تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     18-12-2015

قائد ملت کا دامن اور آلودہ ہاتھ

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مسلمانوں کی ایک دعا درج فرمائی ہے، وہ اپنے رب کریم کو مخاطب کر کے دعا مانگتے ہیں۔ اے مولا کریم! وہ ایمان والے جو ہم سے پہلے گزر چکے ان کے بارے میں ہمارے دلوں میں کینہ نہ پیدا ہونے دینا (القرآن)۔ قرآن نے اچھے مسلمانوں کا طرز عمل بتلا کر تعلیم و تربیت کا مندرجہ بالا مومنانہ رویہ اس لئے واضح فرمایا کہ یہودیوں میں سے بعض لوگ، جو یہود کے اشراف سے تعلق رکھتے تھے( اس میں سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہے اور دنیادار مذہبی اشرافیہ بھی) کردار کے بودے اور گھٹیا لوگ تھے لیکن چونکہ معاشرے کا نام نہاد عزت دار طبقہ تھے، لہٰذا اپنی بدکرداریوں کی شدت کو ختم کرنے یا کم کرنے یا یوں سمجھئے کہ اسے جائز بنانے کے لئے اپنی حرکتوں کی نسبت اپنے پاکباز اسلاف کی طرف کر دیتے کہ وہ بھی ایسے ہی کردار کے لوگ تھے جیسا کہ ہم لوگ ہیں۔ مثال کے طور پر بدفطرت یہود اشرافیہ، جو ضعیف الاعتقاد بھی تھی،کے لوگ جادو کرتے اور کرواتے بھی تھے۔ انہوں نے اس جادو کی نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف کر دی کہ وہ بھی جادو کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ جادو تو کفریہ حرکت ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام اس سے پاک تھے۔ وہ تو اللہ کے مقرب نبی تھے۔ اسی طرح یہود کے یہ اشراف، جو بدکرداری میں بہت آگے تک جا چکے تھے، اسے جواز فراہم کرنے کے لئے ان ظالموں نے حضرت دائود علیہ السلام کی مبارک ذات کو نشانے پر رکھ لیا اور ایک عورت بَت سبع زوجہ اوریا کا قصہ بنا کر اسے اپنی مذہبی کتاب کا حصہ بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے نبی حضرت دائود علیہ السلام کی شان بیان فرمائی اور یہود اشرافیہ کے الزامات کو رد فرمایا۔ 
ایسی حرکتیں کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے فطرت بھی بیان فرمائی کہ ان لوگوں کے پاس اگر امانت رکھی جائے تو اسے ہڑپ کر جاتے ہیں یعنی کرپشن کے انتہائی دلدادہ ہیں اور فرمایا کہ ان کے سر پرکھڑے رہو تبھی وہ امانت ملے گی یعنی کرپشن سے بنایا ہوا مال تبھی واپس ملے گا جب کوئی ڈنڈے والا ان کا خوب پیچھا کرے گا اور ایسا پیچھا کہ سر پر کھڑا ہو جائے، جان نہ چھوڑے اور جب اس کرپٹ کو پتہ چلے کہ مال نہ دیا تو جان نہ چھوٹے گی تب جا کر رقم واپس ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کی وجہ بھی بیان فرمائی۔ فرمایا: میرے رسولؐ! آپ تمام انسانوں میں انہیں زندگی پر بہت زیادہ حریص اور لالچی پائو گے، اس قدر لالچی کہ ان میں سے بعض لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ ان کی عمر ہزار سال ہو جائے۔ فرمایا: اگر بفرضِ محال اتنی عمر مل بھی جائے آخر کار تو مرنا ہی ہے۔ اپنے کرتوتوں کی سزا کو تو پھر بھی بھگتنا ہی ہے۔ یعنی ہدایت کی طرف آنے کے بجائے لمبی زندگی کی خواہش کریں گے۔ اپنی کرتوتیں نہیں چھوڑیں گے۔ (اللہ کی پناہ ایسے کردار سے)۔
قارئین کرام! آج جب میرے ملک پاکستان میں کچھ لچکدار قسم کا ڈھیلا ڈھالا احتسابی عمل جاری ہے، کچھ لوگ جانیں دے کر کردار ادا کر رہے ہیں، ضرب عضب کا آپریشن مختلف سمتوں میں جاری ہے تو زد میں آئے ہوئے پاکستانی اشرافیہ کے بعض لوگ پہلے تو یہ طعنے دینے لگے کہ وہ لوگ جو ہمارا احتساب کرنے جا رہے ہیں وہ خود بھی ہمارے جیسے ہیں، گویا انہوں نے تسلیم کر لیا کہ ہاں ہم کرپٹ ہیں مگر ہمارا احتساب کرنے والے بھی پاک نہیں ہیں۔ یہ جملہ بھی سننے میں آیا کہ ہمارا احتساب جاری ہے تو فلاں بھی چور ہے اسے کیوں نہیں پکڑا جا رہا۔ یعنی مانا کہ ہم بھی چور ہیں مگر ہم ہی کیوں؟ دوسرے بھی کیوں نہیں؟ جبکہ مجرموں پر ہاتھ ڈالنے والے کہتے ہیں کہ ہم تو بلاامتیاز کارروائی کر رہے ہیں مگر اشرافیہ اپنے شرف و اعزاز کو برقرار رکھنے کے لئے ایسے بیانات دیتے چلے جا رہی ہے کہ اعزاز کی عزت روزبروز دیمک زدہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورتحال سے اشرافیہ اس قدر گھبرا اٹھی کہ اس نے ان لوگوں کے دامن پر اپنا آلودہ ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا کہ جو دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں۔
ایک آلودہ ہاتھ قائد ملت لیاقت علی خان کی طرف بڑھا، وہ لیاقت علی خان کہ جو متحدہ ہندوستان کی مخلوط حکومت میں مسلم لیگ کی جانب سے وزیر خزانہ تھے۔ انہوں نے ایسا شاندار بجٹ بنایا کہ انگریز اور ہندو بھی ان کی لیاقت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کا دامن ایسا صاف تھا کہ اپنوں ہی نے نہیں، بیگانوں نے بھی اس کو سفید اور شفاف پایا۔ کرنال کی ریاست کا نواب جب پاکستان کا پہلا وزیراعظم بنا تو اس نے ہندوستان میں چھوڑی ہوئی جائیداد اور جاگیر کے بدلے ایک مرلہ زمین تک نہ لی، جب شہید ہوا تو لاش کا پوسٹمارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے بیان دیا کہ وزیراعظم نوابزادہ کی بنیان بھی پھٹی ہوئی تھی۔ جرابیں بھی پیوند زدہ تھیں۔ اوپر جو کوٹ تھا جسے اچکن کہا جاتا ہے وہ غربت اور سادگی پر پردہ ڈالے ہوئے تھا۔ وزیراعظم کے اکائونٹ میں غالباً صرف ایک سو روپیہ تھا۔ دہلی میں نوابزادہ کی جو کوٹھی تھی وہ پاکستان کو تحفہ میں دے دی تھی آج بھی اس میں ہمارا سفارتی عملہ بیٹھا ہے۔ ایسی محسن شخصیت پر حملہ... وہ کہ جو محسن بھی اور اس دنیا سے غیر حاضر بھی... اس کے دیانت دار دامن کو ایک بددیانت ہاتھ نے آلودہ کرنے کی کوشش اس لئے کی کہ اہلِ پاکستان کو بتایا جائے کہ ہم کرپٹ ہیں تو وہ جو پاکستان بنانے والے تھے وہ بھی...؟ اللہ کی پناہ ایسے انداز سے۔
میں کس کس کا ذکر کروں، سردار عبدالرب نشتر کاذکر کروں کہ قائداعظم کے دیگر سیاسی جاں نثاروں کا جن میں اکثر دیانتدار اور مخلص تھے۔ علماء کا تذکرہ کروں تو قائداعظم نے کراچی میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے کا آغاز اور افتتاح کروایا تو مولانا شبیر احمد عثمانی سے جنہوں نے دو کمروں میں زندگی گزار دی۔ مولانا سید دائود غزنوی کا جو کلیم کمیٹی پنجاب کے سربراہ تھے مگر اپنے لئے کچھ نہ لیا۔ مدرسہ کے دو کمروں میں زندگی گزار دی۔ مولانا شاہ احمد نورانی کا بھی یہی حال تھا۔ ان کے بزرگ، جو تحریک پاکستان میں قائداعظم کے ساتھی تھے، سب اسی کردار کے حامل تھے۔ نہ جانے کس نے ظلم کیا کہ قائداعظم کے منہ میں اپنا جھوٹا اور بہتان زدہ جملہ ڈالنے کی کوشش کر ڈالی کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ جناب کھوٹے سکوں سے کامیابیاں نہیں ملا کرتیں، ناکامیاں ملا کرتی ہیں اور تحریک پاکستان کا ثمر تو تاریخ کی ایک نمایاں کامیابی ہے جس کا نام پاکستان ہے اور جو عالم اسلام کے چہرے کا جھومر ہے، میں سمجھتا ہوں یہ طرز عمل جسے آج کی اشرافیہ نے اختیار کیا ہے اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرنا چاہئے۔ آج برداشت کر لیا گیا تو کل کو قائد اور اقبال کے دامن کی جانب بھی کوئی آلودہ ہاتھ اٹھے گا۔ نہیں جناب! قبل اس کے کہ کوئی آگے جائے، یہیں فل سٹاپ لگتا نظر آنا چاہئے۔ یہ ذمہ داری ہے میاں نوازشریف صاحب کی جو پہلے وزیراعظم (لیاقت علی خان) کی کرسی پر تشریف فرما ہیں، اللہ تعالیٰ ذمہ داری پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved