کون نہیں چاہتا کہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر سب کچھ مل جائے؟ لوگ عمل کے کنارے سے بہت دور خواہش کے دریا میں تیرتے رہتے ہیں۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انہیں تیرتے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرنی پڑتی یعنی وہ خود کو دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
سو دو سو روپے کا لاٹری ٹکٹ لے کر لوگ کروڑوں میں کھیلنے کے سپنے دیکھنے لگتے ہیں۔ خواہش صرف اتنی ہوتی ہے کہ سب کچھ مل جائے اور اس طور کہ بعد میں زندگی بھر کچھ نہ کرنا پڑے۔ ہزاروں، بلکہ لاکھوں افراد لاٹری کے ٹکٹ خریدتے ہیں مگر انعام تو چند افراد ہی کو ملتا ہے۔ باقی سب کے لیے معاملہ ٹائیں ٹائیں فش والا ہوتا ہے مگر پھر بھی لوگ چانس کے چکر میں رہتے ہیں، رسک لینے سے باز نہیں آتے۔
خواہش اور خام خیالی پر مبنی جو سوچ مالی معاملات میں کار فرما رہتی ہے وہی سوچ مختلف سطح کے سماجی تعلقات، دوستی اور محبت میں بھی اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ زندگی کا کوئی پہلو خواہش کی دست برد سے محفوظ نہیں۔ ہمیں دوست بھی وہ چاہیے جو تمام مسائل حل کردے۔ مداح ملے تو ایسا کہ تمام پریشانیاں دور کردے۔ یہی حال محبت کا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ڈھونڈے بغیر ہی کوئی ایسا چاہنے والا مل جائے کہ جسے پانے کے بعد دل میں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔
تائیوان سے خبر آئی ہے کہ وہاں ایک شخص بیس سال سے ریلوے اسٹیشن پر اُس لڑکی کا انتظار کر رہا ہے جس نے پہلی ملاقات میں چند روز بعد دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا تھا! جواں سال آہجی یونگ (جو اب ادھیڑ عمر کا ہوچکا ہے) ٹرین میں جارہا تھا کہ سامنے والی سیٹ پر ایک خوبصورت لڑکی آکر بیٹھی۔ آہجی نے دو تین رسمی جملوں کا تبادلہ کرنے کے بعد لڑکی سے نام پوچھ لیا۔ اُس کا نام ہچیکو تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ایک دوسرے میں دلچسپی لینے لگے۔ کچھ ہی دیر میں دِل مل گئے اور ''دو ستاروں کا زمیں پر ہے ملن‘‘ والا ماحول بننے لگا۔ اور پھر چلتی ٹرین ہی میں محبت کی ٹرین نے بھی پلیٹ فارم چھوڑ دیا!
تھوڑی دیر میں آہجی یونگ اور ہچیکو کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ جس ٹرین میں وہ سفر کر رہے ہیں اس کی رفتار زیادہ ہے یا ان کی نو زائیدہ محبت کی ٹرین زیادہ تیز دوڑ رہی ہے! ابھی باتوں کی ہانڈی اچھی طرح پکی بھی نہ تھی اور ''محبت کی سفارتی دستاویزات‘‘ یعنی وعدوں اور قسموں کا ڈھنگ سے تبادلہ بھی نہ ہوا تھا کہ ہچیکو کا اسٹیشن آگیا۔ جی تو نہیں چاہ رہا تھا کہ جُدا ہوں مگر جُدا تو ہونا تھا۔ انہوں نے دو تین دن بعد دوبارہ ملنا طے کیا۔ مقام اور وقت کا بھی تعین ہوگیا۔ اور ہچیکو نے ٹرین سے اتر کر اپنی راہ لی۔
مگر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ در حقیقت شروع ہی یہاں سے ہوا۔ ہچیکو نے بائے کہتے ہوئے رخصت چاہی تو آہجی نے اپنی تب تک کی یعنی معمول کی زندگی کو ٹاٹا کہتے ہوئے اپنی ٹرین انتظار کے سگنل پر روک دی! وہ ٹرین سے اترا اور گھر جانے کے بجائے پلیٹ فارم پر ہی کھڑا ہوکر ہچیکو کا انتظار کرنے لگا۔ ہچیکو نے پلیٹ فارم ہی پر ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ تیسرے دن کا وعدہ تھا مگر آہجی نے پہلے دو دن بھی پلیٹ فارم ہی پر گزارنا پسند کیا۔ تیسرا دن بھی آگیا مگر ہچیکو نہ آئی۔
معاملہ مایوس ہونے کا تھا مگر آہجی نے امید نہ ہاری یعنی انتظار کے خول سے باہر آنا مناسب نہ جانا۔ آہجی پلیٹ فارم ہی پر کھڑا ہچیکو کا انتظار کرتا رہا۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ پھر دوسرا ہفتہ بھی گزر گیا۔ مہینہ تمام ہوا۔ دن پَر لگاکر اُڑتے رہے۔ آہجی نے ہچیکو کے انتظار کو اپنے معمولات ہی نہیں، نفسی ساخت بلکہ پورے وجود کا حصہ بنالیا۔ اور پھر ہچیکو کا انتظار ہی ان کی واحد اور توانا ترین شناخت بن گیا۔ کوئی پوچھتا کون آہجی تو جواب ملتا وہی جو ہچیکو کا انتظار کر رہا ہے!
گھر والوں نے ہاتھ پیر جوڑ لیے۔ دوستوں نے سمجھایا مگر آہجی نہ مانا اور پلیٹ فارم پر ہچیکو کا انتظار کرتے رہنے کا اپنی واحد مصروفیت میں تبدیل کرلیا۔ ایک یا دو نہیں بلکہ پورے بیس سال ہوچکے ہیں مگر آہجی اُسی پلیٹ فارم پر اب تک ہچیکو کا انتظار کر رہا ہے۔ گھر والے کھانا وہیں پہنچا دیتے ہیں۔
آہجی نے تو مجنوں کو بھی مات کردیا۔ ہم مجنوں کی دیوانگی اور پاگل پن کو روتے تھے مگر ثابت ہوا کہ آہجی اُس سے بھی بڑا دیوانہ ہے۔ آپ کہیں گے ہمیں کسی کی محبت کا تمسخر اڑانے کا کوئی حق نہیں۔ ٹھیک ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ لوگ ایک ذرا سے اشارے یا چند لمحوں کی ملاقات کو پتا نہیں کیا کیا سمجھ بیٹھتے ہیں اور خوش گمانی کے محل تعمیر کرنے لگتے ہیں۔ یہ تو محبت کی جان پر ستم ڈھانا ہوا ناں! آہجی اور ہچیکو کی ملاقات جیسی ملاقاتیں قدم قدم پر ہوتی ہیں تو کیا ہر ملاقات کو محبت کی منزل سمجھ کر سامان اتار پھینکا جائے!
آہجی نے تو وہی معاملہ کیا کہ مان نہ مان، میں تیرا مہمان۔ ہچیکو نے ایک اور ملاقات کا وعدہ کیا کرلیا، آہجی تو عشق کے سنگھاسن پر براجمان ہوگیا! اگر محبت کرنے کا یہی معیار ٹھہرا تو چل چکی یہ دنیا! یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ کوئی ذرا سا مسکراکر دیکھے یا ہنس کر دو باتیں کرلے تو اِسے محبت کا گرین سگنل سمجھ کر ون وے ٹریفک شروع کردی جائے! آہجی کو اتنا تو یاد رکھنا چاہیے تھا کہ ع
آہ جو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک
اور اب وہ جس انداز سے اپنے وجود کو ضائع کرنے پر تُلا ہوا ہے اُسے دیکھ کر لوگوں کو کہنا ہی پڑے گا ع
کون جیتا ہے تِری زلف کے سَر ہونے تک!
آہجی کو اب کون سمجھائے کہ یہ زمانہ پہلی نظر یا ایک ملاقات میں محبت کا نہیں۔ پُلوں کے نیچے سے خاصا پانی گزر چکا ہے۔ ہماری زمین تیز تیز قدم مارتی ہوئی اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے۔ ہم خالص پیشہ ورانہ سوچ اور ہر معاملے میں مارکیٹنگ والے رجحان کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ اب محبت محبت ہے نہ نفرت نفرت۔ ہر چیز کچھ کی کچھ ہے۔ ہر جذبہ اپنا مفہوم بدل چکا ہے اور بیشتر حالات میں تو مفہوم کھوچکا ہے۔ آہجی ایک ملاقات میں ڈھیر ہوگیا۔ آج دس دس
ملاقاتوں میں محبت کی ایک دِیا سلائی تک نہیں جلتی، دِلوں کے جنگل میں آگ کیا خاک بھڑکے گی؟ کیفیت یہ ہے کہ لڑکی ہر روز ملاقات کرے تب بھی محبت کا دیدار نہیں ہوتا، ہاں ریسٹورنٹ میں کِھلائے ہوئے کھانے کے بل کے درشن باقاعدگی سے ہوتے رہتے ہیں!
ویسے آہجی اپنی شناخت بن جانے والے انتظار پر زیادہ نازاں نہ ہو۔ ہم بھی اُس سے کچھ کم نہیں۔ تقریباً سات عشروں سے ہم بھی خوش گمانی اور خام خیالی پر مبنی انتظار کے پلیٹ فارم پر کھڑے گڈ گورننس کی ٹرین کا انتظار کر رہے ہیں! سیاست اور مابعدِ سیاست کا کچرا ڈھونے والی مال گاڑیاں گزرتی رہتی ہیں، پلیٹ فارم پر چند لمحات کے لیے ایک شور سا اُٹھتا ہے اور پھر جھاگ بیٹھ جاتا ہے! ہمارے نصیب کی ٹرین کا آنا تو دور کا معاملہ ٹھہرا، اُس کی آمد کا اعلان تک نہیں ہوتا۔ حقیقی امن، استحکام اور خوش حالی کی ٹرین کی وِسل سُننے کو کان ترس گئے ہیں!
ہم نے وطن کے قیام کے بعد چند مثالی قائدین کو دیکھا تھا تو تائیوان کے آہجی کی طرح سوچ لیا تھا کہ اب ایسی ہی قیادت ملے گی تو ڈھنگ سے جئیں گے۔ جب ہماری ہچیکو نہ آئی یعنی قیادت کا مطلوبہ معیار نہ ملا تو ہم نے بھی ڈھنگ سے جینا چھوڑ دیا۔ گڈ گورننس اور بہتر حالات کی ٹرین ہے کہ آنے کا نام نہیں لیتی اور انتظار ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اور ... انتظار کس قدر جاں گسل ہوتا ہے یہ تو آپ بھی جانتے ہیں۔ انتظار کے عالم میں سب کچھ رک سا جاتا ہے، ''تعطل‘‘ پھیلتا جاتا ہے۔ بزرگ شاعر غالب عرفانؔ نے یہ کیفیت یُوں بیان کی ہے ؎
زمیں پر آسماں رکّھا ہوا ہے
اور اِنساں درمیاں رکّھا ہوا ہے