قومی صحت پروگرام پر موثر عمل
یقینی بنایا جائے۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''قومی صحت پروگرام پر مؤثر عمل کو یقینی بنایا جائے‘‘ اگرچہ صحت اور تعلیم پرخرچ کیے جانے والے زیادہ تر فنڈز اورنج ٹرین وغیرہ پر استعمال کیے جا رہے ہیں لیکن آخر ول پاور بھی تو کوئی چیز ہے جس کے سہارے ہر کارنامہ سرانجام دیا جا سکتا ہے جبکہ ہم نے الیکشن بھی محض وِل پاور ہی کے سہارے جیتا تھا اور ساری دنیا حیران و پریشان ہو کر رہ گئی تھی کہ جن عوام نے اپنے مسائل کی خاطر سڑکوں پر نکلنا تھا وہ نہ صرف ہمیں ووٹ دے رہے تھے بلکہ ساتھ ساتھ انتظامیہ ‘پولیس اور پٹواری حضرات کو بھی خوش کر رہے تھے کیونکہ سب کو ہمارا یہ ماٹو اچھی طرح سے یاد تھا کہ سب کچھ مل جُل کر ہی کرنا چاہیے ۔ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پروگرام کا مقصد غریب ترین افراد کو مُفت علاج کی سہولت فراہم کرنا ہے‘‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ روز بروز غریب ترین افراد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اس لیے ہم نے ان کا معاملہ اللہ میاں پر چھوڑ دیا کہ وہ جانیں اور اُن کا کام۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے بعد ملکی
ترقی پر توجہ دے رہے ہیں۔ اسحق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خاتمے کے بعد ملکی ترقی پر توجہ دے رہے ہیں‘‘ جبکہ دہشت گردی کا خاتمہ اب تو
یقینی سمجھنا چاہیے کیونکہ اس کے سارے اختیارات سندھ حکومت نے خود سنبھال لیے ہیں اور اسی کی جانفروش پولیس اس جنگ میں حسب معمول فتح کے جھنڈے گاڑ کر رہے گی اور رینجرز سے گلو خلاصی کرا لی ہے جن کی نیّت ہمارے بارے میں بھی ٹھیک نہیں تھی‘ تاہم ‘ ان کی اشک شوئی اور گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑنے کے لیے حکومت کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی ورنہ حکومت کے ساتھ کچھ ہو جانے کا خطرہ ہر وقت موجود رہے گا اور جہاں تک مُلکی ترقی کا تعلق ہے تو خزانے کو پورم پور بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے لیے آئی ایم ایف وغیرہ موجود ہیں کیونکہ پیسہ تو پیسہ ہی ہوتا ہے چاہے وہ قرض لے کر حاصل کیا جائے‘ اور جب ان پیسوں کی واپسی کا وقت آئے گا تو ہمارا بنجارا پہلے ہی لاد چکا ہو گا اور یہ مصیبت سیدھی سیدھی آنے والی حکومت کے گلے پڑ جائے گی۔ آپ اگلے روز امریکی سفیر سے باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کر رہے تھے۔
کراچی آپریشن ہر صورت جاری
رکھا جائے گا۔ عابد شیر علی
وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ''کراچی آپریشن ہر صورت میں جاری رکھا جائے گا‘‘ اور اب سندھ پولیس کو اپنے جوہر دکھانے اور رہی سہی کسر نکالنے کا موقع ملے گا جس کی مدد کے لیے نیب کا صوبائی محکمہ بھی موجود ہو گا جو پلی بارگیننگ کر کر کے مجرموں کو نشانِ عبرت بنا دے گی بلکہ انہیں چھٹی کا دُودھ یاد دلا دے گی جو مختلف وارداتوں میں مصروف ہونے کی وجہ سے انہوں نے بُھلا رکھا تھا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے گی جس میں پائپ پھٹنے والا پانی بھی شامل ہو گا جس کی مرمت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس کا امکان بھی پورا پورا موجود ہے کہ پانی سر سے ہی گزر جائے اور ہم سارے کے سارے دیکھتے ہی رہ جائیں جبکہ ہمارے ہاں بھی نیب اپنی کارکردگی کی روشن مثالیں قائم کر رہا ہے اور اپوزیشن کا یہ مطالبہ سراسر ناجائز ہے کہ رانا مشہود کا ٹیپ بھی جاری کیا جائے کیونکہ اس طرح کے ٹیپ جاری کرنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ محفوظ رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کنٹرول
میں ہیں۔ بلال یاسین
صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین نے کہا ہے کہ ''اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کنٹرول میں ہیں‘‘ اور جب بھی کنٹرول سے باہر ہونے لگتی ہیں کوئی نہ کوئی نیا ٹیکس لگا دیا جاتا ہے جس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے وہ کنٹرول سے مزید باہر ہو جاتی ہیں اور ہمیں اس طرح کے بیانات دینا پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دال مسور کی نئی فصل بازار میں آنے سے قیمت کم ہو رہی ہے‘‘ جس کا علاج بھی بہت جلد کر لیا جائے گا کیونکہ ذخیرہ اندوز حضرات بھی ہمارے اپنے ہی ہیں جبکہ ہم نے اس محاورے کو بھی سچ ثابت کر نا ہوتا ہے کہ یہ مُنہ اور مسور کی دال‘ اس لیے کوئی شکایت آنے سے پہلے عوام کو اپنا مُنہ غور سے دیکھ لینا چاہیے‘ بجائے اس کے کہ وہ ہمارا مُنہ دیکھتے رہ جائیں جبکہ انہیں ویسے بھی مُنہ دھو رکھنا چاہیے کیونکہ صفائی بہرحال اچھی چیز ہوتی ہے بلکہ صفائی تو نصف ایمان ہوتی ہے اور ہمارے مقابلے میں عوام کو کم از کم نصف ایمان کا حامل تو ہونا ہی چاہیے۔ آپ اگلے روز سول سیکرٹریٹ لاہور میں کابینہ پرائس کنٹرول کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
اور‘اب اقتدار جاوید کی یہ تازہ نظم:
اندھراتا
میں پردہ گرانے لگا ہوں...پلک کو پلک سے ملانے لگا ہوں...زمانہ مرے خواب میں آکے رونے لگا ہے...میں اونٹوں کو لے آئوں... آخر کہاں جا کے چرنے لگے ہیں...جہاں پر...پرندے پروں کو نہیں کھولتے ہیں...جہاں...سرحدیں ہیں فلک جیسی قائم... وہاں پائوں دھرنے لگے ہیں...میں بھیڑوں کو دوہ لوں... کئی مائوں کی چھاتیاں... چھپکلی کی طرح... سوکھے سینے کی چھت سے... ایک عرصے سے لپٹی ہوئی ہیں... اُنہیں جا کے موہ لوں... کئی فاختائیں... کہ واپس پلٹنا تھا جن کو... چمکتی دوپہروں سے پہلے... وہ مرگ آسا اندھے خلائوں میں... بھٹکی ہوئی ہیں... گدھے والا... بے وزن روئی کو لادے ہوئے... شہر سے لوٹ آیا ہے... ہلکی تھی روئی... بہت بھاری دن تھا... طلہ دوز تاجر سے... موتی بھی لانے کا... اس سے کہا تھا... جو رنگین عروسانہ جوڑے میں... جڑنے ہیں... ناداں دُلہن کو بھی معلوم ہے... تیز بارش تو ہونی ہے... اولے تو پڑنے ہیں... نازک سی ٹہنی پہ جُھولا ہے... جُھولے کی رسّی ہے نازک...سو رسّی میں بل آخرِ کار پڑنے ہیں... اندھراتا بڑھنے لگا ہے... مچھیرے نے دریا سے واپس بھی آنا ہے...تندور میں... گیلی شاخیں جلانی ہیں... تندور کی طرح... خوابوں بھری جل رہی ہے... اسے بھی... کُشادہ‘ بھرے بازوئوں میں تو آنا ہے!
آج کا مقطع
چھلکے سے پھسلے ظفر
کھا کر کیلا پیار کا