تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     18-12-2015

دل گداز نغمے کا شاعر اور قرار داد

ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر جانب انفارمیشن کا سیلاب بہہ رہا ہو‘ وہاں مجھے یہ جاننے میں کم و بیش ایک سال لگا کہ آخر اس دلگداز نغمے کا خالق کون ہے... ''بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے... میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے‘‘... آخر کار اس جذبوں بھری تخلیق کے پیچھے جو شخصیت موجود ہے آج اُس کا نام سب کو معلوم ہو چکا ہے ۔کیونکہ گزشتہ روز اس نغمے کے خالق میجر عمران رضا اور کمپوزر دونوں کی تفصیلات اس سولہ دسمبر کو میڈیا میں کھل کر آ چکی ہیں۔ میجر عمران آرمی کے حاضر سروس نوجوان ہیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس نغمے کے پیچھے کوئی معروف شاعر ہو گا۔ لیکن یہ سب میرے رب کی عطا ہے جسے وہ نواز دے۔میجر عمران رضا کے قلم سے یہ شاہکار قومی نغمہ تخلیق ہوا۔ گزشتہ برس جب 16 دسمبر 2014ء کو یہ سانحہ ہوا‘ پوری قوم غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ غم و غصہ کے جذبات کا ایک سمندر موجزن تھا مگر اس کو الفاظ کے پیرائے میں میجر عمران رضا نے ڈھالا۔ سانحے کے چند دِن بعد ہی یہ نغمہ منظر عام پر آگیا اور ہر پاکستانی کے دل کی آواز بن گیا۔ یہ نغمہ اس قدر دِل گداز ہے کہ اہلِ درد اور اہل دِل آنسوئوں کی جھڑی میں اس گیت کے بول سنتے ہیں: 
وہ جب آتے ہوئے مجھ کو گلے تم نے لگایا تھا
امان اللہ کہا مجھ کو میرا بیٹا بلایا تھا
خدا کی امن کی راہ میں کہاں سے آ گیا تھا وہ
جہاں تم چومتی تھی ماں وہاں تک آ گیا تھا وہ
یہ نغمہ جہاں شہید بچوں کی مائوں کی دِل کی آواز بنا‘ وہیں پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی بھی کی۔ دُکھ کی مشکل گھڑی میں اس نغمے نے پاکستانیوں کے زخموں پر مرہم رکھا اور پوری قوم کو بکھرنے سے بچایا۔ عرب‘ جنگوں کے مواقع پر اپنے اپنے شاعروں سے خصوصی طور پر ایسے اشعار لکھواتے تھے جن سے قبیلے کے اندر عزم‘ حوصلہ اور جرأت کے جذبات پیدا ہوں۔ میجر عمران رضا کے قلم سے نکلے اس دلگداز اور پُر اثر گیت نے ایسا ہی کارنامہ سرانجام دیا۔ میجر عمران رضا کہتے ہیں کہ 16 دسمبر 2014ء کا دِن قیامت خیز اور رات بہت بھاری تھی۔ ایک طرف وہ پاک آرمی کے آفیسر کی حیثیت سے اس ملک کی سرحدوں کے نگہبان اور دوسری جانب ایک شاعر کا حساس دِل ۔اُن کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ یا اللہ میں کچھ ایسا لکھ سکوں جو میری اور ہم وطنوں کے جذبات کی ترجمانی کر سکے اور پھر انہوں نے اُسی رات یہ شاہکار گیت لکھا جو آج ملک کے کونے کونے میں گونج رہا ہے اور حقیقتاً ایک پسندیدہ قومی نغمے کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ اس نغمے میں شہید بچوں کے جذبات کی ترجمانی تھی۔اسے گایا بھی ایک بچے اذان علی نے جس کی معصوم آواز نے شاعر کے بولوں کو ایک سوز اور سحر عطا کر دیا۔ اس 16 دسمبر کو ایک برس بیت گیا ۔ اس سے چند روز قبل آئی ایس پی آر نے میجر عمران رضا کا ایسا ہی ایک اور شاندار نغمہ ریلیز کر دیا۔ جس کے بول یوں ہیں۔ ''مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔ مجھے ماں اُس سے بدلہ لینے جانا ہے‘‘۔ یہ پہلے نغمے کا سیکوئیل ہے۔دونوں اپنی تاثیر کے اعتبار سے بے مثال ہیں۔
16 دسمبر کو پوری قوم میں یک جہتی نظر آئی۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں۔ شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور اے پی ایس پشاور میں ہونے والی مرکزی تقریب میں وزیر اعظم، آرمی چیف، وزرائے اعلیٰ اور عمران خان کی شرکت نے قوم کو وحدت اور یک جہتی کا پیغام دیا۔ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر اور سول ملٹری ادارے ایک صفحہ پر نظر آئے۔ 
16 دسمبر کو ایک جانب قوم دہشت گردی کے بھیانک سانحے کی پہلی برسی پر دنیا کو یہ پیغام دے رہی تھی کہ اب اس سرزمین پر دہشت گردوں کو کسی صورت پناہ نہیں ملے گی۔ دوسری طرف عین اُسی دن سندھ حکومت نے انتہائی بھونڈے انداز میں رینجرز کے اختیارات کو مشروط کرنے کے حوالے سے ایک ایسی قرارداد منظور کر لی جس کا فائدہ کسی طور پر کراچی کے شہریوں کو نہیں پہنچے گا بلکہ اس سے وہی عناصر مستفید ہوں گے جو لوٹ مار اور کرپشن کرنے کے بعد بھی قانون کی گرفت سے بچنا چاہتے ہیں اور اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کراچی میں ہونے والی مالی کرپشن کے ڈانڈے دہشت گردی سے ملتے ہیں۔ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ہر طرح کی کرپشن کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اس قرارداد کے مطابق پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے ایسی شرائط پر رینجرزکے قیام کی مدت میں توسیع کی ہے جو قابل قبول نہیں دکھائی دیتیں۔ 
وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان اس معاملے پر اب ٹھن چکی ہے۔ اس قرارداد کے مندرجات چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ سندھ کے کپتان اپنے باس کے احکامات کے مطابق یہی چاہتے ہیں: سائیں! ہم جو کچھ کر رہے ہیں ہمیں کرنے دو۔ آپ صرف چھوٹے موٹے ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کو پکڑو‘ بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے کا خیال آئے تو سندھ سرکار سے اس کی تحریری اجازت طلب کرو تا کہ مگرمچھوں کو بچانے کا بروقت بندوبست ہو سکے۔ اس قرارداد کو بغیر کسی بحث کے انتہائی عجلت میں منظور کرانے سے یہ تاثر ابھرا کہ صوبائی حکومت کو کراچی کے اندر حقیقی امن سے کوئی سروکار نہیں، جبکہ آج کراچی کا بچہ بچہ رینجرز کے گن گا رہا ہے۔ کراچی آپریشن نے امن وامان کی صورت بہت بہتر کر دی ہے۔ سندھ حکومت کی بدترین کارکردگی سے نالاں کراچی کے شہری کسی طور بھی نہیں چاہتے کہ شہرِ قائد کے امن کی محافظ رینجرز کو مفلوج کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت، امن بحال کرنے والی قوتوں کو مفلوج کر کے کس کو فائدہ دینا چاہتی ہے۔ قاتلوں کو؟قومی دولت لوٹنے والوں کو؟کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کو؟دہشت گردوں کے معاونین کو؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved