ہمارا جمہوری سیٹ اپ ایک بار پھر نشانۂ تضحیک بنا ہوا ہے ، لیکن اس کی ذمے داری ہماری سیاسی قیادت پر عائد ہو تی ہے ۔ کراچی میں دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے رینجرز کے آپریشنل اختیارات میں توسیع کے مسئلے کو بلا سبب متنازع بنا دیا گیا ہے ، کاش کہ ایسا نہ ہوتا ۔ ہم دشمن ملک کے ساتھ توبیک ڈور ڈپلومیسی یعنی پسِ پردہ مذاکرات کے لیے روابط قائم کرنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ، لیکن خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ خود اپنے درمیان اس شِعار کو اختیار کرنے میں کیا قباحت محسوس کررہے ہیں ۔ افسوس ہے کہ ہمارے انتہائی ذمے دار اہلِ اقتدار ، جن میں وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خاں اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید احمد شاہ شامل ہیں ، اپنے تفکرات یا تشویش یا شکایات کو میڈیا کے ذریعے فریقِ مخالف تک پہنچانا بہتر سمجھتے ہیں ۔ ذمے دار مناصب پر فائز یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ براہِ راست روابط قائم کر کے مسئلے کو حل کرنے کی حکمتِ عملی کیوں نہیں اختیار کرتے؟ یہ دونوں حضرات انتہائی تجربہ کار (Seasoned) سیاست دان ہیں ، جناب سید قائم علی شاہ کی مجبور ی تو یہ ہے کہ ان کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے ، اسی لیے اُن کا ذاتی جوہر (Talent)تاحال پردۂ اِخفا میں ہے ۔
اس کا ایک سبب ہمارے اقتدار برادران کے فنا فی الذات ہونے کا مزاج ، شانِ بے اعتنائی اور معاملات کو ابتدائی مراحل میں مداخلت کرکے حل نہ کرنے کی روش ہے ، جو کسی بھی صورت میں قابلِ تحسین نہیں ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنابِ آصف علی زرداری اور ان کی صوبائی حکومت کو رینجرز سے بعض شکایات ہیں ، کیونکہ وہ عوام کی طرف سے تفویض کردہ استحقاقِ حکومت (Mandate)کو تمام اخلاقی و قانونی ضوابط سے ماورا سمجھتے ہیں ۔ ہمارے ہاں مینڈیٹ سے بالعموم یہی سمجھا جاتا ہے کہ ہمیں سب کچھ کرنے کی آزادی ہے اور کسی کو روک ٹوک کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو ہماری آئینی و قانونی حدود میں مداخلت کرتا ہے۔ اگر ہم حکمرانی کی اقدار کے اعتبار سے آئیڈیل پوزیشن میں ہوتے تو بلا شبہ صوبائی حکومت کا موقف درست مانا جاتا ، لیکن بدقسمتی سے صورتِ حال ایسی نہیں ہے ، بلکہ اس کے برعکس ہم نظامِ حکومت میں دیانت وامانت کا کوئی ادنیٰ معیار بھی قائم نہیں کر پائے ، اس لیے ہر طرف سے انگشت نمائی ہوتی ہے ۔ ہمارے سلامتی کے ادارے جب ہمارے سول نظام کے اندر جھانک کر دیکھتے ہیں تو انہیں سارا منظر انتہائی کریہہ اور گھناؤنا نظر آتا ہے ۔
ہماری رائے میں جنابِ چوہدری نثار علی خاں کو چاہیے تھا کہ معاملات کو میڈیا میں لانے کے بجائے کراچی آتے اور وزیرِ اعلیٰ سندھ جناب سید قائم علی شاہ سے ملاقات کرکے مسئلے کو حل کرنے کی کوئی تدبیر نکالتے ۔ انہوں نے جن متبادلات (Options)کا ذکر کیا ہے ، آئینی و قانونی حدود میں رہتے ہوئے وہ کچھ زیادہ امید افزا نہیں ہیں ۔کسی صدارتی آرڈیننس کے اِجرا کی صورت میں بھی اس کی مدت 120دن سے زیادہ نہیں ہوتی اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ایک ہی آرڈیننس کی بار بار تجدید کوئی اچھی جمہوری قدر نہیں ہے اور چوہدری صاحب کو بھی بخوبی معلوم ہے کہ سینٹ کا کنٹرول جنابِ آصف علی زرداری کے پاس ہے ۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان تناؤ کی فضا رینجرز کی ساکھ اور کارکردگی کو بھی متاثر کرے گی ۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان چیف آف آرمی سٹاف ، کمانڈر کور 5 اور ڈی جی رینجرز یعنی قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کریں اور پھر ان کے تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سندھ کے ساتھ بھی ایک اجلاس منعقد کریں ۔ پھر فریقین کے تحفظا ت کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی درمیانی راہ نکالیں اور دونوں میں بے اعتمادی اور فاصلہ کم کرکے مشترکہ اجلاس منعقد کریں اور اتفاقِ رائے سے ایک قابلِ عمل طریقۂ کار وضع کریں تاکہ ملک کے بہترین مفاد میں دونوں فریق لفظاً و معنی ً اس کی پابندی کریں ۔ظاہر ہے کہ کسی متفقہ فیصلے تک پہنچنے کے لیے فریقین پر لازم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کریں ۔
کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات کو اچھالنا تو آسان ہے ، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، یہ نوشتۂ دیوار ہے جو عقل کے اندھوں کے سوا سب کو نظر آتا ہے ، مگر اس کا عدالتی طریقۂ کار اور معیارات کے مطابق ثابت کرنا اتنا آسان نہیں ہے ، جبکہ اس میں مبتلا لوگ خود اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوں اورتحقیق و تفتیش کے ادارے ان کے اشارۂ ابرو کے محتاج ہوں ۔ ''بات سچ ہے ،مگر بات ہے رسوائی کی ‘‘کے مصداق ہمیں اعلیٰ جمہوری اقدار اور عادلانہ ومنصفانہ شِعارِ حکومت کے یوٹوپیا تک پہنچنے کے لیے کافی طویل سفر طے کرنا ہے اور اس عبوری دور میں شکست و ریخت کے بجائے اپنے ریاستی اور جمہوری اثاثے کو بچاتے ہوئے آگے چلنا ہے ، اسی میں ہماری بھلائی کا راز پوشیدہ ہے ۔
ہمارے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے گزشتہ ایک عشرے میں نئی سیاسی وصحافتی اصطلاحات متعارف کرائی ہیں ، جن سے ہماری اردو لغت پہلے آشنا نہیں تھی ۔ ان اصطلاحات میں غیرت بریگیڈ ، سیاپا فروش اور سیاپا گروپ وغیرہ شامل ہیں ۔ سو ہر روز سرِ شام ایک نئی سیاسی کھچڑی نئے بارہ مصالحے والی چاٹ کے ساتھ تیار ہوتی ہے ، عہدِ حاضر کی دانش کے ہمارے امام اس کی مارکیٹنگ کرتے ہیں ، نئی نئی بشارتیں اور وعیدیں سناتے ہیں اور ہر روز ایک انقلاب بر پا کرتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی جبیں کی شکنیں پورے نظام کی بساط کو لپیٹ دیں گی ، لیکن تا حال اللہ تعالیٰ پاکستا ن پر مہربان ہے ۔ عالمی حالات سازگار نہیں ہیں ، ہمیں نئے نئے الجھاوے نہیں پیدا کرنے چاہیں ، بلکہ بساط بھر کوشش کرنی چاہیے کہ پہلے سے بگڑے ہوئے حالات کو سلجھا ئیں ۔
صوبۂ سندھ کی دوسری بڑی اور شہری سندھ کی نمائندہ سیاسی جماعت ایم کیو ایم کنارے پہ بیٹھ کے تماشا دیکھ رہی ہے اور لطف اندوز ہو رہی ہے۔ وہ صوبائی حکومت کی رسوائی اور بے چینی کا بھی حَظ اٹھا رہی ہے اور اسے رینجرز کے لا محدود اختیارات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے ، کیونکہ اس کے اپنے تحفظات ہیں ۔اس کی خواہش ہے کہ وفاق یا صوبۂ سندھ خود ضرورت مند بن کر ان کی طرف جھکیں اور انہیں گود لے لیں ۔ سو ایم کیو ایم کوہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ
کے لیے اپنے تنظیمی چہرے کو نرم اور پرکشش (Soft) بنانے کا یہ بہترین موقع ہے ۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے ماضی کے ناپسندیدہ تاثر (Image)سے جان چھڑائیںاور مصنوعی طور طریقوں سے نہیں بلکہ مثبت انداز سے
پورے ملک میں اپنے لیے ایک درجۂ قبولیت پیدا کریں ۔ ماضی میں مصنوعی طریقے اختیار کرکے وقت اور وسائل کے ضیاع اور ان کے بے مقصد ہونے کا نتیجہ آپ خود دیکھ چکے ہیں ۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ماضی کے برعکس ایم کیو ایم نے اپنے آپ کو مثبت تبدیلی کے لیے نسبتاً بہتر انداز میں آمادہ کیا ہے اور انہوں نے حالات کے جبر پر بے قابو نہ ہونے اور تحمل کا جو مظاہرہ موجودہ حالات میں کیا ہے ، کاش کہ وہ اس کو اپنے مزا ج کا جز وِ لایَنفک بنا لیں۔
سب کی خواہش ہے کہ ایم کیو ایم کے لوگ کراچی شہر کی بہتری کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلیں ، مقامی حکومت کی گورننس کو بہتر بنائیں ، چھوٹے سے لے کر بڑے سے بڑے سرکاری مناصب پر تقرریا ں میرٹ پر ہوں ، کیونکہ ساٹھ ستر اور اسی کے ابتدائی عشرے تک کراچی کا واحد مطالبہ میرٹ تھا ، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ اپنے عہدِ اقتدار میں ایم کیو ایم اس معیار پرپورا نہ اتر سکی ۔ہماری بھی خواہش ہے کہ سندھ کی حکومت کراچی کی مخصوص حالات و ضروریات اور مسائل کا ادراک کرے ، اس میگاپولیٹن شہر کے لیے با اختیار اور منصفانہ وسائل سے آراستہ مقامی حکومت کا ڈھانچہ وضع کرے ، لیکن اس میں تحدید و تواز ن کا کڑا نظام بھی ہونا چاہیے ۔ اگر بہت پہلے ایسا ہوا ہوتا تو کراچی کی افتادہ زمینیں ، پارکس ، رفاہی پلاٹس حتیٰ کہ فٹ پاتھ بھی جواہلِ کراچی کی آنے والی نسلوں کی امانت تھے، دشمن کے مالِ غنیمت کی طرح لوٹ مار کا شکار نہ ہوتے ، اس میں کے پی ٹی ، واٹر بورڈ اور دیگر شہری اداروں کے زمینی اثاثے بھی شامل ہیں ۔پس اب وقت آگیا ہے کہ کراچی کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے معیاری تعلیم اور معیاری مقامی حکومت کا کوئی قابلِ رشک نظام وضع کیا جائے ۔کراچی کا افتخار میرٹ تھا ، لیکن آج پبلک سیکٹر کے تعلیمی اداروں کی حد تک یہ انتہائی تنزل کا شکار ہے اور ایم کیو ایم اس سے اپنے آپ کو بر ی ٔالذمہ قرار نہیں دے سکتی، بلکہ اگر جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ شاید اس کی سب سے بڑی ذمے داری اسی پر عائد ہوتی ہے ۔(نوٹ : یہ کالم 15دسمبر کو لکھا گیا ہے)
اِستدراک :'' زبان و بیان ‘‘ کے عنوان سے کالم کو ادیبِ شہیر جناب شکیل عادل زادہ اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی اور دیگر اہلِ علم نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور جناب شکیل عادل زادہ نے اس سلسلے کو جاری رکھنے کا مشورہ دیا اورکہا کہ پِتّا اور پَتّا(Leaf) بھی ہندی الفاظ ہیں اور الف کے ساتھ ہی ہیں ، میں نے ان سے عرض کی: ترقیِ اردو بورڈکی اردو لغت میں ہ کے ساتھ بھی ہے ، تو انہوں نے کہا : اس کی ہر بات ثقہ نہیں ہے، انہوں نے قدیم شُعَراء کے اشعار یا اُدَباء کے کلام سے استشہاد کیا ہے ، لیکن ہر ایک کا سند ہونا ضروری نہیں ہے ۔