تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     19-12-2015

پانی کے لیے بھی ضرب عضب

بارسلونا کنونشن کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے بھارت جب بار بار پاکستانی نہروں کی بندش کرنے لگا تو اس وقت لیاقت علی خان نے ملکی وسائل سے ہیڈ مرالہ کی تعمیرکے علاوہ بی آر بی نہر بنا کر بھارت کی آبی اور فوجی جارحیت کا توڑ نکالا۔دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے سنگین اختلافات پر ورلڈ بینک کے تحت ہونے والے طویل سہ فریقی مذاکرات کے نتیجے میں 19 ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی کا معاہدہ عمل میں آیا۔ ٹریٹی کے منظور ہوتے ہی بھارتی آبی جارحیت کا دوسرا مرحلہ مکمل ہو گیا جس کے تحت اس نے تیزی کے ساتھ راوی‘ بیاس اور ستلج کے پانی کو کنٹرول کرنے کے بعد پاکستان کے خلاف تیسری آبی جارحیت شروع کر تے ہوئے پاکستان کے باقی ماندہ دریائوں چناب‘ جہلم او ر سندھ پر ٹریٹی کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے دھڑادھڑ ڈیم بنانے کے منصوبوں پر عمل درآمد شروع کر دیا جبکہ مقابلے میں پاکستان کے آبی ماہرین نے راوی اور ستلج کی زرخیز وادیوں کی آبادکاری کے لئے محض سطحی منصوبے بنانے پر اتفاق کیا۔ پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان وادیوں کے کاشتکاروں نے ٹیوب ویل کا بے دریغ استعمال کیا‘ جس سے زیر ِزمین پانی کی سطح گرنا شروع ہو گئی اور اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ راوی، بیاس اور ستلج کی تہذیبیںاپنی معاشی بدحالی کی وجہ سے نوحہ کناں ہیں۔یہ کیسا معاہدہ ہے جس کے تحت بھارت پاکستان کی جانب پانی کی روانیوں پر ہائیڈرل پاور ہائوس بنا سکتا ہے اور اس معاہدے کے تحت ہر ہفتہ پورا پانی ریلیز کرنے کی ذمہ داری بھی بھارت کے پاس ہے۔ اسی طرح پاکستان کے تینوں دریائوں سندھ جہلم اور چناب پر ہمارے پاس کوئی بڑا ڈیم بنانے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ اگر ایک ایک شق سامنے رکھیں تو اس ضمن میں انڈس واٹر ٹریٹی میں بھی کوئی ابہام نہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی دریائوں کے امین ادارے انڈس واٹر کمیشن پاکستان کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ انڈس واٹر ٹریٹی کی مخالفت میں کسی بھی بھارتی منصوبے کو فوراً آشکار کرتا اور اگرٹریٹی کے خلاف کوئی کام کیا جاتا تو بھارت کے خلاف کارروائی کرتا‘ اس سے تو یہی تاثر ابھرتا ہے کہ انڈس واٹر کمیشن پاکستان کے حکام نے اپنا فرض نہیں نبھایا۔ وہ بھارتی ڈیموں کی تعمیر سے لا تعلق رہا یوں بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکام بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔
پاکستان کو بنجر بنانے کے منصوبے میں بھارت تین مغربی دریائوں سندھ ‘جہلم اور چناب پر اب تک 173 ڈیم بنا چکا ہے جن میں سے 62 ڈیم بڑے اور درمیانے سائز کے ہیں لیکن انڈس کمیشن سمیت کل اور آج کی حکومتیں‘ بھارت کا ہاتھ روکنے کی بجائے آنکھیں موندے اونگھتی رہیں ۔ 
صرف وقت گزارنے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے انڈس واٹر کمیشن پاکستان کے حکام کی بھارت یاترا ئیںبھی جاری رہیں جنھیں خوش فعلیاں کہہ لیںیا پھر بھارت کی آبی جارحیت کے منصوبوں کو صیغہ ٔراز میں رکھنے کاکوئی نام دے دیں لیکن اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے بگلیہار ڈیم کو ٹیسٹ کیس کے طور پر اپنایا گیا۔ امن کے گیت گاتے اور مذاکرات جاری رکھتے ہوئے بھارت کو بگلیہار ڈیم مکمل کرنے کا موقع فراہم کیاگیااور اس کا90 فیصد کام مکمل ہونے پر انڈس کمیشن کے پاکستانی حکام عوام کو دکھانے کے لئے بگلیہار ڈیم کا کیس ورلڈ بینک کے نیوٹرل ایکسپرٹ کے پاس لے گئے جبکہ یہ گھر بیٹھے بھی جانتے تھے کہ بگلیہار ڈیم کی تعمیر انڈس واٹر ٹریٹی 1960 ء کی صریح خلاف ورزی تھی۔ کیس کے دوران پاکستانی مشن نے معمول کی بحث کے علاوہ اہم پوائنٹس پر کوئی بات نہ کی۔ ٹریٹی کی منظوری کے وقت پاکستان نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستانی پانیوں پر واٹر سٹوریج کے لئے کوئی ڈیم نہ بننے دیا جائے گا کیونکہ اس سے ان دریائوں کے پانی کا کنٹرول بھارت کے پاس چلا جانے سے پاکستان کی زراعت بری طرح متاثر ہو گی۔ پاکستان کے اس حق کو سندھ طاس معاہدے میں اس شق کے ساتھ واضح کر دیا گیا تھا۔۔
Pakistan pointed out that the flow of the Western rivers without the facility for storage of water as India had developed at Bhakra dam would fail to meet the water requirements at critical sowing periods. 
لیکن ورلڈ بینک کے نیوٹرل ایکسپرٹ نے پاکستان کے مفادات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے صرف ڈیم کو کامیاب بنانے کے لحاظ سے اپنی رائے دی بلکہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960ء میں ترمیم کرنے کا اشارہ بھی دیا۔نیوٹرل ایکسپرٹ کے اس متنازع فیصلے کو International Court of Orbitration میںبھی چیلنج نہ کیا گیا۔ 330 میگا واٹ کاکشن گنگا ڈیم جو مقبوضہ کشمیر میں دریائے گنگا پر اور850MW Ratle ہائیڈرو پاور پروجیکٹس تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کو ایک ماہ نوٹس کا نوٹس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کیس کو کسی غیر جانبدار فورم میں لے جانے کیلئے وہ اپنی رائے سے آگاہ کرے لیکن بھارت نے پاکستان کی اس درخواست پرکوئی توجہ نہ دی۔ اس لئے اب ضروری ہو چکا ہے کہ پاکستان کشن گنگا اور ریٹل کے مقدمے کو عالمی عدالت میں لے جائے لیکن '' خدا کیلئے اس بار کشن گنگا کا مقدمہ عالمی عدالت میں لے جاتے ہوئے اسے بھی ضرب ِعضب کی طرح قومی سلامتی کی طرح لڑا جائے‘ نہ کہ پہلے کی طرح خاموش رہ کر! شنید ہے کہ پاکستان نے اس سلسلے میں ایک امریکی قانونی فرم کی خدمات حاصل کر لی ہیں جبکہ نیسپاک اور واٹر کمیشن اسے ٹیکنیکل معانت دے گی۔ انڈس واٹر کمیشن کو ہیگ عدالت کی جانب سے بھارت کو دیئے جانے والے اس حکم کو سامنے رکھتے ہوئے کیس کی تیاری کر نی ہو گی جس کے تحت کشن گنگا سے پاکستان کو پانی کے Flow بارے واضح کر دیا گیا ہے ۔۔ ۔۔یہ سب اس لئے یاد دلایا جا رہا ہے کہ اس سے پہلے بھی پاکستانی مشن اپنا کیس براہ راست عالمی عدالت میں لے کر گیا تھا کیونکہ ٹریٹی کے تحت بھارت پاکستانی پانیوں کو نہ تو روک سکتا ہے‘ نہ ہی اس کا رخ تبدیل کر نے کا حق رکھتا ہے لیکن کشن گنگا ڈیم میں پانی کے رخ کو تبدیل کرنے کے لئے بنائی جانے والی سرنگ کے حوالے سے پاکستانی کمیشن نے کوئی رائے دینے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی اور نہ ہی کشن گنگا ڈیم کی تعمیر رکوانے کے لئے Stay کی ڈیمانڈ کی جس پر بھارتی مشن کی خوشی سے بانچھیں کھل گئیں۔پھر پاکستانی میڈیا کے سختی سے نوٹس لینے پر چھ ماہ کی تاخیر سے Stay حاصل کیا گیا لیکن پھر بھی پانی کی سرنگ کے حوالے سے کوئی اعتراض نہ اٹھایا ۔ واضح رہے اگر سرنگ کے ذریعے جہلم کے پانی کا رخ تبدیل کر دیا جاتا ہے تو نہ صرف نیلم جہلم پروجیکٹ اور کوہالہ ہائیڈروپروجیکٹ متاثر ہوںگے بلکہ منگلا ڈیم کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی۔ بھارت کی انہی سرقہ بالجبر کی وارداتوں کے بارے میں پاکستانی اداروں کی خاموشی انہیں مجرم قرار دیتی ہے جس سے پاکستان کے مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سابق پاکستانی کمشنر سید جماعت علی شاہ کسی طرح بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ وہ خود تو کینیڈا سدھار چکے ہیں لیکن ان کی ٹیم کے دیگر افراد ابھی تک اپنے عہدوں سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریٹائر ہونے والے ایک عہدیدار پر سارا ملبہ ڈالنے کے بجائے باقی افراد کا بھی سختی سے محاسبہ ہونا چاہیے جن کی وجہ سے پاکستانی مفادات کو شدید نقصان پہنچا ہے کیونکہ یہ اربوں نہیں کھربوں کی کرپشن ہے ۔
انڈس واٹر ٹریٹی 1960 ء میں پاکستان کے حق کی مکمل تشریح کر دی گئی ہے۔ یہ ہماری غفلت ہے کہ ہم ڈیم نہ بنا سکے اور ہماری کروڑوں ایکڑ اراضی آج تک کاشت نہیں ہو سکی۔ صوبہ خیبر پی کے میں جنوبی پانچ اضلاع کرک ‘بنوں‘ لکی مروت‘ ٹانک اورڈیرہ اسماعیل خان کی آباد کاری صرف کالا باغ ڈیم کے ذریعے ممکن ہے۔ اگر خیبر پختونخوا کے کچھ لوگ کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں تو وہ در اصل ان علاقوں کے پختونوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔۔۔!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved