تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     16-12-2015

کاش

ایک سال گزرنے کے بعد آپ سیاستدانوں کی دندیاں اور ہٹ دھرمیاں بھی دیکھ لیں اور فوج کی کارکردگی بھی ملاحظہ فرما لیں۔ ایک سال کے دوران فوجی جوانوں کی شہادتیں بھی گن لیں اور سیاستدانوں کی اپنی ہی فوج کے خلاف ہرزہ سرائیاں بھی دیکھ لیں۔ آپ جنرل راحیل شریف کی کمٹمنٹ بھی دیکھ لیں اور سیاسی لیڈروں کا ملک سے فرار بھی دیکھ لیں۔ جی ہاں‘ اگر آپ صرف ایک سال کا پوسٹ مارٹم کر لیں تو سیاستدانوں کی وطن سے وفاداری آپ پر واضح ہو جائے گی۔ اس ایک سال میں فوج نے وزیرستان سمیت ملک میں امن قائم کرنے کے لئے جان لڑا دی اور سیاستدان ہیں جو ابھی تک چونچیں لڑانے سے ہی باز نہیں آ رہے۔سولہ دسمبر کے واقعے سے زمین کانپ گئی لیکن سیاستدانوں کا ضمیر نہ جاگ سکا۔ جن کا خیال تھا فوج وزیرستان سے فارغ ہو کر واپس بیرکوں میں چلی جائے گی اور یہ صرف طالبان کی دہشت گردی تک محدود رہے گی‘ ان کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ یہ سمجھتے تھے فوج اُدھر مصروف رہے گی اور یہ چپکے سے دہشت گردوں کی مالی‘ اخلاقی اور طبی امداد جاری رکھیں گے۔ آرمی پبلک سکول سانحے کے بعد قوم تو ایک ہو گئی لیکن سیاستدان ٹس سے مس نہ ہوئے۔ نیشنل ایکشن پلان تو بن گیا لیکن سیاستدان خود اس کی راہ میں آڑے آ گئے۔اس وقت سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا ایک سال قبل سانحہ اے پی ایس کے بعد کبھی کوئی سوچ سکتا تھا کہ چند ماہ بعد سیاستدان اس طرح کا رویہ اختیار کریں گے۔ یہ اپنے ہی بچوں کے خون پر سیاست کریں گے‘یہ دہشت گردوںکی بجائے آپریشن ضرب عضب کی راہ میںسینہ تان کر کھڑے ہو جائیں گے اوران کے لیڈر سکیورٹی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کریں گے اور ڈاکٹر عاصم جیسوںکو بچانے کے لئے فوج تک سے متھا لگا لیں گے۔ 
بہت سے سوال اب بھی تشنۂ جواب ہیں۔ حساس علاقے میں واقع آرمی پبلک سکول تک دہشت گرد کئی ناکے کراس کر کے پہنچ کیسے گئے؟ کیسے انہیں علم ہوا کہ سکول کے ہال میں میڈیکل کی ایک تقریب منعقد ہو رہی ہے؟ سکول کا مکمل نقشہ انہیں کیسے ملا کہ وہ سیدھے بڑے ہال کے اندر گئے؟ کس نے انہیں بتایا تھا کہ آج یہاں میڈیکل کیمپ ٹریننگ دی جا رہی ہے ؟ کیا اندر سے مدد کی گئی؟ اگر کی تو کس نے کی؟ کس کس کو پکڑ ا گیا اور کیا سزا دی گئی ‘ یہ سب سامنے آنا چاہیے ۔ یہ عوام کا حق ہے۔ یہ بچے صرف چند والدین کے بچے نہیں بلکہ پوری قوم کے بچے تھے۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ وزیرستان اگر دہشت گردوں سے پاک ہو رہا ہے تو کراچی ‘ لاہور ‘ پشاور اور کوئٹہ کیوں نہیں۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے سندھ میں رینجرز آپریشن کو اپنی انا کا مسئلہ کیوںبنا لیا ہے۔ آخر وہ کیا وجوہ ہیں کہ یہ جماعتیں ایک طرف تو پشاور کے بچوں کی شہادت پر نوحہ کناں ہیں اور وہاں آپریشن پر آمادہ ہیں لیکن کراچی میں ویسے ہی بچے مرتے رہیں‘ ان کے والدین ان کے بھائی بہن بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوں اور یہاں ویسا ہی آپریشن کیا جائے تو یہ شور مچانا شروع کر دیں۔اگر پشاور اور 
خیبرپختونخوا پاکستان کا حصہ ہیں‘ یہاں فوج کی عملداری اور رٹ ہونی چاہیے‘ یہاں امن درکار ہے تو پھر کراچی میں کیوں نہیں۔ کیا کراچی پاکستان کا حصہ نہیں یا پھر چند ووٹ لے کر سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی ذاتی جاگیر بن گیا ہے اور وہ یہاں مادرپدرآزاد ہیں اور فوج اور پولیس سمیت کوئی ادارہ ان سے باز پرس کرنے کا حق نہیں رکھتا؟۔ جو یہ شور ڈال رہے ہیں کہ کراچی آپریشن کسی خاص سیاسی جماعت کے خلاف ہے ‘ کیا وہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپریشن سے پہلے کراچی پُرسکون تھا یا آپریشن کے بعد؟ کیا یہ جھوٹ ہے کہ چند ماہ کے آپریشن میں کراچی بے انتہا تبدیل ہو چکا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اب نہ وہاں بھتہ خوری کی پرچیاں ملتی ہیں‘ نہ بوری بند لاشیں اور نہ ہی ٹارگٹ کلنگ کی معمول کی وارداتیں۔ پھر بھی اگر دہشت گردی اور اکا دُکاکرائم ہو رہے ہیں تو اس میںقصور فوج اور رینجرز کا ہے یا ان سیاستدانوں کا جو نہ تو تعاون کرناچاہتے ہیں اور نہ ہی کراچی میں امن دیکھنے کے خواہاں ہیں؟
گزشتہ روز آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں آرمی پبلک سکول پشاور کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ کانفرنس کے شرکاء کو ملک کی اندرونی و بیرونی سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی گئی جبکہ ضرب عضب میں کامیابیوں اور نئی جیو اسٹریٹجک صورتحال کا بھی جائزہ لیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اجلاس میں آرمی پبلک سکول پشاور کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا گیا۔ یہاں سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ایک سال مکمل ہونے پر فوج کیا کر رہی ہے اور سیاستدان کیا گل کھلا رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سابق وفاقی وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ فرما رہے ہیں ‘ ان کے باس آصف زرداری 27دسمبر کو وطن واپس آ رہے ہیں۔ کوئی مائی کا لعل انہیں نہیں روک سکتا۔ کائرہ صاحب کو اس موقع پر بھی اپنے لیڈر کو بچانے کی پڑی ہے جب لوگ سانحہ سولہ دسمبر کو یاد کر کے رورہے ہیں۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ڈاکٹر عاصم کی ویڈیو چلانے کے بیان پر سیخ پا ہیں اور جواب میں رانا مشہود اور اسحاق ڈار کی ویڈیوز چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس دوران میںوزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب چین کے دورے پر ہیں اور ان کی غیرموجودگی میں سندھ اور وفاق ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کر رہے ہیں۔ کیا ان سیاستدانوں سے آپ اُمید لگا سکتے ہیں کہ وہ اس ملک کو دہشت گردی سے پاک کریں گے اور فوج اور رینجرز کے ساتھ تعاون کریں گے؟
سانحہ پشاور میںکل 147افراد شہید ہوئے۔ان میں ایک سو بائیس بچے اور تین فوجی اہلکار شامل تھے۔ سٹاف کے ارکان کی تعداد بائیس تھی۔ جن میں بارہ کا تعلق براہ راست تدریس سے تھا۔ ان میں پرنسپل‘ لیکچررز‘ اسسٹنٹ پروفیسر اور دیگر اساتذہ شامل تھے۔اس کے علاوہ ایک ہیڈ کلرک‘کلرک‘ دو لیب اسسٹنٹ‘دو مالی‘ چوکیدا ر اور نائب قاصد شامل تھے۔ حکومت نے ایک سو بائیس شہید بچوں کے نام پر اسلام آباد کے سکولوں کے نام رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دو شہید بھائیوں کے والد فضل حسین کہتے ہیں ''ہمارا گھر ان کے جانے کے بعد کسی کھنڈر کا سا سماں پیش کررہا ہے ۔ ان کی والدہ بچوں کے کپڑوں کو نکال کر چومتی ہیں اور روتی ہیں۔ہمارے بچے شروع سے ہی اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے ۔ عبد اللہ خاص طور پر پوزیشن ہولڈر تھا۔عبداللہ کی شہادت کے بعد جب اس کا نتیجہ آیا تو اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ان دونوں کے بعد ہماری زندگی تباہ ہوگئی۔ ان کے لئے ہمارے سارے ارمان ادھورے رہ گئے ۔مگر اس بات سے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ انہوں نے وطن کی خاطر جان دی۔پاک آرمی کے افسران نے ہمارا بہت ساتھ دیا‘ مشکل کی گھڑی میں ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا۔اللہ تعالی ہماری صفوں میں اتحاد برقرار رکھے ، اس وطن میں امن و امان قائم رہے ۔ آمین‘‘۔
کاش‘ ایک سال مکمل ہونے کے بعد ہی سہی‘ سیاستدان ان شہید والدین کا دُکھ سمجھ جائیں‘ کاش!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved