وزیر اعظم گیلانی بولے، میں چاہتا ہوں ڈاکٹر ظفر الطاف ہمارے ساتھ کام کریں، ہم ان کی قابلیت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، آپ انہیں راضی کریں، وہ جو عہدہ چاہتے ہیں دینے کو تیار ہوں‘ میرے زراعت ایڈوائزر لگ جائیں، زرعی ترقیاتی بینک کے صدر یا پھر کوئی اور عہدہ۔ مجھے یاد آیا‘ جب بے نظیر بھٹو وطن لوٹی تھیں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا‘ بینظیر نے کہا تو ان کے ساتھ دوبارہ کام کروں گا۔ ان کی موت کے بعد کئی دن دکھی رہے۔ ایک دفعہ تو آنکھیں بھیگ گئیں۔ پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت بنی تو میں نے ایک دن پوچھ لیا، اگر حکومت کہے تو آپ ان کے ساتھ کام کریں گے؟ بولے نہیں یار، اب اس عمر میں ان کی نوکری نہیں ہو گی، یہ لوگ مجھے اس طرح برداشت نہیں کریں گے‘ جیسے بی بی کرتی تھیں۔ اپنے اوپر نئے مقدمات بنوانے اور نئی ذلت کا کیا فائدہ! ان خیالات میں غلطاں، میں نے وزیر اعظم گیلانی سے کہا، آپ کی سب باتیں اپنی جگہ لیکن وہ آپ کے ساتھ نہیں چل سکیں گے‘ وہ جس مزاج کے ہیں، میں انہیں جانتا ہوں، آپ رہنے دیں۔ گیلانی صاحب نے ہمت نہ ہاری اور بولے، وہ جس طرح کی ضمانت چاہتے ہیں دینے کو تیار ہوں کہ ان کے کام میں مداخلت نہیں ہو گی۔ میں نے کہا‘ سر! کوشش کرتا ہوں اگرچہ وہ ذہن بنا چکے ہیں کہ کام نہیں کریں گے۔ وزیر اعظم ہائوس سے سیدھا ان کے گھر گیا۔ مجھے دیکھتے ہی دور سے کہا، مل کر آ رہے ہو اپنے ملتانی وزیر اعظم سے۔ میں نے کہا‘ تو سر مان لیں۔ آپ نے ملک کے لوگوں اور کسانوں کے لیے کچھ کرنا ہے کسی حکمران کی خدمت نہیں کرنی۔ بولے‘ یار یہ کام نہیں کرنے دیں گے۔ پھر مقدمات بنیں گے، پہلے ہی بائیس بھگت رہا ہوں، پھر مزید بنیں گے۔ تم جانتے ہو میں نے کام رولز اینڈ ریگولیشنز دیکھ کر نہیںکرنا، زراعت رولز پر نہیں چلتی۔ پھر میرے خلاف خبریں، سکینڈلز اور نیب کے مقدمے بنیں گے، سازشیں اور انکوائریاں ہوں گی، مجھ سے اب یہ نہیں ہوتا۔ میں نے کہا‘ سر جی جہاں بائیس مقدمات بھگت رہے ہیں وہاں چند اور بھگت لیجیے گا، کیا فرق پڑے گا۔ اس پر انہوں نے زور سے قہقہہ لگایا... مجھے دیکھا اور بولے تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا‘ سر جی کر لیں۔ زرعی ترقیاتی بینک کے سربراہ، وزیر اعظم کا ایڈوائزر یا وزارت زراعت میں اپنی مرضی کے عہدے کی پیشکش ہے اور یہ وعدہ کہ کوئی مداخلت نہیں ہو گی۔
بولے‘ چھوڑ یار، میں نے کیا کرنے ہیں اتنے بڑے عہدے۔ اپنے ملتانی وزیر اعظم سے کہو‘ مجھے پاکستان ریسرچ کونسل کا چیئرمین مقرر کر دے۔ میری حیرت کو نظر اندازکر تے ہوئے کہا، کچھ ریسرچ کرا لوں گا۔ میں نے کہا‘ سوچ لیں، گلے میں مصیبت ڈال رہے ہیں۔ وفاقی وزیر زراعت تو ایک طرف رہا، آپ کو تو وزارت میں بیٹھا سیکشن افسر ہی نہیں چلنے دے گا۔ آپ نے کسی کی سننی نہیں اور انہوں نے روزانہ آپ کے خلاف خبریں لگوانی ہیں۔ ہنس کر بولے، تم ہو ناں، مل جل کر بھگت لیںگے، اور نئے مقدمات بھی...
گیلانی صاحب بھی حیران ہوئے تاہم دو سال کے لیے ان کا نوٹیفکیشن جاری کروا دیا۔ ہماری دوپہر کی ملاقاتیں اور لنچ ختم ہو گیا۔ میری بیوی ہنس کر کہتی، بچّو اب آیا ناں اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ اب گھر بیٹھ کر کھانا کھائو۔ ڈاکٹر صاحب کے مفت کے کھانے بہت کھا لیے۔ ان کی آدھی سے زیادہ کمائی تو آپ جیسے دوستوں کے کھانوں پر خرچ ہو جاتی تھی، پتا نہیں اپنا گزارہ کیسے کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کہاں باز آنے والے تھے۔ طے ہوا اب لنچ دو بجے کی بجائے چار بجے ہوا کرے گا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ نوکری کے ساتھ پرانے دوست بھی غائب ہو جائیں۔ ایک ہفتے بعد مجھے کہا‘ بچُّو کام شروع ہو گیا ہے۔ کہا تھا ناں مسئلہ ہو گا۔ وزیر زراعت ناراض ہیں کہ میں ان سے ملنے دفتر کیوں نہیں گیا۔ انہیں سلام کیوں نہیں کیا۔ کچھ دن بعد بتایا، گیلانی صاحب کے برخوردار کا فون آیا تھا کہ فلاں صاحب کا تبادلہ کینسل کر دیں۔ میں نے کہا‘ آپ انکار کر دیں۔ بولے کر دیا ہے۔ مزید چند دن گزرے تو ایوان صدر سے ایک چہیتی سیاستدان کا فون آیا کہ فلاں کا تبادلہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ کر دیں۔ مجھے جواب کا علم تھا۔ ایک ماہ گزرا تو فون آیا‘ آپ نے سندھ کے فلاں بندوں کے جو ٹرانسفر کیے ہیں، ادّی چاہتی ہیں انہیں واپس بھیج دیا جائے۔ وہ سب کو انکار کرتے گئے۔ مجھے علم تھا، کام شروع ہو چکا ہے۔ دشمنوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ اسی دوران ایوان صدر نے انہیں اہم اجلاسوں میں بلانا شروع کیا۔ زرداری انہیں پہلے سے جانتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے، ڈاکٹر صاحب کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کے دماغ کی کلوننگ کرا لی جائے تاکہ جب آپ اس دنیا میں نہ رہیں تو آپ کا علم ضائع نہ ہو؟
چین کے ساتھ زراعت کے بہت سے معاہدے طے پا رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ہی چین کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ زرداری صاحب بلاشبہ چاہتے تھے کہ چینی مدد سے پاکستانی زراعت کو بہتر کیا جائے۔ اس سلسلے میں خاصا کام بھی ہو رہا تھا اور ڈاکٹر صاحب خوش تھے کہ زرداری واقعتاً اس دفعہ زراعت اور کسانوں کے لیے کچھ کرنے کو سنجیدہ ہیں؛ تاہم ان کی اپنے وزیر کے ساتھ نہیں بن پا رہی تھی۔ رہی سہی کسر صدر کے قریبی لوگ پوری کر رہے تھے‘ جنہیں وزیر کی حمایت حاصل تھی۔ وہ چاہتے تھے ڈاکٹر کی چھٹی کرا دی جائے۔ ایک دن کہنے لگے، کیسے کام کیا جائے۔ جو لوگ بیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے گئے تھے وہ واپس آنے کو تیار نہیں، بچے کھچے کام کے لوگ ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں لیکن وہ بھی اسلام آباد سے باہر جانے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں ان کے منصوبے ناکام ہو رہے تھے۔ انہوں نے پہلی بار سختی کی اور زرعی ڈاکٹروں کو بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اور پنجاب بھیجنا شروع کیا۔ ساتھ ہی این اے آر سی کو زرعی یونیورسٹی میں تبدیل کرنے پرکام شروع کر دیا۔ اس ادارے کے ٹی وی اسٹیشن پر بھی کام شروع کرایا تاکہ کسانوںکو ٹی وی چینل کے ذریعے جدید ترین ریسرچ سے آگاہ کیا جائے۔ کسانوں کا اپنا چینل ہو جہاں ماہرین اور عالم لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کر سکیں۔ نیا خون لانے کے لیے انہوں نے این اے آر سی میں ایسی نئی بھرتیوںکا فیصلہ کیا جو فیلڈ میں کام کر سکیں۔ ان پر تنقید شروع ہوئی کہ بغیر قاعدے کے نوکریاں دے رہے ہیں۔ شور اٹھنے لگا۔
ایک دن میرا بھانجا منصور‘ جو اکنامکس میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا‘ میرے پاس آیا اور بتایا کہ وہ این اے آر سی میں اپلائی کر آیا ہے اور ریفرنس سیکشن میں میرا نام لکھ دیا ہے۔ میں نے اسے ڈانٹا کہ وہ میرا نام دیکھ کر تمہیں نوکری دے دیں گے۔ مجھے علم ہے، ان نوکریوں کے ایشو پر مسائل ہوں گے کیونکہ وہ قانون قاعدے پر نہیں چلتے، ان کا اپنا قاعدہ اور قانون ہے۔ میں نہیں چاہتا میری دوستی کی وجہ سے ان پر انگلی اٹھے۔ منصورکی مہربانی کہ وہ اپنی درخواست واپس لے آیا اور دو سال مزید بیروزگار رہا لیکن کبھی گلہ نہیںکیا۔
ڈاکٹر صاحب کے ریسرچ کونسل میں دو برس پورے ہونے والے تھے۔ وزیر زراعت اپنی کوششوں میں کامیاب ہو رہے تھے کیونکہ ان کے کہنے پر نوکریاں نہیں دی جا رہی تھیں۔ وزیر موصوف نے اپنے ساتھ پیپلز پارٹی کے کچھ اور وزیر بھی ملا لیے۔ ڈاکٹر صاحب بھی جان چکے تھے کہ بس کافی ہو گیا۔ ان کے خدشات درست ثابت ہو رہے تھے۔ زرداری کے ایک قریبی ساتھی جسے پانی سے متلعق ذمہ داری دی گئی تھی، مال پانی بنانے کے چکر میں تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے حصہ دار بننے سے انکار کیا تو وہ بڑے دشمن کے طور پر ابھرے۔ جب کنٹریکٹ کی تجدید نہیں ہو رہی تھی تو میں نے گیلانی صاحب کو پیغام بھیجا کہ آپ ڈاکٹر صاحب کو بلا کرکھانا کھلائیں اور انہیں عزت سے جانے دیں۔ آپ کی مہربانی کہ آپ نے اپنی حد تک وعدے کی پاسداری کی اور انہیں تنگ نہیں کیا۔ گیلانی صاحب نے ایک اور کام کیا۔ ڈاکٹر صاحب کو وزیر اعظم ہائوس بلایا، عزت دی،کھانا کھلایا اور جب رخصت کرنے لگے تو نرگس سیٹھی کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو مزید تین سال کا کنٹریکٹ دے دیں۔ گیلانی کو علم نہ تھا کہ نرگس سیٹھی بھی ان وزیروں کے ساتھ مل چکی تھیں جو سازش کر رہے تھے۔ نرگس سیٹھی نے ٹال مٹول کر کے نوٹیفکیشن روک لیا۔ فوراً وزیرکو اطلاع دی جو امریکہ میں تھے کہ کچھ کر سکتے ہو تو کر لو۔ وزیر فوری طور پر واپس آ گیا اور پیپلز پارٹی کے وزیروںکی ایک فوج لے کر زرداری کے پاس گیا۔ وہ پہلے ہی تپے بیٹھے تھے۔ حکم ہوا ڈاکٹر الطاف کو توسیع نہیں ملے گی۔ وزیر اعظم گیلانی بے بس ہو گئے۔ زرداری کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی۔ زرداری کے سیکرٹری ملک آصف حیات نے ایک توہین آمیز لیٹر جاری کیا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کی انکوائری ہو گی۔ یہ وہی ملک صاحب تھے جو خود ایوان صدر کے غریبوں اور بیوائوںکے فنڈ سے چالیس لاکھ روپے کی عیدی لے چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بولے، چلو یار شکر ہے، جان چھوٹی، اب دوبارہ لنچ دو بجے ہوا کرے گا۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ جان چھوٹی نہیں بلکہ پھنس گئی تھی۔ وزیر زراعت، نرگس سیٹھی اور پنجاب حکومت ان کے خلاف کچھ اور طے کر کے بیٹھے ہوئے تھے اور ایسے مقدمے بننے و الے تھے جو ان کے ساتھ قبر تک جائیں گے۔
ڈاکٹر ظفر الطاف کے لیے ایک دفعہ پھر مشکل دور شروع ہو چکا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں ہی ان کی نئی تکلیفوںکا ذمہ دار ہوں۔ مجھے شوق تھا کہ وہ ملک و قوم کے لیے کام کریں۔ کام گیا بھاڑ میں، اب ان کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئی تھی اور حکم وزیر اعظم گیلانی کی پرنسپل سیکرٹری کی طرف سے ہوا تھا۔گیلانی صاحب بھی ڈبل گیم کھیل رہے تھے۔ ہم سب بیٹھے لنچ کر رہے تھے کہ نیب عدالت سے سمن ملے، کل آپ کی زرداری اور بینظیر بھٹو کے ٹریکٹر ریفرنس کیس میں گواہی ہے۔ تشریف لائیں۔ ہنس کر بولے، آج زرداری نے میرے خلاف انکوائری کا حکم جاری کرایا ہے اور کل عدالت مجھے بلا رہی ہے کہ میں گواہی دوں کہ انہوں نے ٹریکٹرز امپورٹ میںکتنا مال بنایا تھا! میں تجسس کا شکار تھا کہ زرداری سے اپنے خلاف انکوائری کے آرڈر ملنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کل عدالت میں بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف کیا گواہی دیں گے؟ (جاری)