تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     19-12-2015

جلاوطن دارالحکومت

''لکھتے لکھتے‘‘۔ اس طرح کی سرخی عموماً تاخیر سے آئی ہوئی خبر پر لگائی جاتی ہے۔یعنی خبر اس وقت‘ نیوز روم میں آئے جب اخبار چھپنے چلا گیا ہو۔ تاخیر سے آنے والی خبر‘جلدی سے ‘پریس بھیجی جاتی ہے اور پرنٹنگ مشین کو روک کر‘ لگائی ہوئی اس خبر پر سرخی لگتی ہے '' چھپتے چھپتے‘‘۔ کالم لکھتے ہوئے اچانک کوئی خبر سامنے آجائے اور اس پر فوری تبصرہ کر دیا جائے تو اسے ''لکھتے لکھتے‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ کالم لکھنا ہی شروع کیا تھا کہ سابق وزیراعظم ‘یوسف رضا گیلانی کا بیان آگیا کہ پیپلز پارٹی کے بادشاہ سلامت‘ شہید بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریبات میں شرکت کے لئے پاکستان نہیں آرہے۔چار پانچ روز پہلے‘ سندھ کی صوبائی حکومت اونچی ہوائوں میں اڑ رہی تھی اور شاہ سائیں نے بڑھک ہانک دی کہ ہم رینجرز کو ہر معاملے میں آزادانہ دخل دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔اسے صرف چار معاملات میں دخل دینے کی اجازت دی جائے گی۔بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ‘ اغوا برائے تاوان اور فرقہ وارانہ قتل۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ شاہ سائیں ‘اتنے اعتماد سے اپنے فیصلوں کا قبل ازوقت اعلان نہیں کیا کرتے۔اصل میں ان کے استاد کا دبئی سے حکم آیا تھا‘جنہوں نے ایک چھوٹے سے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے فوج کو دھمکی دی تھی کہ '' لڑنا صرف انہیں ہی نہیں آتا‘ لڑناہم بھی جانتے ہیں۔ وقت آیا تو اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘۔ جوشِ خطابت میں انہوں نے دھمکی تو دے دی۔ بعد میں خیال آیا کہ اگر اینٹ سے اینٹ بجانا پڑ گئی تو پھر وہ کیا کریں گے؟ فوراً ہی بعد‘ موصوف نے دبئی کا ٹکٹ لے لیا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ انہوں نے پلٹ کر پاکستان کی طرف نہیں دیکھا۔ سند ھ میں اپنی حکومت کے وزیراعلیٰ سمیت‘ ساری کابینہ کو حسبِ ضرورت وہیں طلب کر کے یا ویڈیو لنک کے ذریعے احکامات جاری کر تے ہیں۔ عملی طور پر‘ پیپلز پارٹی سندھ کی ''جلاوطن حکومت‘‘ دبئی سے چلاتی ہے۔ 27دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا یوم شہادت ہے۔ وڈے سائیں کی طرف سے حکم آیا کہ '' میری پاکستان واپسی کا اعلان کر دو۔ عالم پناہ!ان تقریبات میں بنفس نفیس شرکت کریں گے‘‘۔
یہ خبریں میڈیا پر آگئیں۔ جیالے تیاریاں شروع کر بیٹھے۔ وڈے سائیں کے استقبال میں گلیوں اور بازاروں کو سجانے کے انتظامات ہونے لگے۔ میں نے زیر نظر کالم لکھنا ہی شروع کیا تھا کہ ٹی وی پریہ ٹِکر چلنا شروع ہو گیا کہ '' جناب آصف زرداری کی طبیعت خراب ہے۔ اس لئے وہ فی الحال پاکستان نہیں آئیں گے‘‘۔ آپ خود ہی قیاس کر سکتے ہیں کہ طبیعت کی خرابی کا سبب کیا ہے؟وڈے سائیں کو بہت دنوںسے فوج پر غصہ تھا۔ یہ نیا غصہ اس وقت آیا جب ڈاکٹر عاصم حسین کو‘ رینجرز نے گرفتار کر لیا۔ انہیں90دنوں کے ریمانڈ پر لے کر‘بڑے اہتمام سے شوٹنگ کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک کہنہ مشق اداکار کی طرح نئی سے نئی کہانیاں سنائیں۔90دن میں وہ اتنا کچھ بیان کر گئے کہ متعدد کتابیں بن سکتی ہیں۔رینجرز والوں کا ابھی دل نہیں بھرا تھا ۔وہ مزید کہانیاں حاصل کرنے کے خواہش مند تھے کہ سائیں کی سرکار کا شکنجہ کس دیا گیا اورانہیں حکم ملا کہ ڈاکٹر عاصم کے مقدمے کی پیروی کرنے والے وکلا کی ٹیم کوہدایات دے دی جائیں کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے لئے مزید ریمانڈ نہ مانگیں اور ساتھ ہی انہوں نے رینجرز کو دھمکی دے دی کہ ہم اسے بلاروک ٹوک لوگوں کو پکڑنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ اس سلسلے میں ایک قرارداد تیار کر کے‘ اسمبلی میں پیش کر دی گئی۔ شاہ سائیں سے کہا گیا کہ جتنے تفتیشی محکمے ‘صوبائی حکومت کے ماتحت ہیں‘ انہیں حکم دے دیا جائے کہ اگر رینجرز‘ڈاکٹر عاصم کا مزید ریمانڈ مانگے تو دیگر تفتیشی محکمے‘ انہیں اپنا مہمان بنانے کا تقاضا کریں۔ مجھے پتہ نہیں کچہری میں کیا ہوا؟ لیکن بہر حال ڈاکٹر عاصم کا ریمانڈ نیب والے لے گئے۔ آپ جانتے ہیں کہ نیب کے سربراہ کا تقرر ‘اپوزیشن اور حکومت دونوں اتفاق رائے سے کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے چیئرمین نیب کے آدھے باس‘ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ ہیں۔ اس بات کی تسلی ہو گئی کہ ریمانڈ کے دن پورے ہوتے ہی‘ ڈاکٹر عاصم کو پیپلزپارٹی کے جلاوطن دارالحکومت دبئی بھیج دیا جائے گا۔ اس دوران وڈے سائیں خود پاکستان تشریف لا کر‘ شہید بی بی کی برسی کی رسومات میں شرکت کریں گے۔ چند روز کراچی میں گزاریں گے ۔ حالات کا جائزہ لے کر دیکھیں گے کہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی گنجائش موجود ہے یا نہیں؟ لیکن ان کی پاکستان واپسی سے پہلے ہی‘ رینجرز نے اپنے تیور دکھا دیے۔ اس کی طرف سے واضح کر دیا گیا کہ وہ بے دست و پا ہو کر اپنے فرائض انجام نہیں دیں گے۔اگر کراچی میں امن و امان بحال کرنے کا مشکل کام مزید جاری رکھنا پڑا تو وہ انہی اختیارات کے تحت کریں گے‘ جو انہیں اس وقت دستیاب ہیں۔ یہ صاف جواب آنے پر ‘جلا وطن دارالحکومت میں بھی کھلبلی مچ گئی۔ شاہ سائیں کی حکومت کی ٹانگیں لرزنے لگیں۔ کہاں تو وہ بڑھکیں 
لگا رہے تھے کہ ہم رینجرز کو صرف چار ڈیوٹیاںادا کرنے کی اجازت دیں گے‘ باقی سب کچھ شاہ سائیں کی حکومت خود کرے گی۔رینجرز کی طرف سے ٹکا سا جواب ملنے پر‘شاہ سائیں کے اوسان خطا ہو گئے۔ اب انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پاس ہونے والی قرارداد کا کیا کریں؟ نوٹیفکیشن کر دی جائے تو اس پر عملدرآمد کون کرے گا؟ رینجرز وفاقی حکومت کا ادارہ ہے۔ جو عارضی طور پر کراچی شہر کی بدامنی اور لاقانونیت ختم کر کے‘واپس چلی جائے گی۔رینجرز نے چند ماہ کے اندر ہی بد امنی کے پرخچے اڑا دیے۔اغوا برائے تاوان'' اغوا برائے نام‘‘ بن کر رہ گیا۔ ٹارگٹ کلرز اپنی جانیں بچانے کے لئے شہر سے بھاگ گئے اور مختلف شہروں میں جا کر‘ موبائل فون اور خواتین کے پرس چھین کر گزر اوقات کرنے لگے۔ہر قسم کی لوٹ مار اور جرائم میں کمی واقع ہو گئی ۔ کراچی میں رہنے والوں نے شہر میںامن بحال ہوتے دیکھ کرسکھ کا سانس لیا اور جتنے لوگ شہر کے حالات دیکھ کر‘اندرون اور بیرون ملک جا کر آباد ہونے کی سوچ رہے تھے‘ ان سب نے 
ارادے بدل دیے۔کراچی شہر جہاں ہڑتال کی کال آنے پر‘ دیکھتے ہی دیکھتے سارے بازار بند ہو جایا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ پھیری‘ ریڑھی اور چھابا لگانے والے بھی‘ تیز رفتاری سے گھروں کی طرف جانے لگتے۔ ایک موقعے پر عادی ہڑتالیوں نے نئی کال دی۔ رینجرزنے تاجروں سے اپیل کی کہ وہ اس کال کو ہرگز خاطر میں نہ لائیں۔ اپنا کاروبار معمول کے مطابق شروع کریں۔ انہیں ہر طرح کا تحفظ دیا جائے گا۔دکانداروں نے ڈرتے ڈرتے دکانیں کھولیں۔چھابے اور ریڑھیوں والے بازاروں میں نکلنے لگے اور پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد ‘کراچی میں معمول کی رونقیں بحال ہو گئیں۔ وہ دن اور آج کا دن‘ کراچی میں دوبارہ ہڑتال کی کال سننے میں نہیں آئی۔کراچی کے شہری جو25,20 برس سے ہڑتال کا لفظ سن کر ‘فٹا فٹ کاروبارچھوڑ دیتے تھے‘ پہلی مرتبہ ہڑتالیوں کی نافرمانی کر کے‘ دھڑلے سے کاروبار کرتے رہے۔ کوئی ان کا کچھ نہ بگاڑ پایا۔ اس پر عام شہریوں کے حوصلے بھی بلند ہو گئے اور وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ‘ کام کاج میں مصروف رہنے لگے۔ ظاہر ہے کہ رینجرز کا ڈنڈا دیکھ کر دہشت گرد ‘ شر پسند عناصر اور جرائم پیشہ لوگ‘ منظر سے غائب ہو گئے لیکن روزگار بند ہونے پر کون صبر سے بیٹھ سکتا ہے؟ ان تمام عناصر نے جلاوطن دارالحکومت کو شکایات بھیج کر التجائیں کیں کہ عالی جاہ! آپ واپس تشریف لائیں۔ ہمارا کاروبار بھی بند ہے۔ ڈاکٹر عاصم بھی اندر ہے۔ ایسے حالات میں دھندہ کیسے چالو رہ سکتا ہے؟ وڈا سائیں نے جوش و خروش میں پھر واپسی کا اعلان کر دیا۔عین اسی وقت‘ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آگئی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ قاتلوں نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔ تحقیقاتی ایجنسی‘ پہلا چالان بھی مکمل کر چکی ہے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی ایف آئی آر میں الطاف حسین کو بھی نامزد کر دیا ہے۔ ان کے علاوہ انور علی بھی نامزد ہو گئے ہیں۔ یہ بڑے بڑے نام دیکھ کر‘ ڈاکٹر عاصم کی رہائی کے انتظار میں بیٹھے ہوئے دبئی کے مہمان واپسی کے خیال چھوڑکے ‘گا رہے ہیں۔
نالے لمبی تے نالے کالی 
ہائے وے چنا رات جدائیاں والی
تادم تحریر اس قرارداد کا کوئی پتہ نہیں جسے سندھ اسمبلی میں بڑے اعتمادسے پاس کیا گیا تھا۔ کچھ پتہ نہیں اس کی ابھی تک نوٹیفکیشن ہو سکی ہے یا نہیں۔ وڈے سائیں کا تالی کی آواز پر فوراً اڑ کے دبئی جا پہنچنا تومعمول کی بات ہے لیکن دبئی سے واپس کراچی آنا‘ا ب معمول کی بات نہیں رہ گیا۔اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ ٹِکر الطاف حسین بھائی پر مقدمہ ہونے کا چلتا ہے اور سیٹ دبئی سے کینسل ہو جاتی ہے۔ابھی سندھ اسمبلی کی قرارداد کی نوٹیفکیشن نہیں ہوئی کہ اینٹ سے اینٹ بجانے والے‘ چٹکیاں بھی مشکل سے بجاتے ہیں۔ادھر شاہ سائیں جو رینجرز پر پولیس کی طرح حکم چلانے کے خواب دیکھنے لگے تھے‘ ایسے دُبک کے بیٹھے ہیں جیسے عقاب کو جھپٹتے دیکھ کر‘ چھوٹے چھوٹے پرندے اپنے سر پروں میں چھپا لیتے ہیں۔پاکستانی عوام مستقبل سے مایوس ہو کر‘ آئندہ زندگی کی ہیبت ناکی کا تصور کر کے‘ خوفزدہ بیٹھے تھے۔اب ان کی آنکھوں میں امید کی چمک پیدا ہو رہی ہے۔وہ دعائیں کر رہے ہیں کہ ''اے اللہ! اب کے آنے والی جمہوریت ایسی نہ ہو‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved