تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-12-2015

لا وارث گدھوں سے ذرا بچ کے

راہ چلتی مصیبت کو پکار کر اپنی طرف متوجہ کرنا اور گلے لگانا ہماری پرانی عادت ہے۔ ہم اپنی یعنی انفرادی عادت کی بات نہیں کر رہے۔ یہ تو پوری قوم کا تذکرہ ہے۔ ''آ بیل، مجھے مار!‘‘ کے مصداق ہم کسی بھی غیر متعلقہ مصیبت یا پریشانی کو یوں گلے لگاتے ہیں کہ پھر اُسے اپنے سے الگ کرنا زندگی کا سب سے بڑا دردِ سر ہو جاتا ہے۔ 
مگر خیر، اپنے ہی گلے کے لیے تلوار تلاش کرنا صرف ہماری خصلت نہیں۔ اس معاملے میں امریکی بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بلکہ کبھی کبھی وہ اس معاملے میں سب کے سردار دکھائی دیتے ہیں۔ امریکی شہر اوکلاہوما میں ایک پولیس اہلکار نے لاوارث گھومنے والے گدھے کو لفٹ کرائی یعنی گاڑی میں بٹھالیا۔ یہ گدھا اپنے مالک سے بچھڑ گیا تھا۔ ویسے خیر سے خود امریکہ بھی مزاجاً ایسا ہی واقع ہوا ہے یعنی مالک سے بچھڑا ہوا محسوس ہوتا ہے! خیر، لاوارث گدھے کو لفٹ کرانا پولیس اہلکار کے لیے زیادہ خوشگوار تجربہ ثابت نہ ہوا۔ گدھا سفر کے دوران مسلسل ہلتا رہا جس کے باعث گاڑی کا توازن بھی بگڑتا رہا اور پھر اس نے بات بات پر ڈھینچوں ڈھینچوں کرکے پولیس اہلکار کو شدید دردِ سر سے بھی دوچار کیا۔ پھر بھی اس نے کسی نہ کسی طور گدھے کو اس کے مالک تک پہنچانے کی راہ ہموار کردی۔ 
جو کچھ پولیس اہلکار نے کیا وہی امریکی قیادت بھی ایک زمانے سے کرتی آئی ہے۔ راہ میں جو بھی لاوارث گدھا ملتا ہے اسے اپنانے میں وہ خاصے گدھے پن کا مظاہرہ کرتی ہے! اب تک اس نے کئی بار یہ تماشا کیا ہے یعنی خود کو تماشا بنایا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پولیس اہلکار نے 
لاوارث گدھے کو محض لفٹ دینے تک محدود رہنا گوارا نہ کیا بلکہ گدھے کو اس کے وارث تک پہنچانے میں اپنا کردار بھی ادا کیا۔ امریکی پالیسیوں اور سیاسی قیادت کا یہ وتیرہ نہیں۔ وہ کسی بھی معاملے کو لاوارث گدھے کی طرح اپنی گاڑی میں بٹھا ضرور لیتی ہے مگر جب کیس بگڑنے لگتا ہے یا بگڑ ہی جاتا ہے یعنی معاملہ کسی صورت ہاتھ میں نہیں رہتا تب وہ اِس گدھے کو کسی کے بھی سَر منڈھ کر آگے بڑھ جاتی ہے! 
جنوبی کوریا، ویت نام، نکارا گوا، پنامہ، افغانستان، عراق، لیبیا، شام ... گنتے ہی چلے جائیے۔ یہ تمام ممالک وہ ہیں جہاں امریکی خود سَری اور سَرکشی کے بیل نے سینگوں سمیت سمانے کی کوشش کی مگر اس کی ہر کوشش (یعنی سازش) بری طرح بیک فائر کرگئی۔ خرابیاں ختم تو کیا ہوتیں، کم بھی نہ ہوئیں بلکہ بڑھتی ہی چلی گئیں۔ امریکہ نے جہاں بھی قدم رکھا وہاں معاملات کو درست کرنے میں ناکام رہا اور آخر کار مزید خرابیاں پیدا کرکے رخصت ہوا۔ کیوں؟ اس لیے کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے انجام کے بارے میں سوچا نہیں جاتا۔ امریکی قیادت کے دل و دماغ کو اس خوش فہمی یا غلط فہمی نے جکڑ رکھا ہے کہ یہ دنیا اگر سُدھر سکتی ہے تو اُسی کے ہاتھوں اور اگر کسی کا کچھ بھلا ہوسکتا ہے تو صرف اُس کی مدد سے۔ بہت سے مریض معاشروں کا علاج کرنے کی دُھن میں مگن ہوکر امریکی قیادت نے ایسا بہت کچھ کیا کہ اُن معاشروں پر موت آسان ہوگئی! 
ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی پروپیگنڈا مشین انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پالیسیوں کی بھرپور ناکامی کو کامیابی قرار دینے میں شرم محسوس کرتی ہے نہ ہچکچاہٹ۔ جب بھی امریکی فوج کسی ناپسندیدہ صورت حال کی دلدل میں پھنستی ہے تب امریکی قیادت قوم کو یقین دلانے لگتی ہے کہ جو کچھ وہ کر رہی ہے وہی بہترین پالیسی ہے اور جو تھوڑی بہت ناکامیاں دکھائی دے رہی ہیں وہ بعد میں کامیابی جیسی دکھائی دینے لگیں گی۔ اور امریکی عوام کے پاس بے مثال پروپیگنڈا مشینری کی بات کو سچ مان لینے کے سوا آپشن ہی کیا ہے! 
ہر معاملے میں امریکہ کی خوشنودی چاہنے کی روش پر گامزن رہنے سے ہم میں بھی اچھی خاصی بے ذہنی، ڈِھٹائی اور بے رحمی پنپ چکی ہے۔ امریکی قیادت اپنی غیر دانش مندانہ اور بے رحمانہ پالیسیوں کے نتیجے میں اچھی خاصی خرابیاں پیدا کرنے کے بعد جن گدھوں کو راستے ہی میں گاڑی سے اتار دیتی ہے انہیں ہم بخوشی گلے لگاتے ہیں! افغانستان کے کیس میں یہی ہوا تھا۔ امریکہ نے اپنی گاڑی سے جس گدھے کو اتار پھینکا تھا اسے ہم نے بخوشی گلے لگایا اور اس قدر جھیلا کہ بالآخر دنیا کو آکر ہماری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہنا پڑا کہ بس بھی کرو یارو! جو معاملات امریکہ کے لیے بیک فائر کر جاتے ہیں ان تمام معاملات کو ہم نے حرزِ جاں بنائے رکھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے! 
ہر دور اور ہر خطے کی دانش یہی کہتی ہے کہ جس معاملے سے کوئی تعلق نہ بنتا ہو اُس سے دور ہی رہنا چاہیے۔ راہ میں بہت کچھ پڑا ہوا ہوتا ہے مگر ہر چیز کو اٹھاکر اپنے سامان کا حصہ تو نہیں بنالیا جاتا۔ بہت سے معاملات کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوتا ہے۔ یعنی ع 
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو! 
اور اگر کوئی تعلق استوار کرنا ہی ہو تو اس وقت کیا جائے جب ایسا کرنے کی دعوت دی جائے۔ بن بلائے مہمان کی طرح کسی بھی معاملے کی محفل میں گھس جانا اپنے ہی گلے کا پھندا بنا کرتا ہے۔ 
اکیسویں صدی کی دانش تو چیخ چیخ کر محض تقاضا نہیں بلکہ مطالبہ بھی کر رہی ہے کہ راہ چلتے، لاوارث گدھوں جیسے معاملات کو اپنی گاڑی میں بٹھانے سے حتی الوسع گریز کیا جائے۔ اہل جہاں تو اکیسویں صدی کے تقاضوں کو سمجھ رہے ہیں اور اس کے مطابق اپنی طرز عمل بھی تبدیل کرلی ہے مگر ہم ہیں کہ مفت ملنے پر بھی نہ اپنائے جانے والے معاملات کو بخوشی اپناکر اچھی خاصی قیمت ادا کرنے پر آمادہ و بضد رہتے ہیں! اس روش پر گامزن رہنا ہم کب چھوڑیں گے، کچھ اندازہ نہیں ہو پاتا۔ ہر گزرتا ہوا دن ہمیں غیر متعلق معاملات کی دلدل میں اتارتا جارہا ہے۔ 
ہم نے بہت سے لاوارث گدھوں کو اپنے فکر و عمل کی گاڑی میں سوار کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں ہمارا پورا سفر داؤ پر لگ گیا ہے۔ ہر غیر متعلق معاملے کو اپنے وجود سے دور رکھنا ہی حقیقی عملی دانش ہے۔ ہر معاملہ ہمارا نہیں اور ہر معاملے کو درست کرنا ہماری ذمہ داری بھی نہیں۔ پرائے پھڈوں میں ٹانگ اڑانے کی کوششیں ہمارے معاملات کو بھی الجھن سے دوچار کرتی رہیں گی۔ ہر غیر متعلق معاملے کو گلے لگانے کی عادت سے چھٹکارا پانے کی کوشش تک ہم بھی اپنی تباہی کا سامان کرتے رہیں گے اور ہماری پالیسیاں بھی بیشتر امریکی پالیسیوں کی طرح بیک فائر کرتی رہیں گی۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ امریکہ تو اس پوزیشن میں ہے کہ چند ایک بڑے معاملات کا بیک فائر کر جانا بھی جھیل سکے۔ ہمارا تو کوئی ایک معاملہ بھی بیک فائر کر جائے تو جان پر بن آتی ہے، حواس کام نہیں کرتے اور ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ جاتے ہیں! جب تک کسی بلنڈر کو جھیلنے کی سکت پیدا نہیں ہو جاتی، بہتر یہی ہے کہ لاوارث گدھوں کو اپنی گاڑی سے اور غیر متعلق معاملات کو اپنی زندگی سے دور رکھا جائے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved