وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے برطانوی ہائی کمیشن سے ملاقات کے بعد فرمایا ہے کہ ان کا حالیہ دورۂ برطانیہ بہت ہی کامیاب رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں برادران کا حالیہ دورۂ برطانیہ نہیں بلکہ دورۂ لندن کامیاب رہا ہے جہاں بہت سے لوگوں سے میاں برادران کی ظاہری اور با طنی ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان کے اس دورہ کی سب سے اہم ترین خبر جسے انہوں نے کسی کو بھی بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی، وہ 2006ء میں رحمن ملک کی رہائش گاہ پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان طے پانے والے '' میثاق جمہوریت‘‘ کی مدت پوری کرتے ہوئے اسے جہاں متروک قرار دے دیا ہے، وہیں ضامنوں کی جانب سے بڑے فریق کو اس سے مکمل آزادی بھی عطا کر دی گئی ہے۔ لندن میں موجود اپنے ذرائع کے حوالے سے پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ نیا میثاقِ جمہوریت مسلم لیگ نواز اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان طے کرا دیا گیا ہے اور سندھ میں مستقبل کی سیا ست کے باہمی دوست نواز شریف اور الطاف حسین ہوں گے اور جناب اسحاق ڈار اس کی با قاعدہ گارنٹی بھی دے چکے ہیں اور برطانوی حکومت نے امریکہ سے منظوری لینے کے بعد اس پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری جو دسمبر کے آخری عشرے میں واپس آنے کی تیاریاں کر رہے تھے، میثاق جمہوریت کے ضامنوں سے مایوس ہونے کے بعد اب پاکستان واپس آنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ اگر زرداری صاحب 27دسمبر کی واپسی کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو یہ پاکستان کی سیا ست میں اک بھونچال سے کم نہ ہو گا ۔ زرداری صاحب بھی جان گئے ہیں کہ لندن میں یہ اصول بھی طے کرا دیا گیاہے کہ ملک میں ہونے والے مستقبل کے انتخابات کے نتیجہ میں سندھ میں نواز لیگ اور ایم کیو ایم کی حکومت ہو گی اور اب یہ ایک دوسرے کے اتحادی ہوں گے ۔
مسلم لیگ نواز جب کراچی میں مزارِ قائد پر آتش بازی کر رہی تھی، تب نائن زیرو پر لوگ اس انتظار میں تھے کہ مزار قائد کے بعد نہال ہاشمی گروپ نائن زیرو پر آتش بازی کا مظاہرہ کرے گا لیکن شائد ابھی کچھ پردہ داری مقصود ہے۔ میرے کراچی کے دوست اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن ٹھٹھہ میں شیرازی برادران اور کراچی کے ملیر اور مغربی حصوں میں نواز لیگ کے چند امیدواروں کی بلدیاتی انتخابات میں جیت ایم کیو ایم کی خصوصی شفقت کی مرہون منت ہے اور یہ اس عہدو پیمان کا با قاعدہ حصہ ہے جو آنے والے وقتوں میں سندھ میں نواز لیگ اور ایم کیو ایم کی مشترکہ حکومت کا نقطۂ آغاز بننے جا رہا ہے۔کراچی حیدر آباد سمیت سندھ کے شہروں میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایم کیو ایم حقیقت بن کر ایک بار پھر سامنے آ گئی ہے اور اس کا یہ مینڈیٹ ظاہر کر رہا ہے کہ الطاف حسین کی مقبولیت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا، ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس دفعہ ان کے حاصل کردہ ووٹوں کا تنا سب وہ نہیں جو انہیں اس سے پہلے ملا کرتا تھا۔ اس سے ایم کیو ایم بھی یقیناََ آگاہ ہو گی۔نہ صرف ملک بھر سے ایم کیو ایم کے ووٹرز اپنے ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے کراچی پہنچے بلکہ مڈل ایسٹ اور دنیا بھر سے کراچی پہنچنے والی فلائٹس اس بات کی گواہ ہیں کہ ایم کیو ایم کے ہمدرد ہزاروں کی تعداد میں اپنی جماعت کو سپورٹ کرنے کیلئے کراچی آئے۔کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعد ایک ٹی وی چینل پر عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید جن کی جماعت کو ایک نشست بھی نہیں ملی، اس بات پر خوش ہو رہے تھے کہ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کو چاروں شانے چت کر دیا ہے اور یہ وہی شاہی سید ہیں جنہوں نے قائد تحریک الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو لتاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ ان کی خیبر پختون خوا میں حکومت نے 2010ء میں ایبٹ آباد کے نہتے شہریوں پر گولیوں کی بو چھاڑ کر تے ہوئے بارہ لوگوں کو شہید کر دیا تھا اور بجائے شرمندہ ہونے کے فخر سے کہا کہ ہم نے تو پاکستان بنانے والوں سے بھا بھڑہ کا بدلہ لے لیا ہے۔
اخبارات اور ٹی وی چینلز پر سیا سی تجزیہ نگاروں اور مختلف جماعتوں کے ترجمان کسی دوسری جماعت کی شکست کی بات نہیں کرتے بلکہ ان کا نشانہ صرف اور صرف تحریک انصاف ہوتی ہے۔ پنجاب اور کراچی میں تحریک انصاف کے حاصل کردہ ووٹوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے تمام مقابل اور نواز حکومت کے میڈیا
دوستوں کی جانب سے یہی بات تکرار سے کہی جا رہی ہے کہ عمران خان کی مقبولیت بہت کم ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ حکومتی شخصیات اور ان سے منسلک حضرات یہ بتاتے ہیں کہ یہ سب ان کے نا کام دھرنوں، ریحام خان سے عجلت میں کی جانے والی شادی اور پھر طلاق کے باعث ہواہے اور کچھ لوگ عمران خان کی پارٹی پر کمزور گرفت اور غلط فیصلوں کو اس نا کامی کی وجہ بتا رہے ہیں۔وجہ کچھ بھی ہو مسلم لیگ نواز یہی تکرار کرتی رہے گی کہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف اب اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں لیکن ان کے اس نئے بیان سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ ان بلدیاتی انتخابات سے پہلے تحریک انصاف مقبول تھی۔
جیسا کہ بہت سے معروف تجزیہ نگار کئی بار کہہ چکے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کی خوش قسمتی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ90 ڈالر سے کم ہو کر35 ڈالر پر آ گئے ہیں بلکہ ایک حیران کن خبر یہ ہے کہ تیل کے آئندہ برس کے سودے صرف20 ڈالر پر کئے جا رہے ہیں جس سے نواز حکومت پٹرول کی قیمتوں میں غوطے کھانے سے محفوظ ہو چکی ہیں اور دوسری اس کے مقابل تحریک انصاف جیسی اپو زیشن جماعت ہے جس میں آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ کس کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور جہاں ہر ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائی ہوئی ہے۔ یاد نہیں پڑتا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی ورکنگ کمیٹی کا کبھی کوئی اجلاس ہوا ہو؟ ۔سونے پر سہاگہ تحریک انصاف کی رہی سہی کسر ایک بار پھر انٹرا پارٹی الیکشن کے اعلان سے مفلوج کی جا رہی ہے اور یہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب ان کی سب سے بڑی مد مقابل جماعت نے اپنے80 فیصدکے قریب اراکین اسمبلی کے لیے اگلے انتخابات کے ٹکٹ کی کنفرمیشن کرتے ہوئے انہیں اپنی انتخابی مہم چلانے کا حکم دے دیا ہے جس کے لیے صوبے اور ضلع کی انتظامیہ ادنیٰ کارکن کی طرح ان کے ا حکامات کی تعمیل کر رہی ہے۔
اگر کسی کو تحریک انصاف کی پنجاب میں مقبولیت پر کوئی شک ہے تو وہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے122 کے ضمنی انتخابی نتائج کو ایک بار پھر سامنے رکھ لے اور یہ وہ نتائج ہیں جو اسلام آباد سمیت پنجاب کی حکومت کے اپنے تمام وسائل اور سرکاری طاقت استعمال کرنے کے با وجود کافی حد تک تحریک انصاف کی مقبولیت کے حق میں آئے۔ تحریک انصاف کا وہ ووٹرجو مئی2013ء کے انتخابات کے دن سخت گرمی میں قطاروں میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کیلئے پنجاب بھر میں باہر نکلا، وہ ان بلدیاتی انتخابات میں کہیں بھی نظر نہیں آیا اور میں تحریک انصاف کے حامی ایسے بہت سے خاندانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے ان بلدیاتی انتخابات میں کسی قسم کی دلچسپی نہ لیتے ہوئے اپنے ووٹ بھی کاسٹ نہیں کیے جب کہ ان کے گھروں سے پولنگ اسٹیشن کا فا صلہ بمشکل ایک فرلانگ تھا۔جس طرح متحدہ قومی موومنٹ کا کراچی، حیدر آباد سمیت میر پور خاص، سکھر اور دوسرے شہروں میں ووٹ بینک پہلے کی طرح موجود ہے بعینہ اسی طرح تحریک انصاف کا لاہور سمیت پنجاب بھر میں ووٹ بینک موجود اور مضبوط ہے۔ ہاں اگر کوئی تحریک انصاف کی مقبولیت اور ووٹ بینک میں کمی پر بضد ہے تو ایسے لوگوں کے خواب و خیال پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی!