16 دسمبر 2014ء کا جو سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور میں ہوا‘ اس سے ہماری اجتماعی زندگی میں جتنی بڑی تبدیلی آنا چاہیے تھی‘ وہ نہیں آئی۔ حد یہ ہے کہ معصوم بچوں کے خون اور ان کے نیم جاں والدین کے آنسو‘موجودہ دسمبر شروع ہونے سے پہلے ہی ہمارے لئے ایک پرانی یاد بن چکے تھے‘ ماسوا ان دکھی اور مظلوم والدین کے‘ جو اپنے جگر گوشوں سے محروم ہونے کے بعد ‘ابھی تک نارمل زندگی گزارنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں‘ ہر کسی کو اپنا شہید بچہ یا بچے یاد آتے ہیں۔ ایک شہید بچے کے والد کا تو کہنا ہے کہ ''میرا بچہ آج بھی روزانہ سکول کے لئے تیار ہو کر‘ گھر سے نکلتا ہے۔ سکول جاتا ہے اور شام کو واپس نہیں آتا۔ ہم رونے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک سال سے ہم یہی کر رہے ہیں۔ زندگی کے اس المناک دائرے سے نکلنا چاہتے ہیں۔ نکل نہیں پاتے۔ ‘‘یوم شہداء سے ایک دن پہلے بھی ہمارے حکمران طبقوں میں جو بحث چل رہی تھی‘ وہ کسی بھی قوم کے لئے باعث شرم ہے۔ فوج نے ‘دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں سے‘ اپنی فورس کا ایک حصہ نکال کر‘ کراچی میں ڈیوٹی پر لگایا۔ جہاں کے 2کروڑ شہریوں کی زندگی ‘جرائم پیشہ عناصر‘ بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے اجیرن بنا رکھی تھی۔ سپاہی جذبہ جہادکے ساتھ‘ اپنے عوام کی مدد کو گئے۔ جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑی۔ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوروں کو تتربتر کیا۔ جوانوں نے شہادتیں پیش کیں۔روزروز کی ہڑتالیں کرانے والوں کا زور توڑا اور طویل جدوجہد کے بعد ‘2برس گزرنے کے قریب تھے کہ شہریوں کو معمول کی زندگی دیکھنا نصیب ہوئی۔
ان کے بچے سکول جانے لگے۔ کاروباری لوگ اپنے اپنے کام پر جانے لگے۔ معمولات زندگی بحال ہوئے۔ بھتہ خوروں کی پرچیاں کہیں کہیں رہ گئیں۔ غنڈہ راج کا جال ٹوٹا اور جب دکھائی دینے لگا کہ اب شہر کا امن بحال ہونے کو ہے‘ تو سیاستدانوں کی خواہشیں مچلنے لگیں اور وہ حسب روایت رینجرز کی قربانیوں کے ثمرات سمیٹنے کے لئے سرگرم ہو گئے۔
ّٓانہیں اچانک اپنا ماضی یاد آ گیا۔ فوج کی ذمہ داریوں کا محدود دائرہ دکھائی دینے لگا اور جب کامیابی رینجرز کے جوانوں کے قدم چومنے کے قریب آ گئی‘ تو انہیںآئین کی آڑ میں رینجرز کو بحالی امن کے عمل سے نکال باہر کرنے کی سوجھی۔ ایسا بلاوجہ نہیں ہوا تھا۔ رینجرز نے دہشت گردوں اور اغوا کاروںکو قابو میں لانے کے بعد‘ کرپشن پر ہاتھ ڈال دیا تھا۔ یہ وہ کام تھا‘ جس پر ساری سیاسی کمیونٹی اپنے اختلافات بھلا کر یکجا ہو گئی۔ کھل کر تو سندھ کی حکومت سامنے آئی اور اس نے طرح طرح کے قاعدوں اورمن گھڑت اصولوں کی آڑ لے کر ‘ رینجرز کے دائرہ اختیار کی باتیں شروع کر دیں۔ اصل مقصد یہ تھا کہ کرپشن کے کاروبار کو‘ رینجرز کی مداخلت سے بچایا جائے۔ سیاست کے دھندے میں سب سے بڑی ترغیب صرف کرپشن رہ گئی ہے۔ افسر شاہی اور سیاستدانوں نے گٹھ جوڑ کر کے‘ کرپشن کی کمائی کے ڈھیر لگانا شروع کر دیئے تھے۔ ناجائز طریقوں سے کمائی ہوئی دولت‘ بیرونی بنکوں میں جمع کی جانے لگی۔ دبئی اور یورپ میں جائیدادیں خریدی جانے لگیں۔ سنگاپور اور ہانک کانگ میں سرمایہ کاری ہونے لگی۔ جیسے ہی ایک نامور شخصیت پر ہاتھ ڈالا گیا‘ کرپشن کرنے والی برادری یک دم متحد ہو کر میدان میں آ گئی اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ کرپشن کو فوج سے بچانے کے لئے کوئی ایسا راستہ نکالا جائے‘ جس پر چل کر ‘رینجرز کرپشن کی طرف رخ نہ کرسکے۔ فوج نے کرپشن کو تحفظ دینے کی ان کوششوں کے جال میں پھنسنے سے انکار کر دیا۔ اس کی طرف سے صاف کہا جا چکا ہے کہ رینجرز کے دائرہ اختیار کومحدود کرنے کی کوششیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ پنجاب حکومت کو 16دسمبر کی تاریخ یاد آ گئی۔ یوں لگا کہ سارے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو اچانک یاد آیا ہے کہ ایک سال پہلے ہمارے سینکڑوں معصوم بچے ‘دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ یہ قوم کے لئے المناک دن تھا۔ 15دسمبر کی شام کو پنجاب حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کرکے‘ سکولوں میں چھٹی کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد تھوڑے تھوڑے وقفے سے سارے صوبوں کو یوم شہدا یاد آ گیا۔ سب نے سکولوں میں چھٹی کر دی۔ عام آدمی کے ذہن میں پہلے سے اس سانحے کی یادیں تازہ تھیں۔ ان کے زخم ہرے ہو گئے اور پھر عوام ازخود شہر شہر اور قصبہ قصبہ ‘ اظہار غم کے لئے مظاہرے کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ الیکٹرانک میڈیا نے جلدی جلدی نئے پروگرام تیار کئے اور معصوم شہداء کی یادوں نے پوری قوم کو پھر سے غمزدہ کر دیا۔ پشاور میں منعقد کی گئی تقریب جلدی میں سہی لیکن بڑے جوش و جذبے کے ساتھ ترتیب دی گئی۔ وہ لمحات انتہائی متاثر کن تھے‘ جب ایک ایک شخصیت نے سامنے آ کر ‘شہیدوں کے اعزازات ‘ان کے ورثاء میں تقسیم کئے۔ کئی مائوںنے اشک بھری آنکھوں کے ساتھ‘ اپنے شہید بچوں کے خون میں ڈوبی ہو ئی دستاویزات حاصل کیں اور اپنے غم پر قابو پاتے ہوئے بھاری قدموں سے واپس گھروں کی طرف روانہ ہو گئیں۔ جس بچے کے اعزاز کے لئے بلایا جاتا‘ ساتھ ہی اس کی تصویر بھی حاضرین کے سامنے لائی جاتی۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے باری باری کھڑے ہوکر ‘ شہداء کے
اعزازات ان کے والدین کے سپرد کئے۔ رات گئے ایک ٹی وی پروگرام میں غمزدہ ماں کے تاثرات سن کر میں اپنے آنسو نہ روک سکا۔ وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بتا رہی تھی کہ ''میرا بیٹا روز مجھے ملنے آتا ہے‘ میرے سینے سے لگتا ہے‘پیار لیتا ہے اور مجھے تسلیاں دیتے ہوئے‘ واپس چلا جاتا ہے۔‘‘ یہ تو صرف ایک ماں کا اظہار تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جیسے ان بچوں کو شہادت نصیب ہوئی‘ اس سے سرفراز ہونے والی ہر ماں ‘ابھی تک اپنے شہید بچے سے جدا نہیں ہوئی۔ اسی کیفیت میں بہت سے باپ بھی سلگ رہے ہوں گے۔ ایک کاروباری شخص تو اپنے بیٹے کی شہادت پراتنا غمزدہ ہوا کہ اپنے کاروبار سے بھی بیزار ہو گیا۔ اس سے ابھی تک کوئی کام نہیں کیا جا رہا‘ اس کا کاروبار تباہ ہو گیا اور اب وہ انتہائی تنگدستی کی حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ لیکن شہید بچے کے غم کے معاملے میں وہ ہرگز تنگدست نہیں۔ پیسہ تو نہیں رہا لیکن زندگی کا دامن غموں سے بھر گیا۔ اب یہی غم اس کی زندگی کا سہارا ہیں۔ نہ جانے کتنے والدین اسی طرح کی حالتوں میں زندگی گزار رہے ہوں گے؟ اگر قوم اور حکمرانوں نے ایک سال گزرنے کے بعد ان شہیدوں کو یاد کر ہی
لیا ہے‘ تو پھر روزمرہ کے کاموں یا کرپشن سے تھوڑا سا وقت نکال کر ان شہیدوں کو بھی یاد کر لیا کریں‘ جنہیں پاکستان کے بیٹے ہونے کے جرم میں خون سے نہلایا گیا۔ بچے بے خطا تھے ‘معصوم تھے ‘انہیں ہمارے گناہوں کے بدلے میں جام شہادت نوش کرنا پڑے۔ دہشت گردوں کو ان بچوں نے تیار نہیں کیا تھا۔ یہ ہمارے حکمران تھے‘ جنہوں نے اپنے اقتدار اوردوسروں سے ملنے والی دولت کی خاطر‘ پاکستان کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ یہ دہشت گرد ‘ آسمان سے نہیں اترے تھے۔ انہیں ہماری حکومتوں نے ہی تیار کیا تھا۔ انہیں اسلحہ اور تربیت دینے والے بھی ہمارے حکمران تھے۔ پہلے انہوں نے امریکہ اور اسلام آباد سے پیسے اور اسلحہ لے کر‘ افغانستان میں تباہی مچائی۔ وہاں کے ریاستی ڈھانچے کو توڑ پھوڑ دیا۔ پرامن زندگی میں دہشت کا زہر گھولا۔ لوٹ مچائی اور جب وہاں سے بھی پیٹ نہ بھرا‘ تو اپنی بندوقوں کا رخ ہماری طرف پھیر دیا۔ وہ ہمارے گلی محلوں میں پناہ گاہیں بنا کر بیٹھ گئے۔ اغوا برائے تاوان کا دھندہ یہاں شروع کر دیا۔ سب سے بڑا ہدف کراچی شہر بنا۔ جہاں دولت بھی زیادہ تھی اور کرپشن بھی۔ دہشت گردوں کو طرح طرح کے سرپرست مل گئے۔ کوئی بھتہ خوروں کا کارندہ بنا۔ کوئی معمولی معاوضے پر قتل کرنے لگا۔ کسی نے کلاشنکوفیں اور دیگر جدیدترین ہتھیار کرائے پر دینا شروع کر دیئے۔ کئی دہشت گرد کرپشن سے جمع کی گئی بھاری رقوم کو ٹھکانے لگانے کی ڈیوٹی دینے لگے۔ ایان علی تو آسانی سے نظروں میں آ کر پھنس گئی۔ لیکن دہشت گرد ‘ عام آدمیوں کے لباسوں میں ‘بھاری رقوم چھپا کر بیرون ملک پہنچانے لگے۔ نوٹوں سے بھری ہوئی کشتیاں ‘ خفیہ منزلوں تک پہنچا کر خالی کی جانے لگیں۔ خطرہ یہ پیدا ہو گیا کہ اب رینجرز کے ہاتھ کرپشن تک پہنچ جائیں گے۔ سیاست اور سرکاری افسری سے جو کمائی ہو رہی ہے‘ اس کا سلسلہ رک جائے گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اچانک ہی سہی‘ 16دسمبر کو شہیدوں کے خون نے جوش مارا۔ عوام کے ذہنوں میں دبے ہوئے غم ‘انگڑائی لے کر جاگ اٹھے۔ اب فوج اور عوام دونوں‘ شہیدوں کی یاد میں قومی ضمیرکی ابھرتی ہوئی آوازکو دوبارہ سننے لگے ہیں۔ اس آواز کو مدہم نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اس آواز کو اپنی طاقت بنا کر‘ ملک اور معاشرے کے دشمنوں کو گھیرے میں لیتے رہنا چاہیے۔ انہیں‘ ان کی کرپشن کے ساتھ معاشرے سے بیدخل کر دینا چاہیے۔ پاکستان اسی وقت اپنے حقیقی وقار اور سربلندی سے ہمکنار ہو گا‘ جب یہ ساری غلاظتیں نکال کر پھینک دی جائیں گی اور ہم اپنے معصوم شہیدوں کی روحوں کو خوش کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ اس وقت بھی میری نگاہیںٹی وی سکرین پر ہیں۔شہیدوں کے ساتھی‘ ان کی تصویریں اٹھائے‘ غمزدہ والدین اور بہن بھائیوں کے سامنے سے گزر رہے ہیں۔ فوجی شہداء کوسلیوٹ کر رہے ہیں۔ مگر ہمارا سلیوٹ یہ ہو گا کہ ہم اپنے معاشرے کو دہشت گردی اور کرپشن سے پاک کر کے‘ صاف ستھری زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں۔ ہمارے لئے شہیدوں کا قرض ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ آخر میں ایک زخمی بچے کے والد کا یہ جملہ کہ ''خدانخواستہ وہ پھر بھی آ کر ماریں‘ تو ہم پھر بھی اپنے بچوں کو سکول بھیجیں گے۔ کیونکہ یہی تو ہماری اور ان کی اصل لڑائی ہے۔‘‘اس حقیقت کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ اس برس آرمی پبلک سکول میں داخلے کے امیدواروں کی تعداد‘ ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ تھی۔