تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     21-12-2015

کانگریس کو ہوا کیا ہے ؟

میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کانگریس پارٹی کو ہوا کیا ہے ؟دنیا کی سب سے بڑی اور ملک کی سب سے پرانی پارٹی نے عقل سے کام لینا کیوں بند کر دیا ہے ؟اگر سونیا گاندھی اور ان کے صاحب زادے نے 'نیشنل ہیرلڈ‘کی قریب قریب دو ہزار کروڑ کی ملکیت اپنے نام کروا لی ہے تواس سارے معاملے سے عدالتوں کو نمٹنے دیں ۔وہ بڑا لین دین تو ماں بیٹے نے وکلا سے دریافت کرکے ہی کیا ہوگا۔چدمبرم اور کپل سبل جیسے نامی گرامی وکیل ماںبیٹے کی خدمت میں پہلے سے ہی ہیں ۔یہ ٹھیک ہے کہ ماںاور بیٹا دونوں ہی خاص پڑھے لکھے نہیں ‘لیکن ان میں اتنی عقل تو ہے کہ اتنا بڑا لین دین کرتے وقت وہ قانون کی گرفت میں نہ آجائیں ۔پتا نہیں عدالت سے وہ اتنا کیوں ڈر گئے ہیں ؟عدالت نے ان کے خلاف ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں دیا ۔صرف اتنا کہا ہے کہ ملزموں کی چال مجرموں جیسی معلوم پڑتی ہے جنہوں نے ایک ٹرسٹ کی ملکیت اپنے نام کروا لی ہے‘ملزم عدالت میں پیش ہوں ‘یہ کہہ کر ججوں نے کیا گناہ کر دیا ہے؟اندر اگاندھی اور نرسمہا راؤجیسے قدآور لوگ بھی عدالت میں پیش ہوتے رہے ہیں ۔سب سے زیادہ حیران کرنے والی بات تو یہ ہے کہ عدالت میں پیشی کے سوال پرپارلیمنٹ کے دونوں سدن ٹھپ کر دیے گئے !بھلا‘پارلیمنٹ نے ماں بیٹے کا کیا بگاڑا تھا؟وہاں تو انہیں روز بیٹھنا چاہیے تھا ۔اس بات کی انہیں تنخواہ ملتی ہے لیکن نہ تو وہاں خودمعمول کے مطابق جاتے ہیں اور وہ اب نہ دوسروں کو جانے دیتے ہیں ۔
عدالت کا غصہ پارلیمنٹ پر اتارنے سے کانگریس کا کیا فائدہ ہوگا ؟بلکہ نقصان ہوگا ۔سارے ملک میں فضول بدنامی ہوگی ۔بوفورس کے داغ ابھی تک دھلے نہیں ہیں ۔اب ملک کے بچے بچے کو نیشنل ہیرلڈ کے غبن کا پتا چل جائے گا ۔اگر کانگریس یہ دھینگا مشتی نہیں کرتی اور ماں بیٹا بڑی عزت کے ساتھ اپنا مقدمہ لڑتے تو شاید وہ جیت جاتے ۔یہ بات اور بے تُکی ہے کہ سبرامنیم سوامی مودی سرکار کے اشارے پر ماں بیٹے کو پھنسا رہے ہیں۔ڈاکٹر سوامی اپنی مرضی کے مالک خود ہیں۔اگر ان کا بس چلے تو وہ مودی کوبھی کسی نہ کسی مقدمے میں پھنسا دیں ۔اس مقدمہ کی بنیاد پریہ کہنا کہ یہ بھارت کو کانگریس سے فری بنانے کیلئے کیا جا رہا ہے ‘بالکل غلط ہے ۔سونیا ‘راہول اور ان کے چھ سات ساتھیوں کو جیل ہو گئی تو کیا کانگریس جیسی عظیم پارٹی ختم ہو جائے گی ؟اگر ہاں ‘توایسی نکمی پارٹی کو جلدی سے جلدی ختم کیوں نہیں ہو جانا چاہیے ؟کانگریس کی جیسی خراب حالت آج ہے ‘تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی ۔اس پارٹی کو بچانا بہت ضروری ہے۔بھارتی جمہوریت کیلئے یہ ضروری ہے۔اس لیے امید کی جاتی ہے کہ کانگریس مضبوطی کا مظاہرہ کرے گی ۔اگر وہ بھی نوٹنکیوں میں الجھ گئی تو اس بھارت کا کیا ہوگا ؟
عدالت اور سلمان دونوں کا نقصان
ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے سے سارا ملک حیران ہے ۔جو لوگ سلمان خان کے پرستار ہیں ‘وہ تو خوش ہیں لیکن ان کی نظر میں بھی بھارتی عدالتوں کی عزت دو کوڑی نہیں رہ گئی ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ عوامی رائے کی بنیاد پرعدالت کے فیصلے نہیں کیے جاسکتے لیکن اس فیصلے کی بنیاد تو یہی معلوم پڑتی ہے ۔اس فیصلے نے تو خود کے گلے میں ہی پھانسی ڈال لی ہے ۔فیصلہ لکھتے وقت جج کا جوبھی حساب رہا ہو‘یہ طے ہے کہ بھارت کے عدالتوں کی تاریخ میں یہ فیصلہ سب سے زیادہ داغ دار بحث میںمانا جائے گا ۔اس طرح کے کئی فیصلے پہلے بھی ہوئے ہیں لیکن ان مقدمات میں ڈھیل کے کئی مقام تھے‘ شک کی کئی گنجائشیں تھیں لیکن اس مقدمے میں کون سا شک تھا؟ جس کار سے فٹ پاتھ پر سوتا ہوا نوراللہ مارا گیا اور چاردیگر لوگ زخمی ہوگئے ‘کیا وہ کار شراب خانے سے خود چل کر اس فٹ پاتھ تک پہنچی تھی ؟کیا ممبئی کی کاریں بنا ڈرائیور کے ہی چلتی ہیں ؟کیا بھارت میں 'ڈرائیور لیس ‘ کاریں بننے لگی ہیں ؟پانچ لوگ زخمی ہوئے اور کار سے ہوئے تو اسے کوئی نہ کوئی تو چلا ہی رہا ہوگا؟ سلمان نہ سہی ‘اس کا ڈرائیور اشوک بھی نہیں تو کیا یہ مان لیں کہ وہ کار آسمان سے اُڑ کرآئی اور ان مزدوروں پر گر پڑی ؟یہ تو ایسا ہی ہے ‘جیسا بوفورس کے معاملے میں ہوا۔رشوت پکڑی گئی‘ دینے والے کا پتا چل گیا لیکن عدالت نے لینے والے کو غائب کر دیا۔ آج اس بات پر پھر سے دھول پڑ گئی ہے کہ قانون سب کیلئے برابر ہے ۔اگر ایسا ہے تو سونیا گاندھی ‘راہول اور آسارام کو کیوں پھنسایا جا رہا ہے ؟ایک فلمی ہیرو سے یہ لوگ کافی بڑے ہیں ۔
سلمان کے بچ نکلنے سے ا س کے والد سلیم خان سب سے زیادہ خوش ہوں گے ۔وہ خود بے حد سجن اور سنجیدہ انسان ہیں۔ سلمان کے بارے میں بھی اس کے دوست اچھی باتیں مجھے بتاتے رہتے ہیں ۔اس فیصلے سے جتنا نقصان اس جج کا ہو رہا ہے ‘اس سے زیادہ سلمان کا ہوگا۔اگر سلمان حادثے کے وقت ہی مردانگی کا مظاہرہ کرتے ‘زخمیوں کو ہسپتال لے جاتے اور ان کی خدمت کرتے تو شاید ان پر مقدمہ ہی نہیں چلتا ۔مان لیا کہ نشے میں ہوش نہیں رہا‘ اگر بعد میں وہ اپنا جرم قبول کر لیتے‘ متاثرین کی امداد کرتے اور عدالت سے رحم کی اپیل کرتے تو ان کے پانچ سال کی سزا نام کی ہی رہ جاتی ۔وہ دشمن فلم کے ڈرائیور راجیش کھنہ سے کچھ سبق لیتے تو وہ ابھی صرف فلموں کے ہیرو ہیں ‘تب وہ ملک کے ہیروبن جاتے ۔وہ ساری دنیا میں مثال بن کر رہ جاتے ۔ان کے والد سلیم خان ہی نہیں ‘سلمان پر تنقید کرنے والے بھی فخر کرتے ۔
گجرات کی تین اٹ پٹی خبریں 
ابھی میں احمدآباد آیا ہوا ہوں ۔جونہی صبح اخبار دیکھے تو ‘تین خبروں نے میر ادھیان ایک دم کھینچا ۔ایک تو احمدآباد میں لگے سنجے جوشی کے پوسٹروں نے ‘دوسرا ‘پہلی جماعت سے ہی انگریزی کو لازمی کرنے کے ارادے نے اور تیسرا گجرات میں ہوئے مقامی چناوں کے آنکڑوں کو چھپائے رکھنے پر !ان تینوں خبروں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا یہ وہی گجرات ہے‘ جسے نریندر مودی نے سارے ملک میں نمونے کی طرح پیش کیاتھا؟یہ تین خبریں گجراتی سیاست کے دیوالے پن کا ثبوت ہیں۔اس کے لئے وزیراعلیٰ آنندی بین کوذمہ دار ضرور ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ نریندر مودی ہی ہے۔
سنجے‘ جوشی سنگھ کے نہایت ہی ہردل عزیزخدمت گار ہیں ۔بی جے پی کے صدر سے زیادہ بھیڑآج بھی سنجے جوشی کے گھر پرروز ہوتی ہے ۔سنجے کسی بڑے عہدے پر نہیں ہیں لیکن سارے ملک میں ان کے چاہنے والے ہیں ۔سنجے کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ نریندر مودی انہیں اپنا ذاتی دشمن مانتے ہیں ۔سنجے کے خلاف مودی نے پارٹی میں مورچہ کھول رکھا ہے لیکن عجیب ہیں گجرات کے لوگ کہ مودی کی ناک کے نیچے احمدآباد میں بار بار سنجے کے پوسٹرلگتے ہیں اور ان کو دیکھنے کیلئے یہاںبھیڑ امڈتی ہے۔ احمدآبادکی پولیس ان بی جے پی کارکنوں اور سنگھ کے کارکنوں کو گرفتار کرنا چاہتی ہے ‘جنہوں نے 'سنجے لائو بھاجپا بچائو‘کے پوسٹر لگا رکھے ہیں ۔ظاہر ہے کہ شہر کی پولیس یہ کام کسی نہ کسی کے اشارے پر کر رہی ہے ۔یہ بالکل غیر قانونی اور غیر جمہوری کام ہے ۔ان پوسٹروں کی وجہ سے سنجے جوشی کوئی گجرات کے وزیراعلیٰ نہیں بن جائیں گے۔ وہ لگے ہوئے ہیں تو لگے رہیں ۔18 دسمبر کو اگر مودی گجرات آرہے ہیں توآئیں ۔کیا وہ اتنے کمزور ہیں کہ ان پوسٹروں کو دیکھ کر ڈر جائیں گے ؟
دوسری خبر یہ ہے کہ گجرات سرکار پہلی جماعت سے ہی بچوں پر انگریزی لادنا شروع کرنا چاہتی ہے ۔ہرن پر گھاس لادنے کا یہ غیر رواجی کام ہمارے عقلمنداور دوراندیش لیڈر نے ہی شروع کیا تھا ۔انہوں نے وزیراعلیٰ کے طور پر تیسری جماعت سے انگریزی تھوپی تھی ۔ان کی منشا تو بہت اچھی تھی کہ گجراتی بچے نوکریوں سے محروم نہ رہیں لیکن اس کیلئے ان میں عقل اور ہمت دونوں ہوتے تو وہ سرکار کی بھرتی کے امتحانات سے انگریزی کو ہٹوا دیتے لیکن انہوں نے شراب نوشی کا علاج یہی سمجھا کہ شرابی کو دوبوتل اور پلا دو۔گجرات سرکار جو کچھ کرنے جا رہی ہے ‘اس سے لاکھوں بچوں کا ذہن تو معذورہوگا ہی ‘ محب وطن ہونے کے جذبے کو بھی ٹھیس لگے گی۔اس لیے گزشتہ ڈیڑھ برس میں ہندی کے معاملے میں مودی سرکار ڈیڑھ انچ بھی آگے نہیں بڑھی ہے ۔
تیسری خبر یہ ہے کہ گجرات کے الیکشن کمشنر بریش سنگھ نے ابھی تک مقامی انتخابات کے صحیح آنکڑے پیش نہیں کیے ہیں جبکہ انہیں یہ کام دس دن پہلے ہی کر دینا چاہیے تھا ۔اس چناؤ میں بھاجپا نے شہروں میں 3.3 فیصد‘ضلع پنچایت میں 6.21 فیصد اور تعلقہ پنچایت میں 5.36 فیصد ووٹ کھوئے ہیں ۔کانگریس کے 9 فیصدی ووٹ بڑھے ہیں ۔بریش سنگھ گجرات کے چیف سیکرٹری تھے ۔وہ مودی کے چہیتے ہیں ۔انہیں ریٹائر ہونے کے بعد اس اہم پوسٹ پر تعینات کیا گیا ہے ۔ بھلا‘ان کے منہ سے اپنے مہربان کے شکست کی کہانی اتنی جلدی کیسے پھوٹ سکتی ہے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved