بلائیں اور بھی بہت سی ہیں اور بہت آسانی سے انہیں بلائے جاں میں تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے‘ مگر ہماری یعنی اس قوم کی تان ٹوٹتی ہے تو صرف کھانے پینے پر۔ ویسے تو خیر کون سا معاملہ ہے جس میں ہم ٹرینڈ سیٹر کے درجے پر فائز نہیں ہوئے یعنی کسی بھی رجحان کو اپنے قومی وجود پر مسلط کرنے میں ہم نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی‘{ مگر کھانے پینے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ یہ چمن عجب بہاریں دکھاتا رہتا ہے۔ ایک زمانے سے ہمارا محبوب ترین مشغلہ، مصروفیت اور مہارت اشیائے خور و نوش سے بے مثال انداز کا اظہارِ محبت و عقیدت ہے۔ اور دنیا یہ تماشا دیکھتے ہوئے ایسی مست و بے خود ہو جاتی ہے کہ داد دینے کا بھی ہوش نہیں رہتا!
جیسے ہی سورج طلوع ہوتا ہے، ہمارے معدوں کا سورج نصف النہار پر پہنچ جاتا ہے۔ دن کا آغاز ہونے پر اہلِ جہاں طے کرتے ہیں کہ آج کیا کیا کرنا ہے اور اپنے وقت کو کس طور بروئے کار لانا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت ہو۔ یہاں آنکھ کھلتے ہی یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کھانا اور پینا کیا ہے! اور پھر کھانے پینے کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران شکم سیر ہو رہنے کی کئی منزلیں آتی ہیں اور ہمارا معدہ بارہا پکار اٹھتا ہے کہ ''بس کر دو، بس‘‘ مگر ہم ہیں کہ سُنتے ہی نہیں۔ دنیا والے اب تک دقیانوسی ذہنیت کے حامل ہیں‘ اور زندہ رہنے کے لیے کھاتے ہیں۔ ہم نے کھانے کے لیے زندہ رہنے کی ''تابندہ‘‘ روایت کو دانتوں سے پکڑ رکھا ہے!
اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ دنیا والے ہمیں ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے کی روش سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح سندھ حکومت رینجرز کے اختیارات محدود کرکے کام نکالنا چاہتی ہے‘ بالکل اسی طرح دنیا والے بھی ہماری کھانے پینے کی عادات پر طرح طرح کی پابندیاں لگا کر، انہیں محدود کرکے اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ اور سب سے کارگر بہانہ ہے تحقیق کا۔ دنیا بھر میں تحقیق کا بازار گرم ہے اور ہر تحقیق کے نتیجے میں یہ کہتے ہوئے ہمیں اور ہم جیسی دو چار دوسری ''شکم پرست‘‘ اقوام کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ زیادہ کھانے سے وزن بڑھتا ہے، جسم بے ہنگم ہو جاتا ہے اور مختلف بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ کھانے پینے کے سائڈ ایفیکٹس سے متعلق تحقیق بیماری بن کر ہم سے چمٹ گئی ہے!
ہماری کھانے پینے کی عادت نے ایک زمانے کو پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ دنیا والوں نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم یونہی کھاتے رہے تو ان کے لیے کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں بچے گی! ماہرین رات دن ایک کرکے کسی نہ کسی طور ہمیں کم کھانے پر آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
کیا واقعی زیادہ کھانا پینا خطرناک ہوتا ہے؟ کیا واقعی ایسا ہے کہ بہت زیادہ کھانے پینے والے کم جیتے ہیں اور وہ بھی بیماریوں کے ساتھ؟ کوئی کچھ بھی کہے اور کہتا رہے، ہمیں تو ایسا نہیں لگتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ زیادہ کھانے سے موت آسان ہو جاتی ہے۔ اور یہاں ہم ہیں کہ مرتے ہی کھانے پر ہیں! ماہرین جس نکتے پر تحقیق کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں وہ پاکستانیوں نے کب کا نمٹا دیا ہے... یہ کہ زیادہ کھانے سے موت کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہوا کرتا تو کیا آج ہم یہ سب کچھ لکھ رہے ہوتے اور آپ پڑھ رہے ہوتے؟
کھانے پینے کے شدید منفی اثرات کے حوالے سے ایک تازہ تحقیق یہ سامنے آئی ہے کہ برگر، پیزا اور دیگر فاسٹ فوڈ کھانے سے جسم کو چکنائی کی زیادہ مقدار ملتی ہے جس کے نتیجے میں موٹاپا ہی وارد نہیں ہوتا‘ بلکہ مزاج پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جسم کا معاملہ تو ہم بھی سمجھتے ہیں۔ زیادہ کھانے سے موٹاپے کی راہ ہموار ہوتی ہے اور کبھی کبھی طبیعت بہت گراں سی ہو جاتی ہے‘ مگر مزاج پر منفی اثرات؟ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر چکنائی والی چیزیں کھانے سے موٹاپا طاری نہ ہو تب بھی انسان اداسی کے آغوش میں ضرور چلا جاتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کہاں کھانا پینا اور کہاں اداسی؟ سچ تو یہ ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی اگر کھانے پینے کو نہ ملے تو طبیعت کو اداسی گھیر لیتی ہے! آپ ہی سوچیے، آپ کے چار دوست مل کر ڈبل کباب اور پورے انڈے والا بھرپور برگر کھا رہے ہوں اور آپ کے لیے آرڈر نہ دیا ہو تو کیا اداسی آپ کو اپنے آغوش میں نہیں لے گی؟
ہم نے شادی کی تقریبات میں بہت سے لوگوں کو کھانا کُھلنے سے پہلے تک بھرپور اداسی کی حالت میں دیکھا ہے۔ انہیں دیکھ کر ''دیو داس‘‘ کے دلیپ کمار کی یاد تازہ ہو جاتی ہے! اور جیسے ہی کھانا کھلتا ہے، اُن کی خوشی قابل دید ہوتی ہے۔ بریانی یا قورمے سے بھری ہوئی پلیٹ ہاتھ میں آتے ہی اُن کے پورے وجود سے اُداسی کا ہر ذرّہ جھڑ جاتا ہے اور وہ پژمردگی کے خول سے نکل کر دوبارہ زندگی کے سائے میں آجاتے ہیں! اور پھر وہ جس ولولے کے ساتھ اللہ کی نعمتیں اپنے معدے میں دھکیلتے اور انڈیلتے ہیں اُسے دیکھ کر ''مدر انڈیا‘‘ کا مشہور گیت یاد آتا ہے جو تصرّف کے ساتھ یُوں بنتا ہے ع
دنیا میں ہم آئے ہیں تو ''کھانا‘‘ ہی پڑے گا!
ماہرین نے زیادہ کھانے پینے کا تعلق اُداسی سے جوڑ کر ایک ایسے لطیفے کو جنم دیا گیا ہے جو ہم کسی طور ہضم نہیں کر سکتے۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ زندگی کی تمام خوشیوں کا تعلق کھانے پینے سے ہے۔ اگر کھانے پینے کی باضابطہ اشیاء میسر نہ ہوں تو پاپ کارن، پاپڑ، چپس، چنے، مونگ پھلی... الغرض یہ کہ جو کچھ بھی مل جائے غنیمت ہے۔ کھاتے جائیے اور زندگی کا ساتھ نبھاتے جائیے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ بنیادی سوال ابھر چکا ہو کہ ہم آخر اس قدر کیوں کھاتے ہیں اور ہماری زندگی صرف کھانے پینے کے گرد کیوں گھوم رہی ہے۔ بات صاف اور سیدھی ہے کہ جب زندگی میں کرنے کو کچھ اور نہ ہو تو صرف کھانا پینا ہی رہ جاتا ہے۔ ہماری سرکاری مشینری کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ جب اُس سے کوئی ڈھنگ کا کام لیا ہی نہیں جائے گا اور بہتر انداز سے کچھ کرنے کی تحریک دی ہی نہیں جائے گی تو وہ بیٹھے بیٹھے کیا کرے گی؟ ظاہر ہے کھانا پینا شروع کر دے گی تاکہ اُداسی دور ہو! ہم نے اب اپنی اجتماعی نفسیات کے تختے پر یہ بات کیل کی طرح ٹھونک لی ہے کہ طبیعت کو ہشّاش بشّاش رکھنا ہے تو لازم ہے کہ کچھ نہ کچھ کھاتے رہیے۔ جہاں ہاتھ رُکا، طبیعت کو اُداسی نے آن گھیرا۔ یہ منظر تو آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ کبھی کبھی گھر میں اچھی خاصی محفل جمی ہو اور سبھی جوش و خروش سے بتیا رہے ہوں تب کوئی صاحب اچانک پُکار اٹھتے ہیں ارے نو بج گئے، بھئی کھانا لگاؤ۔ یعنی ہمارے ہاں کھانا بھی گھڑی دیکھ کر کھایا جاتا ہے، پیٹ کی ضرورت دیکھ کر نہیں۔ بھوک لگی ہو یا نہ لگی ہو، کھانا لگ جانا چاہیے! آپ ہی بتائیے ایسا ٹرینڈ بھلا کہاں ملے گا؟
ایک دن اِس دنیا سے گزر ہی جانا ہے۔ قلم کے ذریعے الفاظ کی مدد سے ذہن کی دنیا کو کاغذ پر منتقل کرنے والے شعرا اور نثر نگار تو یہ کہتے ہیں کہ ہنستے گاتے جینا چاہیے۔ ''انداز‘‘ میں آں جہانی کشور کمار نے بھی پیغام دیا تھا ؎
ہنستے گاتے جہاں سے گزر
دنیا کی تو پروا نہ کر
مسکراتے ہوئے دن بِتانا
ہمارا پیغام ذرا سی تبدیلی کے ساتھ یہ ہے کہ ؎
کھاتے پیتے جہاں سے گزر
ماہرین کی تو پروا نہ کر!
کوئی کچھ بھی کہے اور کہتا رہے، ہمیں اپنا ''مشن‘‘ یاد رہنا چاہیے۔ اللہ نے جو نعمتیں خلق کی ہیں اُن میں سے کسی کی لذت سے ہمارے کام و دہن نا آشنا نہ رہ جائیں!