تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     18-12-2015

معاشی خود انحصاری

معاشی خود انحصاری کا خواب محصولات کی منصفانہ وصولی اور اُن سے عام لوگوں کی حالت کو بہتر بنائے بغیر ہرگز پورا نہیں ہو سکتا۔ 2016ء آیا چاہتا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کے پاس پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ اس کے برعکس وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے اقربا پروری، چمچہ گیری، نااہل افراد کی سرپرستی، قانون کی پامالی، شفافیت اور انصاف کی خلاف ورزی اور ان افعال کا محاسبہ کرنے والے اداروں کی تباہی روا رکھتے ہیں، اور ایسا کرتے ہوئے ریاست اور ریاستی اداروں کی آئینی فعالیت کو کسی نہ کسی بحران سے دوچار کر دیتے ہیں‘ تاکہ اُن کے مقاصد کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
''سٹیٹ آف پاکستان اکانومی‘‘ پر اپنی سالانہ رپورٹ میں سٹیٹ بینک آف پاکستان لکھتا ہے کہ ایف بی آر ٹیکسیشن کے فنی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح 8.5 فیصد سے 9.5 فیصد تک رہی ہے۔ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ 2018ء تک جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح 11.3 فیصد کرنے کے لیے حکومت کو معیشت کو ڈاکومنٹ کرنے اور ٹیکس کے دائرے کو بڑھانے جیسے مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔ 2014-15ء کے مالی سال کے دوران خسارے کی شرح جی ڈی پی کا 5.3 فیصد تھی۔ یہ شرح گزشتہ مالی سال کی نسبت قدرے کم‘ لیکن پھر بھی ہدف سے بہت زیادہ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ محصولات توقع کے مطابق جمع نہ کیے جا سکے۔ بجٹ میں تمام ٹیکسز، جو ایف بی آر نے اکٹھے کرنے تھے، کی شرح نمو 30.1 فیصد رکھی گئی تھی، لیکن دراصل شرح نمو ہدف سے بہت کم، 17.7 فیصد رہی۔ 
ٹیکس کی شرح کو متاثر کرنے والے عوامل یہ ہیں: (1) تیل کی قیمتوں میں شدید کمی، جس کی وجہ سے سیلز ٹیکس کا حجم کم ہو گیا۔ (2) ٹیکس کے نفاذ میں نہ ختم ہونے والے مسائل حل کرنے میں حکومت کی نااہلی، (3) پیداواری سرگرمی میں کمی کا رجحان۔ سٹیٹ بینک کے مطابق ٹیکس کے حصول میں جمود کے رجحان کی وجہ سے ترقیاتی اخراجات کو کم کرنا پڑا‘ تاکہ مالیاتی توازن کو مستحکم کرتے ہوئے خسارے کو حد کے اندر رکھا جائے۔ حکومت پبلک سیکٹر میں ہونے والے اخراجات میں 35.8 فیصد کی بجائے‘ صرف 14.1 فیصد اضافہ کر سکی۔ محصولات میں ہونے والی کمی کی وجہ سے ترقیاتی اخراجات کم کرنے پڑے۔ اس کا معاشی ترقی پر منفی اثر پڑا کیونکہ ترقیاتی اخراجات سرمایہ کاری بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں‘ لیکن کم محصولات کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ 
سٹیٹ بینک نے ٹیکس کے نظام کے بنیادی مسائل کی نشاندہی کی ہے، جو یہ ہیں: (1) ڈاکومنٹ کا فقدان اور غیر دستاویزی معیشت کا وسیع حجم، (2) ٹیکس چوری کی کم معاشی اور سماجی قیمت، (3) خود تشخیصی نظام کے تحت ٹیکس کی دائیگی میں حائل پیچیدگی، (4) ٹیکس اکٹھا کرنے والے شعبے کے انتظامی مسائل۔ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے عارضی بنیادوں پر کیے گئے اقدامات کام نہیں دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ محصولات میں اضافہ کرنے کی مصنوعی کوششیں، جیسا کہ حکومت کر رہی ہے، کار لاحاصل ہوں گی۔ اس کے لیے معاشرے کے تمام دھڑوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے والی ایک قومی کوشش کی ضرورت ہو گی۔ ایسی قومی کوشش کی بہت دیر سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ، لیکن لگتا ہے کہ سٹیٹ بینک کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا ہے۔ مزید تاخیر معاشی جمود کا باعث بنے گی اور معیشت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو گی۔ 2014-15ء میں ٹیکس اور غیر ٹیکس محصولات کا کل حجم 3931 بلین روپے تھا۔ اس طرح بجٹ میں طے شدہ شرح نمو میں نصف اضافہ ہی ممکن ہو سکا تھا۔ اس کی وجہ محصولات میں 319.6 بلین کمی تھی۔ غیر ٹیکس محصولات کی شرح ٹیکس محصولات سے بڑھ گئی۔ اس کی وجہ شاید کولیش سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی رقم تھی۔ ایف بی آر کی طرف سے 2015ء میں جمع کردہ محصولات 2588.2 بلین روپے تھے، جبکہ اصل ہدف 2810 بلین روپے تھا۔ 
2014-2015ء کے دوران اخراجات کی شرح 10.5 فیصد رہی۔ وفاقی حکومت کے اہم اخراجات میں سے چالیس فیصد 
صرف سابق قرضوں پر سود کی ادائیگی تھی۔ یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی حکومتیں مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ بھاری سود کی ادائیگی ہے۔ 2014-2015ء میں یہ ادائیگی 1303.8 بلین روپے تھی‘ جو جی ڈی پی کا 4.8 فیصد تھی۔ یہ صورت حال ہر گزرنے والے سال کے ساتھ خراب ہوتی جائے گی۔ سابق فنانس منسٹر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے خبردار کیا تھا: ''2018-19ء تک ہمارا کل قرضہ نوّے بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ اس وقت یہ 65 بلین ڈالر ہے۔ 
یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی حکومتیں محصولات جمع کرنے میں ناکامی رہتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ دولت مند اور خوشحال طبقے کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے پاکستان معاشی طور پر دیگر ریاستوں کا دست نگر بن چکا ہے۔ ہر کوئی آئی ایم ایف پر تنقید کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے اب حکومت کو چالیس بلین روپے کے اضافی ٹیکس لگانے پڑے ہیں، لیکن کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم پوٹینشیل کے مطابق ٹیکس جمع کرنے میں ناکام ہیں۔ ہماری غلطیوں کی وجہ سے پاکستان قرض کے نہ ختم ہونے والے جال میں پھنس چکا ہے؛ چنانچہ آئی ایم ایف کو مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا، اصل میں ہم قصوروار ہیں۔ پاکستان کے دولت مند اور خوشحال طبقے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ مزید ستم یہ کہ وہ عام ٹیکس 
دہندگان کی رقم پر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر شہروں میں اشرافیہ کے بنگلے، مہنگی گاڑیاں، غیر ملکی سفر، ہوٹلنگ اور دیگر تعیشات دیکھیں اور انکم ٹیکس کے سکڑے ہوئے دائرے پر نظر کریں‘ تو تمام مسائل سمجھ آ جاتے ہیں۔ ان کی تفہیم کے لیے آپ کو اکانومسٹ ہونے کی ضرورت نہیں۔ 
پاکستان میں غریب افراد پر بھاری بھرکم بالواسطہ ٹیکسز کا بوجھ لاد دیا گیا لیکن اشرافیہ ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ اس سے پیدا ہونے والی شدید معاشی ناہمواری ہمارے مسائل کی اصل جڑ ہے۔ اگر عوام جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر ہوں‘ اور جی او آرز کی سکیورٹی محفوظ قلعوں کی مانند ہو تو ریاست کی ترجیحات سمجھ میں آ جاتی ہیں کہ یہاں عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں واحد جرم غریب اور کمزور ہونا ہے۔ عوام کے لیے نہ تو تعلیمی سہولیات ہیں‘ نہ ہسپتال ہیں، ان کے لیے روزگار، پینے کا صاف پانی، سستی رہائش اور ٹرانسپورٹ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ اس وقت ستر فیصد سے زیادہ سیلز ٹیکس پٹرولیم کی مصنوعات سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کا دبائو غریب آدمی پر ہی پڑتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے زیادہ دانا ہونے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح کے تمام بالواسطہ ٹیکس کا بوجھ صارف پر ڈال دیا جاتا ہے؛ چنانچہ موجودہ معاشی نظام کے تحت امیر زیادہ سے زیادہ خوشحال جبکہ غریب زیادہ سے زیادہ غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ٹیکس ادا کرنے کے باوجود غریب آدمی کو سہولیات نہیں ملتیں۔ جب تک وسائل کا زیاں نہیں روکا جاتا اور معاشی ہمواری قائم نہیںکی جاتی، ہم معاشی خود انحصاری حاصل نہیں کر سکتے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved