تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-12-2015

ٹوٹے اور عابد سہیل

کونسا کشمیر؟
مبارک ہو جناب، بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات صرف کشمیر کے اس حصے پر ہوں گے جس کا کنٹرول پاکستان کے پاس ہے۔ یعنی نماز بخشوانے گئے، روزے بھی گلے پڑ گئے۔ اس سے پہلے بھی بھارت کئی بار آزاد کشمیر کو مقبوضہ قرار دے کر اس پر اپنا حق جتاتا رہا ہے۔ اب جبکہ پاکستان میں مذاکرات پر خوشیاں منائی جا رہی تھیں، بھارتی پارلیمنٹ میں کشمیر سمیت مذاکرات پر مخالفانہ نعرے لگ رہے تھے اور ہُلڑ بازی ہو رہی تھی۔ ٹی سی اے راگھوانی صاحب چونکہ تسلیم شدہ بھارتی سفارتکار ہیں اس لیے یہ ان کی ذاتی رائے بھی قرار نہیں دی جا سکتی بلکہ اس وجہ سے مذاکرات میں تعطل بھی آ سکتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر مقبوضہ کشمیر پر مذاکرات ہو بھی جائیں اور ہوتے بھی ہیں تو بھی نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے، اور ادھر ہماری حکومت بھارت کو افغانستان کے ذریعے اقتصادی راہداری میں شامل کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہے، جیسا کہ اس کی ترجیحات سے ظاہر ہے کہ حکومت عوامی مسائل کے حوالے سے پرلے درجے کی بے تدبیری کی شکار ہے تو کشمیر جیسے بڑے مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہ اہلیت کہاں سے لائے گی؟
واپسی...؟
پیپلزپارٹی کے ایک ترجمان کے مطابق اُن کے قائد آصف علی زرداری کی وطن واپسی کو کوئی نہیں روک سکتا اور وہ بہت جلد واپس آ رہے ہیں۔ یا تو یہ کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کہا گیا ہے اور یا حسبِ معمول کوئی مفاہمت ہو گئی ہے۔ جبکہ زرداری صاحب کی چالاکیاں اور حکومت کی ''دور اندیشانہ‘‘ مجبوریاں کسی بھی صورت حال کو کچھ دیر کے لیے ضرور تبدیل کر سکتی ہیں؛ تا ہم یقین تبھی آئے گا جب زرداری صاحب واقعی اس خاکِ پاک پر اپنا سبزقدم رکھیں گے...!
اصل اختیارات
ادھر اپنے شاہ جی نے کہا ہے کہ رینجرز کے معاملے کو کیوں بڑھایا جا رہا ہے، اختیارات تو میرے پاس بھی نہیں۔ بالکل ٹھیک کہا، اختیارات تو اس کے پاس ہیں جو انہیں دبئی سے استعمال کر رہا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر عاصم بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ جھگڑا تو کسی اور سے ہے اور پریشان مجھے کیا جا رہا ہے۔ گویا اس جھگڑے میں آپ کا کوئی حصہ اور کردار نہیں ہے۔ پولیس نے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے علاج کے الزامات تو ویسے بھی واپس لے لیے ہیں۔ اب دیکھیں نیب کہاں تک اس مقدمے کا بوجھ اٹھاتی ہے؛ تاہم اختیارات نہ سہی، شاہ جی اور ان کی کابینہ کی تو موج لگی ہوئی ہے، اجلاس اور ساری کی ساری اہم اور غیر اہم نشستیں دبئی میں ہو رہی ہیں، لیکن اگر زرداری صاحب واقعی واپس آ رہے ہیں تو یہ عیاشی بھی ختم ہو جائے گی۔ اس کے بعد بھی ع
چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے
آگے یا پیچھے...؟
ہمارے کرم فرما چوہدری نثار علی خان نے بہت زور دے کر کہا 
ہے کہ سندھ آپریشن آگے بڑھانے کے لیے وفاق اپنا کردار ادا کرے گا حالانکہ کسی کو بھی اس بارے کوئی خوش فہمی نہیں ہے کیونکہ اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ کیا یہ آپریشن اس حد تک آگے بڑھایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے؟ ہرگز نہیں، اس لیے کہ یہ راستہ سیدھا آصف علی زرداری تک جاتا ہے اور اگر راستہ وہاں تک پہنچ گیا تو نواز شریف بھی اسی راستے پر واقع ہیں۔ اس لیے یہ کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ زرداری گرفت میں آ جائیں اور اس آگ کے شعلے وہیں تک رہ جائیں۔ اس لیے زرداری کو پکڑنا حکومت کے لیے سیدھی سادی خود کشی ہو گی۔ اس لیے وہ سیاسی شہادت کو ترجیح دے گی، لیکن اس کے بعد بھی اتنا پانی پلوں کے نیچے سے گزر جائے گا کہ یہ لوگ یہی کہتے رہ جائیں گے کہ ع
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
اور اب ماہنامہ''اردو کالم‘‘ کے ایڈیٹر اور ہمارے شاعر دوست عابد سہیل کی فکر مندی جس کا اظہار انہوں نے اپنے خط میں کیا ہے:
کچھ دوست آپ کی شاعری کا انتخاب کر رہے تھے، اس کا کیا بنا؟ کیا وہ ابھی مکمل نہیں ہوا یا میری نظر کی کوتاہی کہ اس کے چھپنے کی خبر نہیں دیکھ سکا۔ میں اسے ضرور دیکھنا چاہوں گا کہ نیا شاعر آپ کی شاعری کے کون سے حصے کو آپ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور انتخاب چھپا تو اس پر ضرور لکھوں گا۔ آپ کے پڑھنے والوں کی اکثریت ابھی تک یہ امتیاز نہیں کر سکی کہ اس شاعری میں وہ خصوصیت کہاں ہے جسے ایک زمانے میں اینٹی غزل کہا گیا اور وہ نشانات کہاں ہیں جنہیں لسانی تشکیلات کے زمرے میں رکھا جانا چاہیے۔ غزل کے بیریئر توڑنے کی کوشش پر مبنی آپ کے اشعار کو بھی اچھی ادبی شہرت رکھنے والے بعض دوستوں کو لسانی کھاتے میں ڈالتے دیکھا سنا ہے۔ خواہ ان میں زبان کا برتائو ایسا کیسا ہی کلاسیکی ہو۔ اسی طرح وہ مقامات جہاں لسانی تشکیل کا کھردرا پن اپنی نا مانوسیت(ایک معنی میں تازگی) کے باعث اُجاگر ہو کر سامنے آیا ہے۔ اس پر نظر ڈالی بلکہ نظر رکھی جاتی ہے اور حسبِ توفیق، حسبِ منشا یا حسبِ ضرورت داد یا بے داد کا سزاوار ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن جہاں یہ تشکیل اپنی لطیف صورت میں سبک ہو کر ایسے ملائم ہو گئی ہے کہ مصرعے میں جذبِ ہو گئی ہے، اس کا تذکرہ کم لوگ کرتے ہیں؛ حالانکہ یہی وہ مقامات ہیں جو میرے خیال میں آپ کی غزل کے لسانی جائزے میں قابلِ توجہ ہیں۔ میں کسی وقت اس پر تفصیل سے لکھوں گا۔
آج کا مطلع
خواب سا کوئی منزل نما چل رہا تھا
میں کھڑا تھا مگر راستہ چل رہا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved