خطے میں امن اور مسائل کا حل مذاکرات
سے چاہتے ہیں:نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ''خطے میں امن اور مسائل کا حل مذاکرات سے چاہتے ہیں‘‘ بلکہ ہم دہشت گردی کا مسئلہ بھی طالبان حضرات سے مذاکرات کے ذریعے ہی حل کرنا چاہتے تھے لیکن فریقین کے جذبات کا خیال نہ رکھتے ہوئے آپریشن شروع کر دیا گیا؛ اگرچہ اس دوران ان شرفاء نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ضروری صف بندی کے علاوہ اپنی طاقت میں اضافہ بھی کر لیا بلکہ مذاکرات کے دوران بھی اِدھر اُدھر شرارتیں کرتے رہے لیکن ہم نے اپنی امن پسندی کی وجہ سے مذاکرات جاری رکھے کہ آخر دو چار سال میں ان کا کوئی مثبت نتیجہ نکل ہی آئے گا اور اب بے چاری سندھ حکومت کی پریشانی ہم سے دیکھی نہیں جاتی جس کی دم پر رینجرز نے خواہ مخواہ پائوں رکھ چھوڑا ہے اور ہم خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں، اوپر سے برادرم زرداری صاحب کی جدائی ہم سے برداشت نہیں ہوتی، خدا کرے ان کا چیک اپ جلد مکمل ہو جائے، ہیں جی؟ آپ اگلے روز ترکمانستان میں کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ہم سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں:اسحق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ ''ہم سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں‘‘ اور اب تک ماشاء اللہ اس قدر نیکی کما لی ہے کہ اسے رکھنے کے لیے ملک میں جگہ ہی کم پڑ گئی ہے اور زیادہ تر نیکیاں
بیرون ملک ہی سنبھال رکھی ہیں کیونکہ روزِ جزا کسی وقت بھی آ سکتا ہے اور جوں جوں کراچی کے حالات خراب ہوتے ہیں، توں توں روزِ جزا بھی نزدیک تر آتا ہوا محسوس ہوتا ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ نیکیاں اکٹھی کرنے میں دن رات لگے ہوئے ہیں جن کا پورا پورا ثواب ہمارے قائدین کو بھی پہنچ رہا ہے، اور عزیز داری کی وجہ سے بھی ان کی خدمت ضروری ہے کیونکہ حقوق العباد کی اپنی اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''31دسمبر تک زرمبادلہ کے ذخائر 21ارب سے بڑھ جائیں گے‘‘ جنہیں پورا کرنے کے لیے مزید ٹیکس لگانا پڑیں گے جن کا غریب آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ دودھ، گھی اور شکر وغیرہ اگر مہنگے ہوتے بھی ہیں تو یہ چیزیں عرصۂ دراز سے ان کے استعمال ہی میں نہیں ہیں بلکہ باقاعدہ عیاشی کی ذیل میں آتی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں اسلامی بینکاری کے موضوع پر تقریر کر رہے تھے۔
سیاسی و عسکری قیادت دہشت گردی کی
جنگ میں آگے بڑھ رہی ہے:شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سیاسی و عسکری قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آگے بڑھ رہی ہیں‘‘ جبکہ عسکری قیادت کچھ ضرورت سے زیادہ ہی آگے بڑھ رہی ہے کہ کرپشن وغیرہ کے معاملات پر رینجرز نے پیپلز پارٹی کا ناک میں دم کر رکھا ہے اور قائم علی شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ کرپشن تو لیاقت علی خان کے وقت سے چلی آ رہی ہے؛ چنانچہ اب آپ ہی بتائیں کہ ایک راسخ شدہ روایت کو کیسے اتنی جلدی ختم کیا جا سکتا ہے اور لگ رہا ہے کہ متعدی ہونے کی وجہ سے اس آپریشن کا اثر دور دور تک پہنچے گا جبکہ صدر مملکت اور چیف جسٹس صاحب بھی ہر تیسرے دن کرپشن کے خلاف ایک بیان داغ دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ کروڑوں روپے خرچ کر کے اقتدار میں لوگ کیا جھک مارنے کے لیے آتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ''ہمیں 'میں‘چھوڑ کر 'ہم‘ کا راستہ اپنانا ہے‘‘ جیسا کہ حکومت میں‘ میں کے بجائے ہم کا مظاہرہ کر کے اسلامی اخوت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور عاقبت بھی سنواری جا رہی ہے۔ آپ اگلے دن لاہور میں ممتاز بھٹو سے ملاقات اور ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی نہ چاہے تب بھی رینجرز
سندھ میں رہیں گے:منظور وسان
وزیر معدنیات سندھ منظور وسان نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی نہ چاہے تب بھی رینجرز سندھ میں رہیں گے‘‘ کیونکہ یہ ایک مصیبت ہے اور اللہ کی طرف سے آئی ہے اور جب تک اللہ میاں خود، یا، جنرل راحیل شریف نہیں چاہیں گے‘ یہ ٹل نہیں سکتی؛ اگرچہ اس کا ایک فائدہ ہوا ہے کہ ''ہور چُوپو‘‘ کے محاورے کی سمجھ پوری طرح آنے لگی ہے، حالانکہ یار لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ رشوت کیا ہوتی ہے اور یہ جو ایک بھائی صاحب کے گھر سے دو ارب روپے برآمد ہو گئے تھے تو وہ بھی انہوں نے زکوٰۃ وغیرہ دینے کے لیے جمع کر رکھے تھے بلکہ بغرضِ صدقہ و زکوٰۃ لانچیں بھر بھر کے بیرونِ ملک بھی بھجوائی جاتی تھیں کیونکہ وہاں بھی غریب غرباء اس کے مستحق کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں جبکہ چائنہ کٹنگ وغیرہ کے سلسلے میں جو اراضیات حاصل کی گئی تھیں وہ بھی خیراتی ادارے یعنی ہسپتال اور مردہ خانے وغیرہ تعمیر کرنے کی غرض سے تھے۔ اپ اگلے روز خیر پور میں سینئر صحافی غلام عباس بھمبھڑ کی وفات پر اظہارِ تعزیت کر رہے تھے۔
اور اب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل:
احوالِ محبت جو بتایا نہیں میں نے
کچھ اتنا زیادہ بھی چھپایا نہیں میں نے
دل کا کوئی احسان اٹھایا نہیں میں نے
دُنیا کو بھی کچھ یاد دلایا نہیں میں نے
ظاہر ہی کیا ہے کہ یہاں میں بھی ہوں موجود
آواز اُسے دے کے بلایا نہیں میں نے
یہ اُس کا تغافل ہی سنبھالا نہیں جاتا
کیسے کہوں کچھ بھی یہاں پایا نہیں میں نے
اِس راہ کی بندش پہ مچایا تو بہت شور
دیوار کو رستے سے ہٹایا نہیں میں نے
اک یاد کا چھلکا سا پڑا رہتا ہے دل میں
لگتا ہے ابھی اُس کو بھلایا نہیں میں نے
دے سکتا بھلا کیا کوئی اوروں کو سہولت
اپنا بھی کبھی ہاتھ بٹایا نہیں میں نے
الزام تو ہے کچھ بھی نہ کرنے کا وگرنہ
لکھا نہیں میں نے کہ مٹایا نہیں میں نے
بسیار نویسی، ظفرؔ اچھی نہیں، لیکن
باجا کوئی کم یہ بھی بجایا نہیں میں نے
آج کا مقطع
ایک جھونکے سے جل اُٹھوں گا دوبارہ سے، ظفرؔ
شام کی بند ہوائوں کا بجھایا ہوا میں