کیوں سنا گیا؟ پاکستان کے سابق قائم مقام صدر محمد میاں سومرو‘ اسحاق خاکوانی‘ عنبر ہارون سہگل‘ منیب ارجمند خان اور ریاض احمد جیسی قابل احترام شخصیات کو نہ تو گواہی کا موقعہ دیا نہ ہی ان کا حلفیہ ویڈیو بیان قبول کیا گیا۔ مجھے بنگلہ دیش کی جنگی جرائم کی عدالت کی کارروائی پر افسوس ہے لیکن میرا یہ ملال اس سے کہیں کم ہے جو مجھے اپنے کم ہمت حکمرانوں کی بے حسی‘ بزدلی اور مجرمانہ خاموشی پر ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت خداداد کے حکمران اتنے بزدل ہوںگے؟ میں یہ سوچ کر شرمسار ہو جاتا ہوں۔
اس شرمساری سے بچنے کے لیے ہم نے آرمی پبلک سکول کے سانحے کی پناہ میں خود کو چھپانے کی کوشش کی ہے،اس چالبازی میں حکمران اکیلے نہیں‘ اور بھی شریک ہیں۔ پورا ملک ہی باہمی تعاون پر چل رہا ہے۔ حیرانی کی کیا بات ہے؟۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved